ملکوں اور قوموں کے درمیان دوستی یا دشمنی جذباتی بنیادوں کی بجائے ملکی مفادات و خطرات کے پیش نظر ہوا کرتی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا ہے اور ہم بھی شاید اپنے ملکی مفاد کی خاطر ہی اس کے ساتھ جڑے رہے ہیں۔ چین کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوے اقتصادی اور سیاسی تعلقات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان نے خارجہ پالیسی میں اپنی خودمختاری کو قائم رکھا ہوا ہے۔
البتہ یہ بات بھی غلط نہیں کے امریکہ کے ساتھ ہر مشکل وقت میں تعاون کرنے کا پاکستان کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے اور دوسرا امریکہ نے کبھی اس بات کا عملی اعتراف تک نہیں کیا کہ اگر پاکستان تعاون نہ کرتا تو امریکہ روس اور افغانستان کے لیے بچھائے گئے جال میں خود پھنس کے بہت نقصان اٹھا چکا ہوتا۔ امریکہ کے بارے دنیا بھر کے تجزیہ کار تسلیم کرتے ہیں ہیں کہ وہ ہمیشہ دوغلے معیارات اور دوہری پالیسی کے ساتھ چلتا ہے۔
امریکہ کی اپنے اتحادیوں کے ساتھ دوہری پالیسیوں پر عمل پیرا ہونے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ سرد جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان کو فوجی امداد فراہم کی جبکہ بھارت کی معاشی ترقی میں بھی مدد کی۔ اس دوہری پالیسی کا مقصد خطے میں سوویت یونین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا تھا۔ حالیہ برسوں میں بھی امریکہ نے پاکستان کے ساتھ دوہری پالیسی جاری رکھی ہوئی ہے۔ ایک طرف امریکہ پاکستان کو نمایاں فوجی امداد فراہم کرتا ہے جس کا مقصد دہشتگردی سے نمٹنا اور خطے میں استحکام لانا ہے۔ دوسری طرف، امریکہ پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ، اقلیتوں کے ساتھ برتاو اور دہشت گرد گروہوں کی مبینہ حمایت کے الزامات لگا کر دباؤ میں بھی رکھتا رہا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا کلیدی اتحادی رہا ہے اور اس ملک کو امریکہ کی طرف سے نمایاں فوجی امداد بھی ملی ہے۔ تاہم امریکا کی جانب سے دوہری پالیسی پر عمل پیرا ہونے سے دونوں ممالک کے درمیان تناو بھی پیدا ہوا ہے۔
پاکستان طویل عرصے سے یہ محسوس کر رہا ہے کہ امریکہ بھارت کی فوجی تشکیل اور پاکستان میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کی مبینہ حمایت کے بارے میں اپنے خدشات کو دور کرنے کیلئے کافی نہیں کر رہا ہے۔ دوسری جانب امریکا پاکستان کی جانب سے اپنی سرزمین پر سرگرم دہشتگرد گروپوں کے خلاف کارروائی میں ناکامی پر تنقید کرتا رہا ہے۔ حالانکہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیاں، جدوجہد اور کامیابیاں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ بین الاقوامی تجزیہ کار یہ جانتے ہیں کہ پاکستان کے چین کے ساتھ بڑھتے روابط امریکہ سے ہضم نہیں ہو رہے اور اسے پاکستان کو دباؤ میں لانے کیلئے بہانوں کی تلاش ہے۔ آج کل پاکستان کا میزائل پروگرام امریکہ کی طرف سے جانچ پڑتال اور بلاجواز مداخلت کا موضوع بن رہا ہے۔ امریکہ نے پاکستان اور ایران میں بیلسٹک میزائل اور ڈرون کی تیاری میں معاونت کا الزام لگاتے ہوئے، نو پاکستانی اداروں سمیت دو درجن سے زائد کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔
امریکہ کا دعویٰ ہے کہ یہ کمپنیاں پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں اپنا حصہ ڈال رہی ہیں، جو علاقائی اور عالمی سلامتی کیلئے ایک اہم خطرہ ہے۔ تاہم، پاکستان کا موقف ہے کہ اس کا میزائل پروگرام مقامی ہے اور امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار نہیں کرتا، جس سے پابندیاں غیر موثر ہو جاتی ہیں۔ مزید برآں، پاکستان کا میزائل پروگرام اس کی قومی دفاعی حکمت عملی کا ایک اہم جزو ہے، جسے علاقائی سلامتی کے چیلنجوں اور بھارت کے ساتھ ملک کی دیرینہ دشمنی کے جواب میں تیار کیا گیا ہے۔ یہ پروگرام جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار امن کو برقرار رکھنے اور اسٹریٹجک توازن کو حاصل کرنے کیلئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
امریکی پابندیاں نہ صرف بلاجواز ہیں بلکہ پاکستان کے بارے میں متعصبانہ رویہ کی بھی عکاسی کرتی ہیں۔ جہاں امریکہ پاکستان پر پابندیاں لگانے میں جلدی کرتا ہے وہیں بھارت کی بڑھتی ہوئی جوہری اور میزائل صلاحیتوں پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ دوہرا معیار امریکہ کی طرف سے ہندوستان کو سٹریٹیجک ٹریڈ آتھرائزڈ ملک کے طور پر ظاہر کرتا ہے، جو اسے جدید اور حساس امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی کے قابل بناتا ہے۔ اس کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ شنگھائی کواپریں شن آرگنائزیشن کے سربراہی اجلاس کے موقع پر امریکہ کی طرچ سے ان پابندیوں کا وقت بھی مشکوک ہے۔ اس اقدام کو چین اور دیگر علاقائی طاقتوں کے ساتھ پاکستان کے بڑھتے ہوئے تعلقات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
امریکہ کے ان اقدامات کے بارے میں واضح طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے میزائل پروگرام میں امریکی مداخلت بلا جواز ہے اور ملک کے ساتھ متعصبانہ رویہ کی عکاسی کرتی ہے۔ پاکستان کو ملکی و قومی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے کا حق حاصل ہے اور امریکا کو غیر ضروری پابندیاں لگانے کی بجائے پاکستان کے اس حق کا احترام کرتے ہوئے ایک زیادہ مربوط اور مستقل پالیسی تیار کرنے کیلئے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جو خطے میں دہشت گردی، انتہا پسندی اور عدم استحکام سے پیدا ہونے والے چیلنجوں سے نمٹے۔