نام کے بعد شناختی نشان انسان کی زندگی اور موت کے مسائل حل کرنے بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ نشانات اکثر پیدائشی ہوتے ہیں مگر انسان کی پیدائش کے بعد بھی کئی شناختی نشان ابا جی کی طرف سے کی گئی چھوٹی موٹی "نصیحت" یا سبق کے طور پر بھی سامنے آتے ہیں اوران کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی "شئے" پر منحصر ہوتا ہے۔ شناختی نشان ضروری نہیں قدرتی ہوں ورنہ آجکل یہ شناختی کارڈ پر یوں بھی دیکھنے کو ملتے۔۔ ہاتھ میں چوبیس گھنٹے موبائل۔۔ سر میں سکری اور بے شمارجوئیں۔۔ بلڈ پریشر 120/180۔۔ مثلاََ شادی سے پہلے والے شناختی کارڈ میں اگر کان پر تل کی علامت لکھی ہو تو کچھ عرصہ بعد بننے والے کارڈ پر ماتھے پر زخم کا نشان بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔۔ ایک دفعہ ایک تتلی کو گاڑی چلاتے روک لیا گیا اور اس سے ڈرائیونگ لائسنس مانگا گیا اس پر فوٹو کے فرق کے بارے میں وضاحت مانگنے پر اس نے بتایا گیا کہ یہ فوٹو اس وقت کی ہے جب وہ ابھی "لاروا" تھی چنانچہ اب مجھ سے "ناروا" سلوک نہ کیا جائے۔
شناختی نشان کے طور پر ہماری ایک گلورہ نمرہ مہرہ نے نہ صرف گردن کے پیچھے چھ مہرے لکھوا رکھے ہیں بلکہ اپنے گالوں پر ڈمپل کو بک مارک رجسٹر کروا لیا ہے۔ ویسے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کے پاس کوئی شناختی کارڈ نہیں ہوتا لیکن ہر پاکستانی اسی سے اپنی جیب گرم رکھنے کو مجبور ہے حالانکہ یہ اسلام آباد جیسے ٹھنڈے شہر سے بن کر آتا ہے۔ میرے خیال میں نادرا کے کارڈز میں شناختی علامات کے اندراج کے لیے اگر عمر رسیدہ شاعروں سے خدمات لی جائیں تو وہ اسے بہت دلچسپ شناختی نشانوں سے مزین کر سکتے تھے۔ کان پنکھڑی ایک گلاب سی چہرہ کتابی۔۔ کلچہ دہن۔۔ ہونٹ گلابی چہرہ عنابی۔۔ آنکھیں جھیل جیسی اور جھپٹ چیل جیسی۔۔ گردن مانند صراحی اوپر نشانِ جراحی۔۔ ایک معروف شاعر سے اسی سلسلے میں رہنمائی لینی چاہی تو وہ آگے سے یوں گویا ہوئے؎
کافی بہکی بہکی باتیں کرتے ہیں آپ
جانے کیسی دنیا میں رہتے ہیں آپ
اگر ہمارے یہ "ممتاز" شاعر "نادرا" کو سوٹ نہ بھی کریں تو پھر ہمارے مزاح نگار اس خدمت کے لئے بے لوث حاضر رہتے ہیں۔ ویسے ہماری پوری پاکستانی عوام اگر مزاح نگار نہیں ہے تو کم از کم "مزاح پیکار" ضرور ہے۔ اگر گل نوخیز اختر سے پوچھا جائے کہ اداکارہ میرا، متیرا یا مہوش حیات وغیرہ کے آئی ڈی کارڈز پر کون کون سے شناختی نشان ہونا چاہیے تو اس کام میں ان سے ماہر بلا شبہ کوئی نہیں حالانکہ اداکاراؤں کے شناختی نشانات تو کیا نام بھی اصلی نہیں ہوتے حتی کہ ناک، کان اور تل سمیت ہر چیز میک آپ سے مزین ہوتی ہے۔ جیسے ایک شاعر نے اپنا شناختی نشان یہ ظاہرکیا "دل پر تل کا نشان" ایک پائلٹ نے کارڈ پر اپنا یہ شناختی نشان ظاہر کیا "دائیں ہاتھ پر اسٹیورٹ کاہاتھ" (جو آپ سوچ رہے ہیں وہ بھی ہو سکتا ہے) اگر صوبوں کے شناختی کارڈ بنتے تو پنجاب کے کارڈ پر یہ شناختی نشان ہوتا "جگر پر کالا باغ کا زخم" کئی صوبائی محکمے ایسے ہیں کہ ان کا شناختی نشان کاٹ کھانا یا "وَڈ" کھانا بھی ہوسکتا ہے۔۔
ہمارے ہاں مارکیٹ میں کئی اقسام کی مشینیں اور"ماہرین" دستیاب ہیں جن سے سبزی ناخن بال، چارہ کپڑا اور گوشت وغیرہ کاٹنے اور حتی کہ بینکوں میں زکوٰۃ کاٹنے کا کام لیا جاتا ہے بلکہ ایسی مشین بھی دستیاب ہے جو کہ سود سے بھی زکوۃ آسانی کاٹ "دیتی"ہے اور جادو کی کاٹ کے ماہر تو گلی گلی ملنے لگے ہیں۔ ویسے بات درخت اور جملہ کانٹا قینچی کے بغیر بھی ممکن ہے مگر دوسری جانب تھانے میں پرچہ کاٹنے کے لیے ایک جدید مشین کی درآمد کی اشد ضرورت ہے ایک معیاری مشین سے کٹا ہوا پرچہ فریقین کے لیے باعث نعمت ہے اور محکمے کے لیے بھی اس سلسلے میں AI سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ اس مشین کے استعمال میں کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہوگا اسی طرح قیدیوں کے لیے موبائل جیلیں درآمد کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ روایتی جیلیں تعمیر کرنا اور ان کا انتظام و انصرام چلانا ویسے بھی بہت مشکل کام ہے آج کل آبادی اور جرائم بڑھنے کی وجہ سے جیلوں کی حالت زار سب کے سامنے تو نہیں مگرقیدیوں کے سامنے ضرور ہے۔ آنے والے دنوں میں جیلوں میں قیدی ایسے جا رہے ہوں گے جیسے کسی بھوکے کے منہ میں چنے۔ یہاں عطاالحق قاسمی صاحب کا ایک شعر یاد آیا ہے ؎
کیسے اسے نکالوں میں زندانِ ذات سے
زندانِ ذات ہی میں مقفل تو میں بھی ہوں
وقار مجروح یہ تجویز بھی دیتا ہے کہ ہمیں ہمسایہ ممالک سے موبائل جیلیں درآمد کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے اس سے کافی مسائل کا ازالہ ہو سکتا ہے یعنی مضبوط کنٹینرز لا کر اگر نہروں کے کنارے کھڑے کر دئیے جائیں تو قیدی اس میں نہایت آسانی اور"آزادی" سے قید "کاٹ"سکتے ہیں اس سے قیدیوں کا تبادلہ آسان اور عدالت میں آنے جانے کی مشکلات میں بھی کمی ہوگی بلکہ قیدیوں کو دوسرے ممالک کے حوالے کرنا بھی آسان ہوگا ان کے لیے کنٹینروں کا حصول بھی پولیس کے لیے مشکل نہیں ہوگا اور چند گھنٹوں میں ہی جیل میں ریل پیل شروع ہو سکتی ہے اور ان کی تعداد میں اضافے سے قیدیوں کی رسد میں الٹا کمی محسوس ہوگی۔
ہمارے ہاں قیدی اپنی صفائی کے لیے کیا عذر پیش کر سکتا ہے اس کی تو جیبیں بھی دورانِ مقدمہ صاف ہو چکی ہوتی ہیں اور کئی جرائم ایسے ہیں جن کی قید اور قیمت بہت زیادہ چکانا پڑتی ہے لہٰذا موبائل جیلیں بہت کارگر ہو سکتی ہیں لیکن ایک بات یہ بھی اہم ہے کہ ان اہم اشیاء کی درآمد کرتے وقت انصاف کو مد نظر رکھا جائے لیکن دوسری طرف ہم قیدیوں کے چنگل میں خود پھنس کے رہ جائیں گے۔۔ بقول غالب ؎
میں نے چاہا تھا کہ اندوح وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر میرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
دریں اثناء ایک سیاسی خلا پر کرنے کے لیے ہمیں ایک Hi-Tech مشین کی بھی اشد ضرورت ہے اور اس کا ٹینڈر بغیر وقت ضائع کیے طلب کر دینا چاہیے۔ موجودہ درآمدی برآمدی صورت حال پر وقار مجروح کا یہ قطعہ پیش خدمت ہے (وقار مجروح شاعری کرتے کرتے اپنے جملے کا وقار بھی مجروح کروا بیٹھے ہیں لیکن اپنی شاعری کو مجروح نہیں ہونے دیتے؎
لوگ کار لیتے ہیں ہم ڈکار لیتے ہیں
سر سے بھوت سیر کا ہم اُتار لیتے ہیں
جب وہ ہار جاتے ہیں تو ہم بھی ہار لیتے ہیں
دل کی بازی ہار کے ہم اُدھار لیتے ہیں
قوموں کی بھی شناخت ہوتی ہے اور ظاہر ہے ان کے شناختی نشان بھی ہوتے ہیں۔ کئی قوموں کا شناختی نشان مشینری ہے اور کئی قومیں کھیلوں میں اپنی شناخت بناتی ہیں اور کئی نظم و ضبط میں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم بجائے سبزیاں اور اجناس خوردو نوش منگوانے کے وہاں سے زراعت و جنگلات کے ماہرین منگوائیں اور اپنا طریقہ کار بدلیں ورنہ یہ سب طور طریقے توپ کے دہانے میں آشیاں بنانے کے مترادف ثابت ہوں گے۔