ہمارے کانوں کو یہ بات بہت اچھی اور دلفریب لگتی ہے کہ کورونا سے ڈرنا نہیں ہے لڑنا ہے۔ وزیر اعظم نے اپنی پہلی تقریر سے ساری قوم کو اِس سہانے مستانے نعرے پر لگا دیا کہ ہر شخص اورہر بچہ جس کی عمر ابھی ایسی باتیں کرنے کی بھی نہیں تھی وہ بھی ٹی وی اسکرین پر اپنی تصویر یا وڈیو دیکھنے کے لیے یہ نعرہ لگاتا دکھائی دینے لگا۔
قطع نظر اِس سے کہ اِس خطرناک اور مہلک وائرس کا پیدا کرنے والا کون ہے اورکس طاقت نے یہ آفت ہمارے سروں پر مسلط کر دی ہے ہم اُس سے لڑنے کے لیے میدان میں کود پڑے۔ جیب میں ایک دھیلا نہیں اورعقل وسمجھ بھی کوئی کام نہیں کر رہی مگر زبان پر ہر وقت یہی بیان جاری ہے کہ گھبرانا نہیں، ڈرنا نہیں بس قدرت کی اِس لاحوتی اور لافانی طاقت سے لڑنا ہے۔
یہ تو شکر بجالائیے مولانا طارق جمیل کا کہ انھوں نے بلاشبہ دیر سے لیکن کم ازکم یہ بات تو وزیراعظم اور میڈیا کے لوگوں کے سامنے کہنے کی جرأت و ہمت دکھائی کہ بھائی اپنے دل سے یہ زعم اور خیال نکال دیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طاقت اورحکمت سے لڑسکتے ہیں۔ رب کریم نے ساری دنیا کو اپنی طاقت سے یہ دکھا دیا ہے کہ تم کچھ بھی کرلو اِس ایک چھوٹے سے وائرس کا جوکھلی آنکھوں سے کسی کو دکھائی بھی نہیں دیتا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ جب تک اللہ نہ چاہے تم اِسے پھیلنے سے روک بھی نہیں سکتے۔ بظاہر ایک معمولی سی شے نے جس کے مضر اثرات میڈیکل سائنس کے تمام دعوئوں اور تحقیق کے برعکس نکلے اورہزارو لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
آج سے چند مہینے پہلے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ 2020 کا نیا سال ایسی آفت لے آئے گا۔ دنیا بھرکے حکمراں اورماہرین نئے سال کو حسب دستور خوشیاں لانے والا سال قرار دے رہے تھے۔ خود ہمارے وزیر اعظم کا بھی یہی خیال تھا کہ تکلیف کے دن اب ختم ہوگئے۔ نیا سال قوم کے لیے نئی خوشیاں لائے گا۔ کسی کو بھی معلوم نہ تھاکہ نیا سال کس قدرمصیبتیں لائے گا کہ بڑی سے بڑی طاقتیں اپنے سارے کا م چھوڑ کرکفن اور تابوت بنانے میں مصروف ہوگئیں۔
سرے شام بے ہنگم رقص و سرورکی ساری محفلیں اچانک گھپ اندھیروں میں بدل گئیں۔ تمام نائٹ کلب بند ہوگئے۔ انسانوں نے ایک دوسرے پر سارے ظلم وستم روک دیئے۔ ہر ایک کو اپنی جان بچانے کی فکر لاحق ہوگئی، کسی کو سب کے سامنے اگر چھینک بھی آجائے تو سب اپنے منہ اور ناک پرکپڑا رکھنے لگے۔ یہ جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ موت کا ایک دن معین ہے، مگر ہرشخص پھر بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ اگر اُس نے کوئی غفلت کی تو وہ سیدھا موت کے منہ میں چلاجائے گا۔
حیرانی کی بات ہے کسی نے ابھی تک اپنے اعمال کاجائزہ نہیں لیا۔ بڑے سے بڑا حکمراں اِسے ایک ناگہانی آفت تو سمجھ رہا ہے لیکن یہ سوچنے پرغور نہیں کررہا کہ یہ آفت آخر آئی کیوں۔ ساری دنیا میں ظلم وبربریت کا بازارگرم کرنے والی عالمی طاقتیں ابھی بھی ایک دوسرے کو اِس وائرس کا موجد ثابت کرنے میں اپنی طاقت اور توانائی تو صرف کر رہی ہیں لیکن اللہ جل جلالہ کی طاقت کا اندازہ لگانے پر ایک لمحے کے لیے بھی غور نہیں کررہیں۔ ہم جب تک اپنے گناہوں کی توبہ نہیں کرلیتے، ایسی یا اِس سے بھی بڑی آفتیں آتی رہیں گی۔
ذرا غور توکریں آج سے پہلے یہ دنیا کہاں جا رہی تھی۔ فحاشی بڑھ چکی تھی، معصوم بچوں سے زیادتی روزکا معمول بن چکی تھی۔ کسی کا مال چھین لینا اورکسی کی حق تلفی کرنا جرم ہی نہیں سمجھا جانے لگا۔ جھوٹ اورمکروفریب ہر ایک کا طرہ امتیاز بننے لگا۔ بے ایمانی اور دغا بازی اہلیت اور قابلیت گردانی جانے لگی۔ ایک دوسرے پر غلط اور جھوٹا بہتان لگانا کوئی قابل تعزیر فعل ہی نہیں سمجھا گیا۔ سب کوکھلی چھٹی دے دی گئی۔ معاشرے سے اخلاقی قدروں کاجنازہ نکال دیا گیا۔
معزز اور باعزت لوگوں کی پگڑیاں اچھالی جانے لگیں۔ کسی کو بھی بخشا نہیں گیا۔ مولانا طارق جمیل نے جب یہ کہاکہ ہماری بچیوں اور لڑکیوں کوکون نچاتا رہا ہے، کس نے انھیں بے پردہ ہوکر سر عام رقص کرنے پر لگا دیا ہے، تو وہاں موجود سب کی نظریں کچھ لمحوں کے لیے جھک توگئیں لیکن کسی نے اعتراف کرنے کی ہمت نہیں دکھائی۔ خود وزیراعظم ہاتھ میں تسبیح لیے بیٹھے تھے لیکن انھیں اپنے وہ دن یاد نہیں آئے جب 126دنوں تک اسلام آباد کے ڈی چوک پر ہرروز سرشام احتجاجی میلہ سجاتے رہے اوراُس پر فخر بھی کرتے رہے۔
رہ گئی بات اجڑے ہوئے چمن کی تو 2018 میں ہمارے موجودہ حکمرانوں کو ورثہ میں ملنے والا چمن 2013 میں میاں نواز شریف کو ملنے والے اُس چمن سے بہت زیادہ بہتر تھا جب ہرطرف دہشت گردی کا راج تھا۔ کراچی شہر خون میں نہا رہا تھا۔ ملک بھر میں توانائی کا بحران اپنے عروج پر تھا۔ ملکی خزانہ حسب معمول خالی اورکنگال تھا، جب کہ 2018میں ہمارے اِس چمن کی صورتحال آج سے بھی بہتر تھی۔ بجلی اورتوانائی کا بحران ختم ہوچکا تھا۔ کراچی شہرمیں امن وامان قائم ہوچکا تھا۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے کرتا دھرتاؤں کاسد باب کیاجاچکا تھا۔ ملک ترقی وخوشحالی راہ پر چل پڑا تھا۔ ہرطرف ترقیاتی کاموں کی داغ بیل ڈالی جاچکی تھی۔
بڑی بڑی سڑکیں، شاہراہیں اورموٹرویز بنائے جارہے تھے۔ سی پیک جیسے عظیم منصوبے پر کام زوروں پر جاری تھا۔ آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہا جاچکا تھا۔ شاید یہی بات پاکستان کی دشمنوں کو اچھی نہیں لگی اور ایک طے شدہ پروگرام کے تحت اُس حکمراں کاتختہ کردیا گیا بلکہ اُسے پس زنداں ڈال دیا گیا جس نے اِس ملک کو خودمختار بنانے کا عزم کر رکھا تھا۔ تاریخ کبھی نہ کبھی یہ اعتراف ضرورکرے گی کہ یہ سب کچھ ملک کوکمزورکرنے کے لیے کیا گیا۔ آج اِس ملک کی جوحالت ہے وہ 2018 سے بھی گئی گذری ہے۔ کوئی پالیسی اورکوئی پروگرام واضح نہیں ہے۔
ملک کس سمت جارہا ہے کسی کو پتا نہیں۔ ہرچند ماہ بعد دلاسہ دیاجاتا ہے کہ آنے والے دن اچھے اور بہترہونگے۔ لیکن پھرکوئی نیابہانا بناکے اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ ملک میں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہورہا۔ کسی بڑے منصوبے یاپروجیکٹ کی شروعات نہیں کی گئی، جو شیلٹر ہومز اور لنگرخانے کھولے گئے تھے اُن کا بھی نام ونشان دکھائی نہیں دے رہا۔ آج کورونا کی وباکی موجودگی میں اِن لنگر خانوں اور شیلٹر ہومزکی تو اشد ضرورت تھی لیکن وہ بھی انڈوں، مرغیوں، بھینسوں اورکٹوں کے منصوبوں کی طرح عارضی اوروقتی ہی ثابت ہوئے۔ ہاں ایک کام ضرور ہوا ہے کہ ہماراوہ کشکول جوپہلے قدرے چھوٹا ساتھا اب بہت بڑا ہوچکا ہے۔
اِس میں ملنے والی ساری امداد نجانے کہاں جارہی ہے۔ عوام پہلے سے بھی زیادہ ننگے اور بھوکے ہوتے جارہے ہیں۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد نئے بیروزگار ہوچکے ہیں۔ ایک کروڑ افراد کو نوکریاں دینے اورپچاس لاکھ گھر بنانے کا منصوبہ ابھی تک صرف کاغذوں پرہی موجود ہے۔ قوم بس اچھے دنوں کی اُمید اور آس پرہی زندہ ہے۔ روشن مستقبل والے افق پر گہری دھند چھائی ہوئی ہے۔ آنے والے دن اچھے ہونے کی بجائے اب اِس کورونا کے سبب اور بھی کٹھن اورمشکل دکھائی دے رہے ہیں۔ اللہ خیر کرے۔ (آمین )