ایک ٹی وی انٹرویو میں وزیراعظم صاحب سے جب پوچھا گیا کہ "آپ کہتے ہیں کہ میرا دولاکھ میں بھی گزارا مشکل سے ہوتا ہے تو پھر جس شخص کی ماہانہ تنخواہ سترہ اور اٹھارہ ہزار روپے ہو اُس کاگزارا کیسے ممکن ہوگا" جس پر ہمارے وزیراعظم نے کہا کہ لوگوں کو چاہیے کہ ذرایع آمدنی بڑھائیں۔
تحریک انصاف کی قیادت نے اپنی احتجاجی تحریک میں سابقہ حکومتوں کو مہنگائی اور بیروزگاری پرروزانہ تنقید کا نشانہ بنایا جب کہ اُن سابق حکمرانوں کے دور میں مہنگائی کی شرح اس قدر زیادہ نہ تھی۔ موجودہ حکومت کے پاس اِس مہنگائی کا صر ف ایک ہی جواز ہے کہ ہمیں معیشت ہی اِس حالت میں ملی تھی کہ ملک دیوالیہ ہوچکا تھا۔ ڈھائی سال ہوگئے ہیں عوام کو یہ سنتے سنتے اورشاید اگلے ڈھائی برس بھی اِسی طرح گزر جائیں گے، حالانکہ موجودہ حکمرانوں کی یہ خوش بختی ہے کہ وہ جب برسراقتدار آئے تو ملک کے حالات اتنے دگرگوں نہیں تھے جتنے کہ 2013میں میاں نوازشریف کو ملے تھے۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اُن دنوں سارے ملک میں بم دھماکوں اور دہشتگردی کاراج تھا۔ ہر روزکوئی نہ کوئی خودکش حملہ ہو جایا کرتا تھا۔
دنیا بھر میں ہماراملک ایک غیر محفوظ ملک تصورکیا جانے لگا تھا۔ کوئی غیر ملکی ہمارے یہاں آنے پر تیار نہ تھا۔ یہاں تک کہ کرکٹ کے کھلاڑی بھی ہمارے یہاں کوئی میچ کھیلنے کوتیار نہ تھے، جو معیشت، خان صاحب کوورثہ میں ملی تھی اُس سے زیادہ تباہ حال معیشت اب ہو چکی ہے۔
کراچی میں ایک الگ قسم کا خوف اورلاقانونیت راج کررہی تھی۔ جس شہر کوہم بزنس اورکاروبار کا ہب سمجھ رہے تھے وہاں آئے دن کے ہنگاموں اورخونریزی نے لوگوں کا جینا حرام کررکھا تھا۔ رہی سہی کسر بجلی کے بحران نے پوری کررکھی تھی، مگر میاں صاحب نے کبھی بھی اِن تمام مسائل کو اپنی ناکامی کا جواز نہیں بنایا، بلکہ کمرکس کے حالات بدلنے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ملک بھر سے دہشتگردی کا بھی خاتمہ ہوا اورکراچی میں بھی امن قائم ہوا۔
ساتھ ہی ساتھ بجلی کی کمی کا بھی بڑی حد تک کامیابی سے حل نکالاگیا۔ سڑکوں اور شاہراہوں کا جال بچھایا گیا اورانفرا اسٹرکچرکو بہتر بنایا گیا، مگر موجودہ حکمران اِن تمام مسائل ومشکلات کے بغیر بھی ابھی تک کوئی بڑاپروجیکٹ شروع نہیں کرسکے۔ لنگر خانوں اور شیلٹر ہوم کا جوپروجیکٹ شروع کیا گیا تھا وہ بھی رفتہ رفتہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہونے لگا ہے۔ مرغی انڈوں کا منفرداورلاثانی منصوبہ بھی ہنوزصرف کاغذوں میں موجود ہے۔ دس ارب درخت لگانے اورایک کروڑ نوکریاں دینے کے دعوے بھی پورے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔
اُسی ٹی وی انٹرویومیں خان صاحب نے ایک اورحیرت انگیز بات بھی کی ہے کہ اپوزیشن اپنی تحریک میں فوج کو میرے خلاف اُکسا رہی ہے کہ وہ مجھے اقتدار سے بیدخل کردے۔ آپ کوتوخوش ہونا چاہیے کہ اپوزیشن اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مار رہی ہے، وہ اگر اسٹیبلشمنٹ کی چاپلوسی کرنے لگے تو پھر یہ کہا جاسکتاہے کہ وہ اندرون خانہ کوئی ڈیل کررہی ہے۔
اُن کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف محاذآرائی خود اُن کے راہ میں مشکلات کھڑی کررہی ہے۔ آپ کوتواب بے فکر ہوجانا چاہیے۔ سینیٹ کے الیکشن ایک ماہ قبل کروانے یا شوآف ہینڈز کے لیے بلاوجہ تگ ودو ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ آپ بس اپناکام کیے جائیں اور عوام کی زندگی آسان کرنے کی تدابیر اختیارکریں۔ عوام کو اگر سکون اورراحتیں مل گئیں اور مہنگائی سے چھٹکارا مل گیا تو یاد رکھیں اپوزیشن کی تحریک اپنی موت آپ مر جائے گی۔
عوام کو اپوزیشن سے کوئی سروکار نہیں ہے، وہ صرف آپ کی حکومت کی پالیسیوں سے پریشان ہیں، جب غریب کے گھر میں چولہا نہیں جلے گا تو وہ یقیناً پریشان ہو گا۔ جب چینی سوروپے اورآٹا ستر روپے کلو مل رہا ہوگا تو وہ پریشان تو ہو گا۔ اُس کے لیے تو پھر اپوزیشن ہی سہارا اوراُمید بنی ہوئی ہوگی کہ اُن کی تحریک کے نتیجے میں شاید انھیں آپ سے چھٹکارا مل پائے۔ آپ اُن کے لیے آسانیاں پیداکریں تو پھر کوئی شخص اپوزیشن کے جلسوں میں نہیں جائے گا۔ آپ کوتوصرف ایک کام ہی کرناہے کہ یہ مہنگائی اوربیروزگاری کاخاتمہ کردیں اپوزیشن کی تحریک خود اپنے آپ مرجائے گی۔
اپنے مخالفوں کی تحریک کے دباؤ کے نتیجے میں جو چینی پچھلے دنوں 80روپے فی کلو ملنے لگی تھی وہ ایک بار پھر سوروپے کی حدوں کوچھونے لگی ہے۔ حالانکہ گنے کی کرشنگ کا بھی موسم اورموقعہ ہے۔ ایسے میں تو یہ کام بڑی آسانی سے کیا جاسکتا تھا، لیکن نجانے اِس جانب توجہ کیوں نہیں دی جا رہی۔ مافیازکے خلاف ہمیشہ سخت اقدام کی باتیں تو بڑے شدومد کے ساتھ کی جاتی ہیں لیکن مافیاز کے خلاف کچھ نہیں ہو رہا۔
آپ ہمیشہ کہاکرتے تھے کہ لیڈراورکپتان اچھاہوتواُس کے ماتحت بھی خود بخود اچھے ہواکرتے ہیں۔ لیکن یہاں توسارامعاملہ ہی اُلٹادکھائی دے رہا ہے۔ کابینہ میں کسی ایک وزیرکی بھی کارکردگی ایسی نہیں ہے جس پر اُسے کوئی تمغہ دیا جائے۔ ساری کابینہ اپناکام چھوڑکر صرف اپوزیشن کے خلاف پریس کانفرنس کرنے میں مشغول رہتی ہے۔ جو کام اُن کے اپنے کرنے کے ہیں اُن پران کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی ایک وزارت میں بھی کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو پا رہا۔ ریلوے کے محکمہ کا خسارہ بڑھتا جا رہا ہے اورریلوے ایک بار پھر تنزلی اوربربادی کی طرف بڑھنے لگی ہے۔
خان صاحب آپ کو اپنی ٹیم پرتوجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کسی ایک وزیرکانام بتادیں جس نے اپنی کارکردگی سے مطمئن کیا ہو۔ ہاں وہ سارے کے سارے اپوزیشن کو لعن وطعن کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں ضرورسرگرداں دکھائی دیتے ہیں اورشاید اچھی کارکردگی کا معیار بھی یہی ہے کہ کون اِس کام میں سب سے اچھا اورہنرمند ہے۔ سوچا جائے کہ ڈھائی برس گزرچکے ہیں، وزیر اپنے اصل کام کی طرف کب لوٹیں گے۔ کیا اگلے ڈھائی برس بھی اِسی طرح گزارے جائیں گے۔ صرف تقریر اچھی کرلینے سے عوام کودیرتک مطمئن نہیں کیاجاسکتاہے۔ موج کرنے کا وقت اور ہنی مون پیریڈ اب ختم ہوچکاہے، اگلے الیکشن میں اگرکامیا ب ہونا ہے تو پھرکوئی کام کرکے دکھانا ہوگا۔