خان صاحب نے گزشتہ سال جب پہلی بار وزیر اعظم کی حیثیت میں عنان حکومت سنبھالا تھا تو اُن کا انداز اور اسٹائل کچھ اور تھا اور آج صرف 14ماہ گذرنے پر طرز حکمرانی کچھ اور ہے۔ پہلے تو انھیں بار بار یاد دلایا جاتا تھا کہ خان صاحب آپ قوم کی اور پسماندگی اور بے چارگی پر یوں کف افسوس نہیں ملا کریں بلکہ کچھ کر کے دکھائیں، اب آپ ایک عام بے اختیار آدمی نہیں ہیں بلکہ آپ اِس ملک کے وزیراعظم ہیں۔
یہ وہ دن تھے جب خا ن صاحب ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے مرغیوں، انڈے اور بھینسوں کے کٹوں کی باتیں کیا کرتے تھے اور وزیروں کی کارکردگی کے حوالے سے ہر تین ماہ بعد جائزہ لینے کا عندیہ دیا کرتے تھے، لیکن اب خان صاحب کے مزاج میں کچھ اعتماد اور رعب اور دبدبہ بھی آگیا ہے۔
وہ اب اپنے وزیروں اور مشیروں سے بات کرتے ہیں تو شفقت اور پیارکا وہ عنصر دکھائی نہیں دیتا جو ابتدائی دنوں میں نظر آیاکرتا تھا۔ وہ اب ڈانٹ ڈپٹ بھی کرنے لگے ہیں۔ کرکٹ میں کپتان کی حیثیت میں باقی کھلاڑیوں پر وہ جس طرح حکم چلایا کرتے تھے، بالکل اُسی طرح اب کابینہ کے اجلاسوں میں بھی کرنے لگے ہیں۔ انور عالم اُن کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے ہیں لیکن معمولی سی تنقید پر وہ خان صاحب کے عتاب سے نہیں بچ سکے۔ خان صاحب کی یہ بات تو لائق تحسین ہے کہ جو وزیر یا مشیر کارکردگی نہیں دکھائے گا اپنے عہدے پر برقرار نہیں رہے گا۔ لیکن ایسے کارکردگی نہ دکھانے والے شخص کے لیے کوئی دوسری منسٹری عنایت فرمانا کہاں کی دانشمندی ہے۔
سیاسی مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ ابھی تک کوئی کارکردگی نہیں دکھا پائے لیکن خان صاحب انھیں ابھی تک اپنا وسیم اکرم پلس بنائے ہوئے ہیں۔ حکومتی کارکردگی قابل ستائش نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب میں پی ٹی آئی سے لوگ بڑی تعداد میں مایوس ہوتے جا رہے ہیں لیکن خان صاحب پنجاب حکومت سے ابھی تک پرامید ہیں۔ حکمران طبقے کو ہمیشہ سے اپنے فیصلوں پر تنقید پسند نہیں رہی، اب بھی وہی روایت برقرار ہے۔
جس فیصلے پر جتنی زیادہ تنقید ہوتی ہے حکمران اُس فیصلے کو اتنا ہی درست اورجائز بتانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ مرغیوں اور کٹوں والے فیصلے پر بھی حکمران طبقے کا یہی مؤقف تھا اور وہ اپنے اِس فیصلے کے حق میں بل گیٹس کی باتوں کا بھی حوالا دینے لگے تھے، لیکن پھر کیا ہوا۔ نہ وہ مرغیاں تقسیم ہوئیں اور نہ بھینسوں کے کٹے۔
حکمرانوں کے اردگرد زیادہ تر خوشامد کرنے والے درباری قسم کے لوگوں کا گروہ جمع ہوجاتا ہے۔ یہ گروہ ہر حکمراں کے ارد گرد جمع ہوجاتا ہے لیکن اب لگتا یہ ہے کہ یہ گروہ کچھ زیادہ ہی بڑا فعال اورمتحرک بنا ہوا ہے۔ دھرنے والے دنوں میں اُن کی ہر شام کی تقریر کے لیے مواد جمع کرنے والے اورتقریر کے بعد اپنے قائد کی واہ واہ کرنے والے آج سارے کے سارے کسی نہ کسی شکل میں وزیر اورمشیربنے ہوئے ہیں۔
وہ اپوزیشن اور مخالفوں کے خلاف بیانات دینے میں تو ماہر اور مشاق ہیں لیکن وزیرکی حیثیت میں اُن کی کارکردگی صفر اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ آج بھی اِسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ خواہ وہ خود کچھ نہ کریں لیکن کسی نہ کسی طرح اپنے قائد کی تعریف اور توصیف کا موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیں۔
یہی وجہ ہے کہ سوائے چند ایک کے کوئی بھی اِس قابل نہیں ہے جسے ہم کارکردگی کے اعلیٰ معیار پر رکھ سکیں۔ اُن کی ساری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپوزیشن کو زیادہ سے زیادہ لتاڑکے اپنے قائد کی نظروں میں اہمیت حاصل کر پائیں۔ خود حکمران بھی شاید یہی چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی بیرونی دورے سے واپسی پر اپنے قائد کو خوش کرنے کے لیے ساری پی ٹی آئی ہمیشہ ایئرپورٹ پر ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہے۔
وقت تیزی سے آگے بڑھتا جا رہا ہے اور اب صرف اپوزیشن کے خلاف بھڑک بازیوں اور تنقیدبازی سے کام نہیں چلے گا۔ لوگ کارکردگی دیکھناچاہتے ہیں۔ معاشی بد حالی اورکاسہ لیسی کی وجہ سے ہم بین الاقوامی محاذ پر بھارت کو شکست نہیں دے سکتے۔ ابھی حال ہی میں ہم نے یواین او کی جنر ل اسمبلی کے اجلاس میں دیکھ لیا کہ ہماری باتوں اور ہمارے مؤقف میں وزن ہونے کے باوجود دنیا ہماراساتھ دینے کو تیار نہ تھی۔
خان صاحب نے بلاشبہ وہاں ایک مؤثر اور جامع تقریرکی لیکن پھرکیا ہوا۔ تقریر کے بعد کیا کشمیر کا مسئلہ حل ہوگیا یا ساری دنیا نے مل کر کوئی قرار داد کشمیر کے مسلمانوں کے لیے پیش کی۔ نہیں وہاں تو ہمارے اپنے دوست اسلامی ممالک بھی ساتھ نبھانے کے لیے آواز اُٹھانے پر رضامند نہ ہوئے۔
وزیراعظم نیو یارک جاتے ہوئے پہلے اِسی مقصد کے لیے سعودی عرب بھی تشریف لے گئے، لیکن ولی عہد نے اُن سے ذاتی طورپر پیارومحبت جتاتے ہوئے شاہی طیارہ تو عنایت فرما دیا لیکن یو این او میں کشمیر کے لیے ہماری آوازمیں آواز ملانے سے گریز کیا۔ تمام اسلامی ممالک میں سے سوائے ترکی اورملایشیاکے کسی ایک اسلامی ملک نے وہاں ہمارا ساتھ نہیں دیا۔
یہی وجہ ہے کہ ہم یواین او میں کشمیر سے متعلق ایک قرارداد پاس کروانا تو درکنار اُسے پیش بھی نہ کرسکے۔ ہمارے وزیر خارجہ اب چاہے کتنی ہی گذارشات اور توجیہات پیش کرتے رہیں لیکن اِس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ قرارداد پیش کرنے کے لیے ہمارے پاس مطلوبہ ارکان کی حمایت ہی حاصل نہ تھی۔ اسلامی ممالک جن کی دوستی اور محبت کا دم ہم اکثر بھرتے رہتے ہیں ہمیں ادھار تیل تو دے سکتے ہیں لیکن کسی بین الاقوامی ایشوز پر ہمارا ساتھ نہیں دے سکتے۔
یہ اصول ہماری عام زندگی میں بھی ہمیشہ دکھائی دیتاہے۔ ہم گھر آئے کسی مہمان کی مالی مدد تو کر دیتے ہیں لیکن اُس کے دیگر معاملات میں اُس کی اخلاقی مدد کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔ سعودی عرب اور یواے ای نے بھی ہمارے ساتھ یہی کچھ کیا۔ ہم جب تک خود کو کمزور ظاہر کرنا نہیں چھوڑیں گے دنیا ہماری باتوں پرتوجہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ ہمیں ثابت کرنا ہوگا کہ ہم تیزی سے ترقی کرنے والی قوم ہیں اور ہمارے ہاں ترقی کے تمام مواقع موجود ہیں، جب بیرونی سرمایہ کاروں کو یہاں کا ماحول سازگار ملے گا تو وہ خود ہی یہاؒںآنا پسند کریں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا سافٹ اور خوش نما امیج دنیا بھر میں اجاگر کیا جائے۔
خان صاحب کو اب اپنے سابقہ مؤقف پر واپس آنا ہوگا۔ وہ مؤقف جو زمانہ اپوزیشن میں وہ قوم کو باور کرایا کرتے تھے۔ " کہ کیا میں لوگوں کے سامنے کشکول لیے گھومتا پھروں گا، میں مر جاؤں گا لیکن بھیک نہیں مانگوں گا۔ " کیسی کیسی خودی، انا اور خود داری والی باتیں کیا کرتے تھے کہ کبھی یہ ذلت والا کام نہیں کریں گے۔
ٹیکسوں کے ذریعے معیشت کو سدھارنے کے بارے میں بھی بہت بھاشائیں دیا کرتے تھے، لیکن اقتدار سنبھالنے کے بعد اصل صورتحال سامنے آتی ہے کہ معاملات کو چلانا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھ لیا گیا تھا۔ مخالفین یہ الزام لگاتے ہیں کہ خان صاحب نے ابھی تک صرف وہی کچھ کیا ہے جس کے نا کرنے کا وہ قوم کے سامنے عہد کیا کرتے تھے۔ کشمیر ایشو پر بھی تقریروں میں تو وہ آخری سانس تک لڑنے اور جان دینے کی باتیں کرتے ہیں لیکن عملی طور پرجنگ کرنے کو بے وقوفی قرار دیتے ہیں۔ یواین او میں جذبات اور تفکرات کے لحاظ سے اُن کی تقریر بہت اچھی تھی لیکن اُس تقریر سے کشمیریوں کو کیا حاصل ہوا۔
وہ آج بھی بھارت سرکار کے اُنہی ظلم وستم کا نشانہ بنے ہوئے ہیں جن سے وہ تقریر سے پہلے گذر رہے تھے۔ اُن کی زندگی میں تقریر سے کوئی فرق نہیں آیا۔ حکومت کی جانب سے کوئی لائحہ عمل آج تک سامنے نہیں آیا۔ لگتا ہے نہ آرٹیکل 370 واپس ہوگا اور نہ کشمیر آزاد ہوگا۔ یہ مسئلہ ہمیشہ کی طرح یونہی قائم و دائم رہے گا۔ کشمیری بے چارے ہمارے حکمرانوں کی امداد کے آسرے پر اگلے پچاس سال اور گذار لیں گے۔ اُن کی ایک نہیں کئی نسلیں اِسی انتظار میں دار فانی سے کوچ کر جائیں گی۔ کشمیر پاکستان کا حصہ صرف اُسی صورت میں بن سکتا ہے جب پاکستان خود اِس قابل ہو۔ معاشی اور اقتصادی طور پر ایک کمزور اور لاغر پاکستان جو خود اپنے فیصلے نہیں کرسکتا تو پھر کشمیریوں کے حقوق کی جنگ بھلا کیسے لڑ سکتا ہے۔