دنیاکی مالی امور پرقابض چند خودمختار ترقی یافتہ ممالک کا ایک گروپ جی7کہلاتاہے۔ 1989ء میں فرانس کے شہر پیرس میں ایک اِس گروپ کے ایک اجلاس میں مالیاتی ٹاسک فورس یعنیFATF کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کامقصد عالمی سطح پر منی لانڈرنگ اور غیرقانونی طریقے پر دولت کی ترسیل کو روکناتھا۔
یہ ٹاسک فورس دس بارہ سال تک اپنے معمول کے طریقہ کار پر کام کرتی رہی اور کسی حد تک منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے مختلف طریقے وضع بھی ہوئے لیکن اِس فورس میں اچانک تیزی اور پھرتی نائن الیون کے واقعہ کے بعد آئی ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جی سیون گروپ ہویاUNOہو یا سلامتی کونسل دنیاکے تمام ادارے ترقی یافتہ اور دولت مند عالمی طاقت کی مرضی ومنشاء کے تابع اور زیر اثر ہیں۔ جس طرح سارے ممالک نیوورلڈ آڈر کی عملداری میں بلا کسی تذبذب اور پس و پیش کے عمل پیرا ہوگئے، اِسی طرح وہ افغانستان اورعراق کے خلاف دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ کا حصہ بھی بن گئے۔
اِن میں سے کسی نے بھی سوال نہیں اٹھایا کہ جنگ شروع کرنے سے پہلے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کی تحقیقاتکرلی جائے۔ حالانکہ کئی مغربی دانشور بھی بتارہے تھے کہ یہ حملہ پلانٹڈمنصوبے کاحصہ لگتا ہے۔ دنیا میں بہت سے ایسے کام ہوتے رہے ہیں جنکی اصل وجہ کسی کو معلوم نہیں ہوتی اور اُن پرسے اسرارورموز کاپردہ اُس وقت اُٹھتا ہے جب چڑیاں سارا کھیت چگ چکی ہوتی ہیں۔ صدر بش کے جارحانہ اقدامات کی مخالفت اورتنقید کرنے والے اب ہمیں بہت مل جائیں گے۔ صدر ٹرمپ اور اُن کے پیشروصدر بارک اوباما سابقہ صدر کی پالیسیوں پرتنقید کرتے رہے ہیں لیکن جب وہ مختلف ملکوں پر حملے کر رہے تھے، تبکسی نے اُن کی مخالفت نہیں کی۔
1989ء میں بننے والی ٹاسک فورس FATF کو 2001میں ایک نیاٹاسک دیاگیا کہ وہ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے بھی کچھ ممالک کے خلاف سخت اورتادیبی کارروائیاں کرے۔ دہشت گردوں کی مالی مدد اوراعانت کرنے والے ممالک پر معاشی اور اقتصادی پابندیاں لگائے۔ اِس مقصد کے لیے فوری طور پرکچھ ممالک کو گرے لسٹ اورکچھ کوبلیک لسٹ میں ڈال دیاگیا۔
پاکستان پر اُس وقت چونکہ پرویز مشرف کی حکومت تھی اوروہ اِس عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کے طور پر لڑبھی رہی تھی۔ پاکستان خود اِس دہشت گردی کاسب سے بڑا نشانہ بھی بنااوربے تحاشہ مالی و جانی نقصان بھی اُٹھایا۔ دنیا کاکوئی اور ملک ایسا نہیں ہے جس نے اتنا بڑانقصان اُٹھایاہو۔ مگر اِس ساری قربانی کے بدلے اُسے کیاملا۔ جب امریکا اِس جنگ سے ناکام ونامراد واپس جانے لگا تواُسے یہ یاد آیاکہ افغانستان میں روس کی خلاف نبرد آزماجہادیوں کی مالی اور عسکری مدد کس کس ملک نے کی تھی اورپھر کیاتھا دہشت گردوں کی مالی اعانت کے فرضی اور بے بنیاد الزامات لگا کر FATF کو ہمارے خلاف کارروائی کا ٹاسک دیدیا گیا۔
پہلے پہل تو ہلکا ہاتھ رکھاگیا کیونکہ ہم خود دہشت گردی کی اِس آگ میں جل رہے تھے۔ ہمارے یہاں ہرروز ایک یادو خود کش حملے ہوتے رہے اور بم دھماکوں سے ہمارے شہرلرزتے رہے۔ ہمارے بچے بوڑھے اورجوان سبھی اِس آگ کاایندھن بنتے رہے لیکن جونہی ہم نے دہشت گردوں کاقلعہ قمع کردیا، پھر بھی ہمیں گرے لسٹ میں ڈال دیاگیا۔ ہم چونکہ بدحالی کے دنوں سے اب باہر نکل رہے تھے اور چائنا کے تعاون سے سی پیک کے عظیم منصوبے کی نہ صرف داغ بیل ڈال چکے تھے بلکہ اُس پرتیزی سے کام بھی شروع کردیا تھا، ہمارے ازلی دشمنوں کو پریشانیاں ستانے لگیں۔
سی پیک وہ عظیم الشان منصوبہ ہے جس کی اگر بروقت تعمیل اور تعمیر ہوگئی تو ہمیں پھر کوئی پاکستان کو اپنی مرضی ومنشاء کے تابع نہیں رکھ پائے گا۔ یہی چیز ہمارے اِن دشمنوں کے ذہنوں میں تھی اوراب بھی ہے۔ گرے لسٹ میں شامل کیاجانا اورہمارے یہاں سیاسی عدم استحکام کا پیدا کیاجانا، ایک دوسرے سے یقیناجڑا ہوا ہے۔
پاکستان کے دشمنوں کوپتا ہے کہ ہم اگر ایک بار تنزلی اورانحطاط پذیری سے باہر نکل آئے پھر ہمیں کوئی اپنااطاعت گذار نہیں بنا پائے گا۔ خود انحصاری اورخود کفالت ہو تو ممالک طاقتور ہوتے ہیں۔ یہ فلسفہ عالمی طاقتیں اچھی طرح جانتی ہیں۔ اِسی لیے وہ تیسری دنیا کے ممالک کو اور خاص کر پاکستان کو کمزور اور لاغر بناکے رکھنا چاہتی ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ پاکستان اگر ایک بار ترقی وخوشحالی کے ڈگر پرچل پڑا توپھراُسے کوئی روک نہیں پائے گا۔
2018ء میں ہمیں گرے لسٹ میں شامل کیاگیا اوریہی وہ سال تھاجب مسلم لیگ (ن) کی حکومت کاخاتمہ بھی کیاگیا، پھر جوکچھ ہواوہ ہمار ے سامنے ہے۔ ہماری ترقی اورخوشحالی کی جو آس واُمید بندھی تھی وہ ساری کی ساری غارت ہوگئی۔ تمام ترقیاتی کام سست پڑ گئے۔ ملک کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسادیاگیا۔ جی ڈی پی کی شرح 5.6سے گھٹ کر منفی درجوں میں جاپہنچی ہے۔
مہنگائی کا طوفان آچکا ہے۔ عوام کی زندگی اجیرن ہوچکی ہے۔ یہی وہ سب کچھ ہے جو عالمی طاقتیں دیکھنا چاہتی تھیں۔ اب ہم مالی اوراقتصادی پابندیوں کے ڈراور خوف میں ہروہ اقدام اُٹھارہیہیں جن پر ہم دوسال قبل راضی اوررضامند نہ ہوتے تھے۔ FATF ہمیں اسی طرح مہلت دیتا رہے گا۔ ہمارے حکمراں قوم کو اقتصادی پابندیوں کاخوف دلاکے ایک طرف آئین ودستور کا حلیہ بگاڑ رہے ہوں گے تودوسری طرف عالمی اداروں کی نظروں میں خود کو معتبر اور فرمانبردار ظاہر کرنے کے لیے اسی طرح ہاتھ پیر مار رہے ہوں گے۔
انھیں معلوم ہے کہ ہمارے یہاں قطع نظر کارکردگی کے وہی شخص طویل عرصے کے لیے قابل قبول حکمراں بنا رہ سکتا ہے جس نے اپنے ملک کے بجائے عالمی مالیاتی اداروں کے مفادات کاخیال رکھا ہو۔ موجود ہ حکمراں FATF کی گرے لسٹ میں شامل کیے جانے کاالزام سابقہ حکمرانوں پر ڈالتے ہیں۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اصل ذمے دار کوں ہیں۔
دہشت گردی کے حوالے سے آج حالات بہتر ہیں۔ دہشت گردوں کا بڑی حد تک خاتمہ کردیا گیا ہے تو ہمیں گرے لسٹ میں ڈال کر معاشی اور اقتصادی پابندیوں کاخوف کیوں دلایاجارہا ہے۔ ادھر وزیراعظم جو ہر وقت قوم کویہ تلقین کرتے ہیں کہ "آپ نے گھبرانا نہیں ہے "۔ سینیٹ میں منی لانڈرنگ کے بل پر ناکامی کی صورت میں قوم کو عالمی اداروں کی جانب سے ممکنہ پابندیوں کاخوف دلارہا ہے۔
حالانکہ انھیں چاہیے تھا کہ وہ قوم کی ہمت بڑھاتے جس طرح کورونا کے معاملے میں وہ کہتے تھے کہ کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے۔ وزیراعظم صاحب کو اپنے سامنے ایران کی مثال رکھنی چاہیے جو ایک عرصہ سے FATFکی بلیک لسٹ میں شامل ہے، وہ اور شمالی کوریا دوایسے ملک ہیں جنھیں FATF نے بلیک لسٹ میں ڈالا ہواہے۔ مگر کیاوہ ہمت ہار چکے ہیں۔ عالمی اداروں کی جانب سے لگائی گئی اقتصادی پابندیوں نے اُن کااب تک کیابگاڑا ہے؟ کیاوہ ایک ایک دانے کو محتاج ہوچکے ہیں؟ ایران کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہیں کہ وہ اب تک ایٹمی قوت بھی نہیں بن سکا ہے، لیکن جب وہ عالمی اداروں کی پابندیوں کے باوجود ابھی تک دنیا کے نقشہ پرقائم ہے اوراُس کے عوام ہمت وجرات سے حالات کامقابلہ کررہے ہیں تو پھر ہم کیوں نہیں کرسکتے۔
وزیراعظم صاحب یقیناً اچھی طرح جانتے ہوں گے کہ ہم بھی شاید اُسی دن ترقی وخوشحالی کی منزل پالیں گے جب ہمیں بھی ایسی ہی پابندیوں کا سامنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی ادارے ہم پر ایسی پابندیاں لگاتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ وہ ہمیں متواتر گرے لسٹ میں رکھ کرہی ہمارے کمزور دل حکمرانوں سے اپنا کام نکلواتے رہے ہیں۔ لہذا خان صاحب اطمینان رکھیں اور گھبرائیں نہیں FATF ہمیں کبھی بھی بلیک لسٹ میں نہیں ڈالے گا۔