Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Herani Iss Baat Ki Hai

Herani Iss Baat Ki Hai

حیرانی اِس بات کی ہے کہ جوشخص الیکشن سے پہلے خودی اورخوداری کی بڑی بڑی باتیں کیاکرتا تھا، غیر ممالک سے قرضے اور امداد لینے کواتنا برا سمجھاکرتاتھااور ادھار مانگنے کی بجائے شرم اور غیرت سے مرجانے کے دعوے کیاکرتا تھاوہ الیکشن جیت جانے اور برسراقتدار آجانے کے فوراًبعد اُن تمام باتوں سے اس طرح یکسرمنکر اور منحرف ہوجائے گا کسی کو یقین نہیں آتا۔ مزید برآں یہ کہ لوگوں کی طرف سے باربار یاد دلانے اور ماضی قریب میں کی گئی تقریریں دکھانے کے باوجود وہ ٹس سے مس نہ ہواور سوائے مانگنے کے ملکی مسائل و مشکلات کے حل کے لیے کوئی اورحل اُسے سوجھتا بھی نہ ہو۔

وزیراعظم بن جانے کے بعد پہلے دن سے معیشت کی بحالی کے لیے صرف اِسی ایک طریقے پر انحصاراُس کاطرہ امتیاز بن جائے گا قوم کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا۔ قرضے اور ادھار مانگنادنیا کا سب سے آسان طریقہ ہے۔ یہ تو ہر کوئی کرسکتا ہے۔ ایسی دلفریب باتیں وہ الیکشن سے پہلے تقریباً ہرروز ہی کیاکرتا تھا۔ اِس کے لیے کوئی زبردست اہلیت اور قابلیت کی چنداں ضرورت نہیں ہواکرتی۔ اپنے یہاں آئے ہوئے غیر ملکی سربراہوں کا گرمجوشی سے استقبال کرناکوئی ناجائز اورمعیوب بات نہیں ہواکرتی لیکن اُن کے آگے اِس قدر بچھ جاناکہ اُن کی سواری اور گاڑی کا ڈرائیوربن جانا خود دار قوموں کا شیوہ نہیں ہواکرتا۔

دوسال ہونے کو آئے ہیں معیشت کی بہتری کے لیے اب تک کوئی مثبت اور ٹھوس تجویز سامنے نہیں آپائی ہے۔ ابتدائی چھ ماہ سعودی عرب، چائنااوریواے ای سے ادھار مل جانے پر خوشی اورشاد مانی میں گذر گئے۔ قوم کو نوید سنائی گئی کہ سعودی عرب سے 12ارب ڈالرکا پیکیج مل گیا۔ جس میں سے کچھ کیش کی صورت میں، کچھ ادھارتیل اورکچھ صرف فارن ایکسچینج کے ذخائر برقرار رکھنے کیلئے مل گئے۔ اِسی طرح چائنا اوریواے ای نے بھی اپنی اپنی استطاعت کے مطابق نظر عنایت فرمادی، پھر آئی ایم ایف کے پاس چلے گئے۔ وہاں سے بھی چھ ارب ڈالرکا پیکیج حاصل کرلیا۔

اِس سارے عرصے میں معیشت کے دوسرے آپشن سوچے ہی نہیں گئے۔ قومیں کس طرح ترقی کیاکرتی ہیں یہ ہمارے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں۔ ہمارا سارادھیان صرف اورصرف سب سے آسان ذریعوں پر ہی مرکوز رہا۔ مزید غوروفکر کیاتو بیرون ملک پاکستانیوں سے اپنے ملک کیلئے نذرانہ وصول کرنے کاخیال آیا۔ اُن سے درخواستیں کی گئیں۔ پھر دیامیراوربھاشاڈیم بنانے کا عظیم الشان منصوبہ پیش کرڈالا۔ جیب میں ایک بھی پھوٹی کوڑی نہیں اور900ارب روپے کی ڈیم بنانے کا منصوبے بنانے چلے۔ اُس ڈیم فنڈ کا جوحال ہواوہ سب کے سامنے ہے۔

ہمارے وزیراعظم ملائیشیا کے مہاتیر محمد اوراپنے ملک کے ایوب خان کی بہت مثالیں دیاکرتے ہیں۔ اُنہیں یہ دونوں شخصیات بہت اچھی لگاکرتی ہیں۔ وہ ہمیشہ اُن کی پالیسیوں کے باتیں کیاکرتے ہیں۔ ایسالگتا ہے وہ اُن کے آئیڈیل لیڈر ہیں۔ لیکن کیامجال کہ اُن کی کسی ایک پالیسی کو بھی وہ اپنانے پر تیار ہوجائیں۔ پاکستان میں جوبڑے بڑے ڈیم بنائے گئے وہ ایوب خان کے دور ہی میں بنائے گئے۔ لیکن ایوب خان نے کسی ایک ڈیم کے لیے بھی عوام سے چندہ نہیں مانگا۔ اُنہوں نے صرف اپنے ملکی ذرائع اوراپنے زوربازو ہی سے یہ عظیم الشان منصوبے بہت ہی قلیل عرصے میں مکمل کیے۔ اِسی طرح مہاتیر محمد نے بھی ملکی منصوبوں کیلئے کبھی امداد نہیں مانگی۔

گزشتہ برس ہمارے وزیراعظم کو کسی نے سمندر میں تیل اورگیس کے بڑے ذخیروں کی خبر سنادی۔ تیل ابھی نکلابھی نہیں تھااوروزیراعظم صاحب اُس کو لیکر نہ صرف خود شادیانے بجانے لگے بلکہ اپنے عوام کو بھی بلاوجہ خوش گمانی میں مبتلاکرنے لگے۔ پھر کیا ہوا کیکڑاون کے اِس عظیم فلک بوس غبارے سے فوراً ہی ہوانکل گئی۔ محنت و مشقت سے کمانے کی بجائے آسان ذرائع سے امیر ہوجانے کے خواب دیکھنے والوں کا یہی حشر ہواکرتا ہے۔ صرف شیلٹر ہومزاورلنگر خانوں سے خود بھی فیضیاب ہوتے رہے ہیں اور قوم کو بھی مفت کی روٹی کھانے پرمجبورکرتے رہے ہیں۔

ہماری سمجھ میں نہیں آرہاکہ اِن دوسالوں میں ایسا کونسابڑاپروجیکٹ ہے جواِس حکومت نے قوم کے سامنے رکھا ہو۔ نہ انفرااسٹرکچر پرکوئی کام ہورہاہے۔ نہ کارخانے اورفیکٹریاں لگائی جارہی ہیں۔ نہ سڑکیں اور شاہراہیں بنائیں جارہی ہیں اور نہ اسکول اور اسپتالوں پر کوئی بڑا کام ہورہاہے۔ سی پیک منصوبے کو بھی سرد خانے میں ڈال دیا گیاہے۔ کرپشن کا بھی سدباب کردیا گیا ہے۔

عوام پر ٹیکسوں کی بھی بھرمار کردی گئی ہے۔ ملکی خزانہ پہلے کی طرح خالی ہی ہے۔ نہ افراط زر کم ہوپایاہے نہ جی ڈی پی بڑھ پائی ہے۔ روپیہ سستا اور ڈالر مہنگاکرکے بھی ہماری ایکسپورٹ بڑھ نہیں پائی ہیں بلکہ اور بھی کم ہوگئیں ہیں۔ سابقہ حکومتیں اگر قرضے لیاکرتی تھیں تو اُن سے بڑے بڑے پروجیکٹس بھی لگایاکرتی تھیں۔ مگر اب توصرف قرضے ہی لیے جارہے ہیں، کام کوئی نہیں ہورہا۔ یہ تاثر غلط اور بے بنیاد ہے کہ موجودہ حکومت نے کوئی نیا قرض نہیں لیا۔

وہ پچھلے قرضوں کی قسطیں اداکرنے کے بہانے بے حساب قرض لے چکی ہے۔ دوتین ارب ڈالر قرضوں کی مد میں واپس کرنے کے لیے ایک اندازے کے مطابق اب تک گیارہ ارب ڈالرکے نئے قرضے لئے جاچکے ہیں۔ نجانے اگلے تین برسوں میں اورکتنے قرض قوم کے سروں پر لاددئیے جائیں گے یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا۔ کوروناکی وبا نے رہی سہی اُمید بھی ختم کرکے رکھدی ہے۔ قوم اب اچھے دنوں کے لیے کسی خوش گمانی میں نہ رہے۔