حکمران آج کل مافیازکاذکر کر رہے ہیں۔ اِس سے پہلے وہ اپنی ہر تقریر میں NRO نہ دینے اور کسی کو بھی نہ چھوڑنے کا ذکر بڑے عزم و استقلال کے ساتھ کیا کرتے تھے، لیکن نجانے کیا ہوا کہ این آر او نہ دینے کا یہ عہد اور عندیہ از خود دم توڑ گیا اور اب کسی بھی تقریر اور بیان میں اُسے دہرانے سے احتراز کیا جا رہا ہے۔
نیب کی جانب سے کچھ لوگوں کی گرفتاری کو اپنی کارکردگی شمار کرتے ہوئے بھولے بھالے عوام کو یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ جیسے یہ سب کچھ حکمرانوں ہی کی ایماء پر ہو رہا ہے۔ کسی کا نان نفقہ بند کرنے اور کسی کا AC اور ٹی وی بند کرنے کے دعوے تو اُنہوں نے امریکا جا کر بھی نہیں چھوڑے۔ لوگوں نے آواز اٹھائی کہ بھائی NRO دینا اور نہ دینا حکمرانوں کی صوابدید نہیں ہے، یہ کسی اور کا ڈومین ہے۔
آپ بلا وجہ کیوں زور لگا رہے ہیں، مگر اقتدار اور اختیارکی دھن میں حکمران کبھی کسی کی بات کو بھی خاطر میں لانے کو تیار نہ ہوتے، لیکن ایک ڈیڑھ سال میں اُنہیں اصل صورتحال کا علم ہوگیا ہے اور وہ اب اِس بارے میں ایک لفظ بھی کہنے سے پہلوتہی کر رہے ہیں۔ کسی کا AC تو وہ کیا بند کرتے اُنہیں بیرون ملک جانے سے بھی روکا نہ جا سکا۔
اور اہل اقتدار اب اپنی بنائی ہوئی میڈیکل رپورٹس ہی کو غلط اور جعلی قرار دے رہے ہیں۔ لٹیروں سے لوٹی ہوئی دولت تو واپس نہیں لائی جا سکی ہاں البتہ عوام کے منہ اور حلق سے دو وقت کی روٹی بہرحال چھین لی گئی ہے۔ تاریخ کی ریکارڈ مہنگائی کرنے اور معیشت کو کمزور کرنے کے بعد اپنی نا کامی کا الزام مافیاز کو دیا جا رہا ہے۔ اہل اقتدار کے بقول ملک کے اندر ایسے بہت سے مافیاز ہیں جو اُنہیں کام کرنے نہیں دے رہے۔ میڈیا مالکان سے لے کر نان بائیوں تک سارے کے سارے لوگ انھیں مافیا کا روپ دھارے لگتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے اُنہیں اپنے سوا ہرکوئی اب ایک بہت بڑا مافیا دکھائی دیتا ہے۔
یہ درست ہے کہ آٹے اور چینی کا بحران حقیقت میں کوئی بحران نہ تھا۔ یہ ایک سوچی سمجھی پلاننگ اور مکروہ عزائم کے تحت جان بوجھ کے پیدا کیا گیا۔ اِسکے پیچھے کون کون سے خفیہ عوامل اور کردار کارفرما تھے وہ سب کو اچھی طرح معلوم بھی ہیں لیکن اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے۔ اسد عمرایک سے زائد مرتبہ اشاروں، اشاروں میں اُن کرداروں کی نشاندہی کر چکے ہیں لیکن اُنکے خلاف کسی تادیبی کارروائی سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔ چینی 52 روپے سے 85 تک جاپہنچی ہے اور اہل اقتدار کو احساس ہی نہیں ہے کہ غریب اب چائے روٹی بھی کیسے کھا پائے گا۔ وہ اِس چور بازی کو اپنے آہنی ہاتھوں سے روکنے کی بجائے صرف مافیازکو الزام دے کر اپنا دامن بچاتے دکھائی دیتے ہیں۔
دیکھا جائے تو ملک میں آٹے کا بھی بحران جان بوجھ کر پیدا کیا گیا۔ اِس کے پیچھے بھی اِسے مہنگاکرنے کے مافیا کارفرما تھے۔ کسی بھی الیکشن اور پارٹی پر پیسہ لگانے والا شخص کوئی اتنا بھولا بھالا ہرگز نہیں ہوتا کہ وہ ایک کروڑ خرچ کر کے چارکروڑ وصول نہ کرے۔ تحریک انصاف کو برسر اقتدار آئے ہوئے ڈیڑھ سال کا عرصہ بیت چکا ہے۔ معیشت کی بد حالی کا الزام سابقہ حکومتوں پر ڈال کر وقت گذارے کا مرحلہ اب ختم ہو چکا ہے۔ اب جوکچھ بھی ہو رہا ہے اُس کا الزام پچھلے حکمرانوں کے سر تھوپا نہیں جاسکتا۔ عوام ایک ہی بات سنتے سنتے بیزار ہوچکے ہیں۔
لوگ کارکردگی دیکھنا چاہتے ہیں۔ اہل اقتدار میں سے ایک وزیر بھی ایسا نہیں ہے جسکی کارکردگی لائق تحسین گردانی جاسکے۔ سب کے سب ابھی تک سابقہ حکومتوں کی ہی کارگزاریوں کو لتاڑ رہے ہیں۔ اُنکے اپنے نامہ اعمال میں کوئی بھی عمل ایسا نہیں ہے جسے وہ عوام کے سامنے اپنی اچھی کارکردگی کے طور پر پیش کرسکیں۔ ڈیڑھ برس بیت چکا تمام ترقیاتی کام بند پڑے ہیں۔ سوائے کرتار پور کی راہداری کے کوئی بھی نیا پروجیکٹ اور منصوبہ شروع نہیں کیا گیا۔ کرتار پور منصوبہ بھی موجودہ حکومت کا کارنامہ نہیں تھا۔ اس کے اصل محرک اورمنصوبہ ساز تو کوئی اور تھے۔ پنجاب اسمبلی کے اسپیکر پرویز الہیٰ ببانگ دہل خان حکومت کو یہ باور کروا چکے ہیں کہ کرتار پور کا کریڈٹ اسے نہیں جاتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ ہر دو ماہ بعد گیس اور بجلی کے نرخ بڑھانے کا سلسلہ بند کرے۔ اشیاء خورونوش کی گرانی اورمہنگائی خود بخود رُک جائے گی۔ حکومت ایک طرف خود مہنگائی کے اسباب پیدا کرتی ہے اور پھر الزام مافیاز کو دیتی ہے۔ ایک عجیب تماشہ لگا رکھا ہے۔ اِس سے پہلے کی حکومتوں کو بھی ایسے ہی مشکل مالی حالات کا سامنا رہا لیکن کسی نے قوم کو بیوقوف بنانے کے لیے مافیا کا نام استعمال نہیں کیا۔ میاں نوازشریف کے پچھلے دور میں برسراقتدار آتے ہی سازشیں شروع کر دی گئی تھیں۔ خود خان صاحب صرف ایک سال بعد الیکشن میں دھاندلی کو بہانہ بنا کر مارچ اور دھرنا لے کر ڈی چوک پر پہنچ گئے تھے۔
126دنوں تک نہ صرف اسلام آباد بلکہ سارے ملک کو یرغمال بنائے رکھا تھا۔ پارلیمنٹ، ایوان صدراور پی ٹی وی پر بھی حملہ کیاگیا۔ یہی مافیا نظر آنے والا میڈیا اُس وقت اُن کا زبردست حامی اور معاون ومددگار بناہوا تھا۔ لیکن آفرین ہے اُس وقت کے حکمرانوں پرمیڈیا کے اِس جانبدارانہ رویے کے خلاف اُسے "مافیا" کہہ کر نشانہ نہیں بنایا۔ میاں صاحب نے ایسے مشکل حالات میں بھی صبراور تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ معیشت کی بربادی کا ذکر وہ بھی کرتے رہے لیکن ناجائز مہنگائی کرکے عوام سے بدلہ نہیں لیا۔ بلکہ جیسے ہی اُنہیں عمرانی دھرنے سے نجات ملی عوام کی خیر خواہی اور ترقی کے لیے پھر سے سرگرم اورکمر بستہ ہوگئے۔ وہ بھی چاہتے تو دھرنے والوں کو " مافیا" کہہ کر کام نہ کرنے کے بہانے تراش لیتے، مگر اُنہوں نے ایسا ہرگز نہیں کیا۔
حکومت کو ابھی اپنے اتحادیوں کی جانب سے بھی بلیک میلنگ کا سامنا ہے۔ ہمارے یہاں جوڑ توڑ کی حکومت بنانے والوں کو ایسی مشکلا ت کاسامنا رہتا ہے۔ اتحادیوں کو" مافیاز" کہناشاید اِس لیے بھی درست معلوم نہیں ہوتا کہ اِن اتحادیوں کے بغیر خان صاحب اِس پوزیشن میں بھی نہ تھے کہ تن تنہاحکومت بناسکیں۔ وہ اتحادی اب اگر حکومت میں رہتے ہوئے اپنا حصہ مانگ رہے ہیں تو مافیا کہہ کر اُن کی توہین کرنا ہرگز درست طرز عمل نہیں ہے۔
خان صاحب کو اول تو ایسی حکومت قبول کرنا ہی نہیں چاہیے تھی مگر اب جب اُنہوں نے وزارت عظمیٰ کا تاج اپنے سر پر سجا ہی لیا ہے تو پھر اُنہیں اُس منصب کی عزت وتوقیر کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ جس ذمے داری کو اُنہوں نے خود اپنی مرضی و منشاء سے گلے لگایا ہے اُس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ اُس کو مکمل طور پر نبھائیں بھی۔ اپنی ناکامی کا الزام دوسروں کے سر تھونپ کر وہ اپنی جان چھڑا نہیں سکتے۔ قوم اُن سے اُن کے وعدوں اوردعوؤں کا حساب کتاب مانگ رہی ہے۔ اُنہوں نے زمانہ اپوزیشن میں جو جو بڑے بڑے دعوے اوروعدے کیے تھے اُن میں سے ایک پر بھی پورا اُترتے دکھائی نہیں دے رہے۔