ویسے تو ہمارے یہاں قومی سیاست میں فقرے بازی اور جگت بازی بہت پہلے سے رائج اور عام ہے لیکن پی ٹی آئی اور اُس کی قیادت نے اِسے ہمارے کلچرکا حصہ بنانے میں جو زبردست کردار اور رول ادا کیا ہے وہ شاید ہی اُن سے پہلے کسی نے ادا کیا ہو۔
سمجھ نہیں آتا کہ اِس قابل ذکر قومی خدمت کے اعتراف میں ہم خان صاحب کونسا قومی اعزاز دیں کہ آج ہر شخص اُن کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔
خان صاحب سے پہلے محترم قائد عوام ذوالفقار علی بھٹونے سیاسی جلسوں اور جلوسوں میں اپنے مخالفوں کی عزت و احترام میں کچھ ایسا ہی انداز تخاطب اختیارکیا تھا لیکن وہ بھی بہت تھوڑے عرصہ کے لیے۔ یہ نہیں کہ خان صاحب کی طرح سنجیدہ محفلوں میں اور بین الاقوامی تقریبات میں بھی اپنے مخالفوں کے خلاف توہین آمیز جملوں کا استعمال کرنے سے گریز نہ کریں۔
خان صاحب نے یہ اسٹائل اور طرز تکلم دھرنے والے دنوں سے شروع کیاجب ہر شام حاضرین کو محظوظ کرنے اور انھیں بوریت سے بچانے کے لیے جہاں وہ نت نئی کرپشن کی غیر مستند کہانیاں سنایا کرتے تھے وہاں اکثر اوقات اپنے مخالفوں کی شان میں ایسے گستاخانہ جملوں کا بھی بے دریغ استعمال کر لیا کرتے تھے۔ خان صاحب کے دائیں بائیں کھڑے شیخ رشید جیسے کئی اور جگت باز اُن کے اِن جملوں کو مزید دلچسپ اور دل آفریں بنانے کے لیے اُس میں مزید چٹکلے بھی شامل کر دیا کرتے تھے۔ لیکن اُن سب باتوں سے قومی نقصان یہ ہوا کہ آج ہمارا معاشرہ بحیثیت مجموعی ایک ایسا معاشرہ بن گیا ہے جہاں کسی کی بھی داڑھی، پگڑی، دستار اور ڈوپٹہ محفوظ نہیں ہے۔
محترم مولانا فضل الرحمٰن آج کل حکومت مخالف ایک ایسے لانگ مارچ اور دھرنے کا پروگرام بنائے ہوئے ہیں جو اُن کے بقول خان صاحب کے استعفیٰ پر منتج ہوگا۔ دیکھا جائے تو یہ لانگ مارچ اور مجوزہ دھرنا بھی پی ٹی آئی کے اُس دھرنے کی طرح اُسی مختصر مدت کے بعد شروع کیاجا رہا ہے جو میاں صاحب کی نئی نویلی حکومت کے خلاف صرف ایک سوا سال بعد ہی شروع کر دیا گیا تھا۔
کیونکہ خان صاحب کی نظر میں اپنا وہ دھرنا اُن کا جائز اورقانونی حق تھا لہذا وہ اب مولانا کے اس دھرنے کو کسی لحاظ سے بھی غیر قانونی اور غیر جمہوری قرار نہیں دے سکتے۔ اُن کی مجبوری ہے کہ وہ اِسے تسلیم کرتے ہوئے ہو جانے دیں اور مولانا کو اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کر لینے دیں۔ ویسے تو ہمارے یہاں ایسے کسی بھی مظاہرے اور احتجاج کا نتیجہ کرنے والے کے حق میں نہیں نکلا لیکن حکومت وقت کے لیے بھی کوئی اتنا آسان اور اطمینان بخش نہیں رہا۔ جتنے عرصہ یہ افرا تفری مچی رہے گی حکومت خود بھی سوا نیزے پر لٹکی رہے گی۔
میاں نواز شریف کی حکومت بھی چار مہینوں تک اِسی کشمکش سے دوچار رہی تھی۔ خان صاحب ہر روز حکومت کے جانے کی ایک نئی تاریخ دے دیا کرتے تھے اور دوسرے دن اُسے درست اورسچ ثابت کرنے کے لیے مجمع میں اشتعال پھیلانے کی کوششیں کیا کرتے تھے۔ شیخ رشید قوم کو " مارو مر جاؤ، جلا دو، آگ لگا دو" کا درس بھی بڑی تندہی اورجانفشانی سے پڑھایا کرتے تھے۔
اِس اہم کام پر عمل درآمد کے لیے انھیں علامہ طاہرالقادری کی بھی بھرپور مدد اور امداد حاصل تھی جو اپنے ڈنڈے بردار اور کفن بردار شاگردوں سے یہ کام کروانا اچھی طرح جانتے تھے۔ اِس کا ایک چھوٹا سا مظاہرہ ہم نے پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملے والے دن بھی دیکھا تھا۔ اُس دن چار مہینوں میں پہلی بار محسوس ہوا تھا کہ حکومت اب گری کہ تب گری، مگر شومئی قسمت کہ میاں صاحب اُس روز بھی بچ گئے۔
ساری دنیا میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے ناظرین سمجھ بیٹھے کہ جیسے ملک میں خانہ جنگی ہو چکی ہے اور قوم اپنے حکمرانوں کے خلاف اس قدر مشتعل ہو چکی ہے کہ پارلیمنٹ پر قبضہ کرنے بھی پہنچ گئی ہے۔ حالانکہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ ایک ایسے گروہ کی جانب سے ہو رہا تھا، جسے سارے ملک کے عوام کی تائید وحمایت ہر گز حاصل نہ تھی۔ ہاں البتہ اُسے پس پردہ کچھ خفیہ حلقوں کی آشیر واد ضرور حاصل تھی جس کی مرضی و منشا ء کے بغیر ایسی ہنگامہ آرائی ہر گز ممکن نہ تھی۔
خان صاحب اور فضل الرحمن کے احتجاج اور لانگ مارچ میں بنیادی فرق بھی یہی ہے کہ خان صاحب کے احتجاج کی پشت پناہی کے لیے ہمارے کچھ طاقتور حلقے سرگرم تھے لیکن فضل الرحمن کے پیچھے ایسے کوئی خفیہ ہاتھ کار فرما نہیں ہیں۔ لہذا بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے خان صاحب کو گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ ہاں اگر انھوں نے اب بھی عوام کی بھلائی کے لیے کچھ نہ کیا مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری پر قابو نہیں پایا تو پھر یہ احتجاج ایک مخصوص گروہ تک محدود نہیں رہے گا۔ اِس احتجاج میں ساری قوم اپنی آواز ملاتے ہوئے سراپا احتجاج بن جائے گی اور پھر انھیں بچانے والا کوئی نہ ہو گا۔ وہ چاہیں تو مولانا کو ڈیزل ڈیزل کہہ کر اُن کا کتنا ہی مذاق اُڑا لیں لیکن اب یہ ڈیزل بپھر گیا تو اپنی طاقت دکھا کر ہی رہے گا۔
مولانا فضل الرحمن نے لانگ مارچ اور حکومت مخالف تحریک کے لیے ابتدا میں ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت سے ساتھ شامل ہونے کی استدعا کی لیکن دونوں اپنی اپنی مجبوریوں اور مصلحتوں کی تحت اُس میں فوری طور پر شامل ہونے سے انکارکرتے رہے۔ نتیجتاً وہ اکیلے ہی چل پڑے۔ مگر اب دیکھا یہ جا رہا ہے کہ یہ دونوں پارٹیاں کسی نہ کسی شکل میں اِس احتجاج میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تگ ودو میں لگی ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ سارا کریڈٹ مولانا اکیلے ہی لے جائیں۔ انھیں اب خدشہ محسوس ہونے لگا ہے کہ مولانا ایک بھرپور طاقت بنتے جا رہے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے میں مولانا اِن دونوں سیاسی پارٹیوں کو پیچھے چھوڑ جائیں۔
لہذا وہ اپنی سیاسی ساکھ بچانے کے لیے لانگ مارچ میں شامل ہونے پر کچھ پس وپیش کے ساتھ راضی اور رضا مند دکھائی دینے لگے ہیں۔ جے یو آئی اور مسلم لیگ نون کے پاس اِس وقت کوئی صوبائی حکومت نہیں ہے مگر پیپلز پارٹی کے پاس سندھ کی صوبائی حکومت موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اِس احتجاج میں براہ راست شامل ہونے سے شاید اِس لیے گریزاں رہی ہے کہ ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں اگرکوئی غیر پسندیدہ کارروائی ہو گئی اور جمہوریت کا بستر گول ہو گیا تو وہ اپنی اِس ایک صوبائی حکومت سے بھی محروم ہو جائے گی۔ دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کے پاس یہ صوبائی حکومت ایک بہت بڑا ہتھیار اور آسرا ہے جو اُسے کئی ناگہانی آفتوں اور مصیبتوں سے بچائے ہوئے ہے۔ یہ اگر نہ ہوتی تو اُس کا حال بھی مسلم لیگ نون کی طرح بے یار و مددگار ہو جاتا۔
قطع نظر اِس کے کہ کوئی شامل ہو یا نہ ہو مولانا نے اب لانگ مارچ کا تہیہ کر لیا ہے۔ وہ ہر صورت میں یہ مارچ کر کے رہیں گے۔ خواہ انھیں گرفتار یا قید کر لیا جائے وہ ایسا کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ اُن کی باڈی لینگویج اور لب و لہجہ بتا رہا ہے کہ وہ اب کسی کے کہنے پر یا یقین دہانیوں پر بھی نہیں رکیں گے۔ خان صاحب کو چاہیے کہ اِس معرکے کو آسان معرکہ نہ سمجھیں۔ مولانا کو ڈیزل کہہ کر اُن کا تمسخر اور مذاق اُڑانے کی بجائے انھیں سنجیدہ لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ باتوں ہی باتوں میں سارا کام تمام ہو جائے اور خان صاحب منہ تکتے رہ جائیں۔