کورونا وائرس کے اِس عالمی حملے میں پاکستان ابتدائی دنوں میں محفوظ رہا، لیکن جیسے جیسے یہ وائرس ساری دنیا میں پھیلتا رہا، ہم بھی اِس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔
حرام چیزیں کھانے کو اِس کے اسباب و محرکات ثابت کرنے والی ہماری ساری تھیوری دھری کی دھری رہ گئی یا پھر یہ کہیے کہ ہماری نظر میں حرام صرف اُسی کو نہیں کہا جاتا جو بظاہر غیر مسلم لوگ کھاتے رہتے ہیں۔
رشوت لینا اور دینا بھی تو حرام ہی ہے۔ سود کھانا بھی تو حرام ہے، مگر ہماری نظر اِن چیزوں پر نہیں پڑی جو ہم بہت زمانے سے کھاتے آرہے ہیں۔ ہم نے کورونا کو صرف حرام جانور کھانے کی وجہ قرار دے دیا۔ اب جب یہ اسلامی ممالک میں بھی پھیلنے لگا تو ہم خاموش ہوگئے۔ دنیا کو شاید کوئی ملک ایسا باقی رہا جو کورونا کے حملے سے بچ گیا ہو۔ یہ ایک عالمی سانحہ ہے۔ اِس میں سب کو ساتھ مل کر لڑنا ہوگا۔
یہ القاعدہ کی جانب سے اُس مبینہ دہشت گردی کے عالمی مسئلہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے جو نائن الیون کے بعد سمجھی گئی۔ اُس میں تو صرف ایک ملک امریکا کو خطرہ محسوس ہو رہا تھا اور اُس نے تمام ملکو ں کو اُس میں ملوث کر دیا، وہ خود تو اُس سے محفوظ ہوگیا لیکن پاکستان سمیت کئی دوسرے اسلامی ممالک کو اُس کے نتائج بھگتنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔ ہم ابھی تک اُس کے آفٹر شاکس محسوس کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان میں جب کورونا کا پہلا کیس سامنے آیا تو ہماری وفاقی حکومت کا رویہ انتہائی افسوس ناک رہا۔ دوہفتوں تک اُس نے اِس معاملے کو سنجیدہ اور سیریس لیا ہی نہیں۔ چونکہ کورونا کا یہ پہلا مریض صوبہ سندھ میں سامنے آیاتھا شاید اِسی لیے باقی صوبوں نے اُس سے مکمل لاتعلقی ظاہرکردی۔ اُن کی یہ بے حسی اور بے اعتنائی یقینا افسوس ناک تھی۔ اکیلا صوبہ سندھ دو ہفتوں تک اپنے محدودوسائل کے ساتھ اُس سے لڑتا رہا اورکسی نے ہمدردری کا ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیں نکالا، لیکن اب جب یہ دوسرے صوبوں میں بھی پہنچنے لگا تو ہماری وفاقی حکومت کے بھی کانوں پر جوں رینگنے لگی اور اُس نے سارے ملک میں اِس سلسلے میں اقدامات کرنے کا اعلان کردیا۔
ہمیں اِس موقعے پر صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ کی کوششوں کو سراہنا چاہیے کہ انھوں نے فوراً ایکشن لے کر اِس وائرس کی وبا کو پھیلنے سے روکے رکھا۔ سند ھ حکومت واقعی لائق ستائش ہے ورنہ یہ وبا اگر ووہان شہر کی طرح سارے ملک کو متاثر نہ کرتی تو کم از کم اٹلی کی طرح ہزاروں لوگوں کے لیے مشکل ضرور پیدا کر دیتی۔ ہمارے پاس تو اتنے وسائل اور انتظامات بھی نہیں تھے کہ چائنا یا اٹلی کی طرح فوری طور پر اُس کا سدباب کرسکتے۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بروقت کارروائی کرکے اتنے اچھے انتظامات کیے کہ جن کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ ہم ویسے تو ہر بات میں صوبہ سندھ کی حکومت کو ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں لیکن اب جب اُس نے اتنا زبردست کام کردکھایا ہے تو ہمارے لبوں پر تالے اور قفل لگ گئے ہیں۔ ہم سے اُس کی تعریف میں چند جملے بھی ادا نہیں ہو رہے۔ اِس عالمی مسئلے میں اُس کی مدد تو درکنار ہم سے اُس کی توصیف بھی بیان نہیں ہوپا رہی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفاقی حکومت اِسے ایک قومی مسئلہ سمجھ کر فوراً وزیراعلیٰ کی مدد کو آجاتی لیکن اُس نے لاتعلقی ظاہر کرکے اپنے اندر کے اُس بغض اور تعصب کو عیاں کر دیا جو وہ اِس صوبے سے متعلق اپنے دل کے اندر رکھتی ہے۔
کراچی سے قومی اسمبلی کی 14نشستیں لینے کے بعد بھی اِس شہر سے اتنی لاتعلقی یقینا ایک افسوس ناک طرز عمل ہے۔ حالانکہ اگر یہاں سے پی ٹی آئی کو اگر ایک سیٹ بھی نہ ملتی تب بھی یہ اُس کا قومی فریضہ تھا کہ ایک ایسے مسئلے میں جو صوبہ سندھ کا اپنا پیدا کردہ نہیں ہے اُس کی مدد کو فوراً آجاتے۔ آج اگر ملک کے کسی علاقے یا صوبے میں کوئی آسمانی آفت یاسانحہ ہوجائے تو سارا ملک اُس کی مدد کو دوڑے چلا آتا ہے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے اِس بار بھی انتہائی متعصبانہ رویہ اختیارکر اپنے متعلق اچھا تاثر پیدا نہیں کیا۔
یہ کوئی ایم کیو ایم کی جانب سے پھیلائی جانے وبا نہیں تھی کہ کراچی والوں کو اُن کے اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے جیسا کہ ماضی میں ہوتا آیاہے۔ کراچی بیس پچیس سال تک جلتا رہا۔ لوگ مرتے رہے، لٹتے رہے، احتجاجی سیاست اور جبری ہڑتالوں کے ہاتھوں فاقہ کشی پر مجبور ہوتے رہے اور وفاق خاموش تماشائی بنا رہا۔ کیونکہ یہ کراچی والوں کا اپنا مسئلہ تھا۔
انھوں نے ہی ایم کیو ایم کو ووٹ دیا تھا، مگر 2018ء کے الیکشنوں میں تو کراچی والوں نے پی ٹی آئی پر بھروسہ اوراعتماد کرکے اُسے اپنے مسائل اورمشکلات کا مسیحا سمجھا اور پہلی بار کسی غیر شہری سیاسی پارٹی کو اتنا زبردست مینڈیٹ دیا۔ یہ مینڈیٹ اگر مسلم لیگ (ن) یا پاکستان پیپلزپارٹی کودیا ہوتا تووہ آج کم ازکم اتنے بے آسرا اوربے یارومددگار نہیں ہوتے۔ مسلم لیگ (ن) کے میاں نواز شریف نے تو کراچی سے ووٹ نہ ملنے کے باوجود بھی یہاں کے شہریوں کو پچیس سال سے لگی آگ سے نجات دلائی اور امن قائم کیا۔
انھوں نے ہی کراچی کو میٹرو بس سروس کاتحفہ دیا، مگر پی ٹی آئی نے ابھی تک کراچی والوں کے لیے کیا کیا۔ 162ارب کا پیکیج صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہوا۔ اُس میں سے ایک ڈھیلا بھی ابھی تک ریلیز نہیں کیا گیا۔ خان صاحب ہمیشہ کراچی آتے ہیں اور میٹھی میٹھی تقریر کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے اگلے تین برس بھی وہ اسی طرح لارے لپے دیتے رہیں گے۔ کراچی شہر کے لیے کوئی منصوبہ تو درکنار وہ اِس شہر کی اِس وبائی مشکل میں بھی مدد کو نہ آئے۔
وزیراعلیٰ مرادعلی شاہ کا یہ بجا فرمانا ہے کہ ایئرپورٹس کا انتظام وفاق کی ذمے داری ہے۔ غیر ممالک سے آنیوالوں کی اسکریننگ وفاق کوکرنی چاہیے تھی لیکن یہاں بھی وہ مکمل لاتعلق رہی۔ کراچی ایئر پورٹ پر سندھ حکومت نے یہ اسکریننگ کا کام اپنے طور پر خود کروایا۔ اب جا کے جب ہماری دفاعی فورسز نے وفاقی حکومت پر اِس جانب اقدامات کرنے کو کہا تووفاقی حکومت حرکت میں آئی اور پھر ہنگامی فیصلے کرنا شروع کیے۔
کورونا کی تشخیص کے لیے ضروری ٹیسٹ اورکٹس کی فراہمی بھی وفاقی کی ذمے داری ہے۔ ماسک اور دیگر حفاظتی چیزوں کی دستیابی کو بھی ممکن بنانا وفاق کاکام ہے، مگر دیکھایہ گیا ہے کہ وفاقی حکومت کسی مد میں پیسہ خرچ کرنے کوتیار نہیں۔ وہ زبانی کلامی تو بہت دعوے کرتی ہے لیکن معاملہ جب پیسے خرچ کرنے کا آتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سال میں اِس حکومت نے کوئی بھی میگا پروجیکٹ بھی شاید اِسی لیے نہیں لگایا کہ اُس پر پیسے خرچ کرنا پڑیں گے۔
ہاں بس شیلٹر ہومز اورلنگر خانے بنتے رہے ہیں اور رہیں گے جہاں ساری قوم کو بیروزگارکرکے چھت اورکھانا فراہم کیاجاتا رہے گا۔ وہ اِس قو م کو اپنے پیروں پرکھڑا کرنے کی بجائے مفت میں روٹی توڑنے کا عادی بنانا چاہتے ہیں۔ خدارا ایسا نہ کیجیے۔ آپ صرف اپنی اُن تقریروں ہی کو ریوائنڈ کرکے ایک بار پھر سے دیکھ لیں جو آپ نے الیکشن سے پہلے قوم سے کی تھیں۔ خودی اور خود داری کے کیسے کیسے بھاشن دیے تھے کہ قوم اُس کے سحر میں گرفتار ہوکر آپ پر فریفتہ ہوگئی تھی۔
لوگوں کو ہر گز معلوم نہ تھاکہ اُن کے خوابوں کی تعبیر اتنی خوفناک ہوگی۔ خان صاحب یقین کیجیے اگر عوام کو پہلے سے پتہ ہوتا کہ آپ اپنے قول وفعل میں اتنے غیر معتبر ہیں تو وہ شایدآپ کو کبھی ووٹ نہ دیتے۔ اب بھی وقت ہے اپنے طرز عمل کودرست کرلیجئے اورقوم کی حسرتوں اور اُمیدوں کو یوں خاکستر ہونے نہ دیجیے۔ کچھ کر دکھایئے اور عوام کو اِن مصائب اورمشکلات سے باہر نکالیے۔ جیسی خوبصور ت تقریریں آپ کرتے ہیں ویسے ہی کارکردگی بھی دکھایئے۔ ایسا نہ ہوکہ آیندہ آپ کی تقریریں سننے والا کوئی ایک فرد بھی باقی نہ رہے۔