موجودہ دور کی ایک خصوصیت ہے کہ کسی وزیر کو بھی جم کے کام کرنے نہیں دیاجاتا، وہ ابھی ابھی اپنا نیاپورٹ فولیو سنبھالتاہی ہے کہ اُسے تبدیل کردیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کابینہ میں ہر چند ماہ بعد تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔
تین سال ہونے کو آئے ہیں ہمارے لوگوں کو ہوشربا گرانی اورمہنگائی کے سوا کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔ شروع شروع میں خان صاحب نے کہاتھاکہ جس وزیر کی کارکردگی اچھی نہیں ہوگی میں اُس کوتبدیل کردوں گا۔ اِس مقصد سے انھوں نے سودنوں کاٹارگٹ بھی طے کیا تھا۔ ہاں البتہ کچھ وزیروں کے قلمدان ضرور تبدیل کر دیے گئے۔
یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے بلکہ اب اِس میں تیزی بھی آگئی ہے۔ تین مہینوں سے پہلے ہی وزیروں کی وزارت تبدیل کردی جاتی ہے۔ جب ایک وزیر کی اپنی وزارت میں کارکردگی اگر اچھی نہیں ہے تووہ دوسری اور نئی وزارت میں کس طرح بہتر ہوسکتی ہے، بلکہ اب اُس کے پاس یہ کہنے کو ایک ٹھوس جوازبھی میسرہے کہ میں تو اپنی وزارت میں اچھے اورزبردست کام کررہاتھا مگر کیاکروں میری وزارت ہی تبدیل کردی گئی۔ اوراِس طرح وہ کسی بھی وزارت میں کارکردگی نہ دکھانے کے الزام سے باآسانی عہدہ برآ بھی ہوجائے گا۔
سابقہ دور میں ہم نے دیکھاتھاکہ پاکستان ریلوے کے وزیر سعد رفیق کو پورے دور میں ہٹایا نہیں گیا۔ اس طرح وہ اپنی کامیابی اورناکامی کے پوری طرح ذمے داربھی تھے اور ہم نے یہ دیکھابھی کہ سعد رفیق کے دورمیں اُس ریلوے کی حالت نمایاں طور پرتبدیل ہوگئی جو اُن سے پہلے مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچادی گئی تھی۔ ایک زمانہ تھاجب ریلوے کے پاس گاڑیاں چلانے کے لیے ایندھن بھی نہیں ہواکرتاتھااوروہ آئے دن سفر کے دوران راستے میں کھڑی ہوجایاکرتی تھیں۔
لوگوں کا اپنی ریلوے پر سے اعتباراوراعتماد ختم ہوچکاتھا اور ٹرینوں کی اپنی منزلوں تک پہنچنے میں تاخیرکی وجہ سے انھوں نے اُس میں سفر کرنابھی بند کر دیاتھا۔ اِسی طرح کاحال مال بردارگاڑیوں کابھی تھا۔ کاروباری طبقہ اپنامال ریلوے کے بجائے نجی کنٹینروں میں بھیجنے لگاتھا، مگر اُن کے پانچ سال میں ہم نے دیکھاکہ ریلوے کم ازکم اِس مقام تک ضرور پہنچ گیاکہ ٹرینیں اپنے مقرر اوقات پرمنزلوں تک پہنچنے لگی تھیں۔ انجنوں کی حالت بھی بہتر ہوگئی تھی اورایندھن نہ ملنے کامسئلہ بھی ختم ہوچکا تھا۔
گرین لائن جیسی بہتر اورآرام دہ سروس بھی کامیابی سے شروع کی گئی اورلوگوں نے ایک بار پھر اپنی ٹرینوں میں سفر کرناشروع کر دیا تھا۔ مال گاڑیوں کامعیار بھی اچھاکردیاگیا اور اِس طرح تاجروں کو مال برداری کے لیے ایک بار پھر اچھا اورمحفوظ نظام میسر آنے لگاتھا۔
یہی وجہ ہے کہ سعد رفیق اپنی اِس کارکردگی پر فخر کرتے دکھائی دیتے ہیں اورکوئی ایک فرد بھی یہ کہنے کاروادار نہیں ہے کہ اُن کے دورمیں ریلوے ناکامی سے دوچار تھی، مگر موجودہ دور میں کسی ایک وزیرکو بھی مستقل طور پراپنی وزارت میں کام کرنے نہیں دیاجارہا۔ اس طرح پانچ سال پورے ہونے پرکسی بھی وزیرکی کارکردگی کو درست اور صحیح طور پرجانچا نہیں جاسکے گا۔ ہر وزیر اپنی ناکامیوں کاذمے دار کسی اور کوٹہراتانظر آئے گا۔
حکمران قیادت ایک دن کسی شخص پر اعتبار کرتی ہے کہ وہ وزارت خزانہ کے لیے بہتر ین متبادل چوائس ہے توچند دنوں بعد اُسے بھی ہٹادیاجاتاہے۔ جناب حفیظ شیخ کے بارے میں نجانے کیاکچھ کہاگیااوراُن کو سینیٹر بنانے کے لیے کتنی جدوجہد بھی کی گئی، مگر پھرکیاہوا سینیٹ کا انتخاب ہارجانے کے بعد وہ مہنگائی کے بڑھنے کے ذمے دار قراردیکر منٹوں میں ہٹادیے گئے۔ اِسی طرح کی رائے حماد اظہر کے لیے بھی تھی۔ مگر وہ دوتین ہفتہ بھی نہ چل سکے۔ اب شوکت ترین صاحب لائے گئے ہیں۔ جنھوں نے آنے سے پہلے حکومت کی پالیسیوں پر زبردست تنقید بھی کی تھی۔ اب دیکھتے ہیں وہ کتنے دن چل پاتے ہیں۔
اسد عمر کو سوفیصدی یقین تھاکہ خزانے کی چابی اوروزارت اُن کے حصہ میں آئے گی۔ یہی تاثر ساری قوم کوبھی تھا، لیکن کسی کویہ معلوم نہ تھاکہ صرف چھ مہینوں میں ہی وہ اپنی اِس وزارت سے الگ کر دیے جائیں گے۔ اِسی طرح کاحال دوسری وزارتوں کابھی ہے، آج بھی جو تازہ تازہ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
اُن سے متعلق بھی کوئی بھی شخص یقین اوروثوق سے نہیں کہہ سکتاکہ یہ کتنے دنوں کے لیے ہیں۔ خود وزیروں کو بھی نہیں پتاکہ وہ کب تک اِس عہدے پرقائم رہیں گے۔ آج تک کسی نے اِس بارے میں شکوہ نہیں کیاکہ ہمیں جم کرکام کرنے ہی نہیں دیا جاتا۔ شاید وہ یہ سوچ کرخوش ہیں کہ اِس طرح وہ قوم کے سامنے اپنی کارکردگی کے حوالے سے یہ عذراوربہانہ آسانی سے تراش لیں گے کہ میں توصرف چندمہینے ہی اِس وزارت پر فائزرہا تھا کارکردگی کیسے دکھاتا۔
تبدیلی کے اِس دور میں قوم نے راحت اور سکون کے لمحات شاید چند ہی گزارے ہوں، البتہ مصائب اور تکلیف کے بے شمار لمحات اُن کی زندگی میں ضرور شامل ہوئے ہیں۔ قومی ایئر لائن پی آئی اے کی حالت جیسی پہلے تھی آج بھی وہیں کھڑی ہے۔ اسٹیل ملز کامعاملہ بھی حل نہیں ہوپایاہے۔ ریلوے بھی سعد رفیق کے دور کے بعد مزید ترقی نہیں کرپائی ہے۔ ایم ایل ون کامنصوبہ بھی شیخ رشید کے جانے کے بعد کھٹائی میں ہی دکھائی دیتاہے۔ کوئی قابل ذکر پروجیکٹ اورمنصوبہ تکمیل کے مراحل طے نہیں کررہاہے۔
سب کے سب ابھی تک کاغذوں میں ہی ہیں، اگر موٹرویزاورشاہراہیں نہیں بنیں توکم از کم تعلیم اورصحت کے شعبوں میں توکوئی نمایاں کام ہوناچاہیے تھا۔ ہاں البتہ ایسے صحت کارڈ کے اجراء ضرور ہواہے جس پرشاید ہی کسی غریب شخص کاعلاج ممکن ہوپایاہو۔ غریب آج بھی سرکاری اسپتالوں کے دھکے کھارہاہے۔ تبدیلی کے اِس دور میں قوم نے صرف کابینہ میں ردوبدل اورتبدیلیوں کے تیزمراحل دیکھے ہیں، اِس کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔