کراچی والوں کی بد نصیبی ہے کہ ختم ہی نہیں ہو پاتی۔ 1986 سے یہ شہر مسلسل تباہی و بربادی کی جانب بڑھتا ہی رہا ہے۔ 34 سال کا عرصہ کوئی معمولی نہیں ہوتا۔ اِس عرصے میں کئی نئے شہر آباد کیے جاسکتے تھے لیکن کراچی ایک بسا بسایا شہر تھا جسے جان بوجھ کر تباہ و برباد کر دیا گیا۔
بدقسمتی سے یہاں کی شہری اور صوبائی حکومتیں دونوں ہی اِس شہر کے ساتھ کھلواڑکرتی رہی ہیں۔ پرویز مشرف کے دور میں ایم کیو ایم کے مصطفیٰ کمال کی سر پرستی میں کچھ ترقیاتی کام ہوئے لیکن اُن کے پیچھے بھی مشرف صاحب کی کچھ ذاتی اور سیاسی مفادات تھے اور ایک منظم منصوبہ کے تحت ایم کیوایم کو مضبوط بنایا گیا تاکہ لوگوں میں اُس کے بارے میں کوئی اچھا اور مثبت تاثر پیدا کیا جاسکے۔ اُس دور سے پہلے ایم کیو ایم اپنی حرکتوں کے سبب عوام میں غیر مقبول ہوچکی تھی۔ جماعت اسلامی کے منتخب میئر نعمت اللہ خان ایڈوکیٹ کے دور میں یہاں کچھ ترقیاتی کام ہوئے اور خطرہ محسوس ہونے لگا کہ یہ شہر ایک بار پھر جماعت کے چاہنے والوں کا شہر بن جائے گا، لہذا ایم کیوایم کو ایک بار پھر فعال اور متحرک کیا گیا اور اخلاقی، سیاسی اور بھر پور مالی امداد کے ساتھ اُس کی سر پرستی کی گئی۔
اُسے وفاق کی جانب سے بے تحاشہ فنڈز فراہم گئے کہ وہ یہاں نعمت اللہ ایڈوکیٹ سے زیادہ اچھی کارکردگی دکھا کر ایک بار پھر عوام میں مقبول ہوسکے۔ پھر بلاشبہ کچھ اچھے کام بھی ہوئے لیکن ساتھ ہی ساتھ پرویزمشرف نے ایم کیوایم کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرکے اِس ساری محنت پر پانی پھیر دیا۔
2007 میں اپنے خلاف چلنے والی عدلیہ بحالی تحریک کوکچلنے کے لیے اُنہوں نے ایم کیوایم کو استعمال کیا اورکراچی میں سابقہ چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کے دورے کو مکمل طریقہ سے ناکام بنانے کی غرض سے یہاں آگ اورخون کے ہولی کھیلی۔ اُس ایک روز میں کراچی شہر میں 52 افراد قتل کیے گئے اوربے تحاشہ املاک جائی گئیں اورپھرافسوس کہ اُسی شام کوپرویز مشرف نے راولپنڈی میں کھڑے ہوکر اپنی اِس طاقت اورفرعونیت کا برملا اعتراف اور اقبال جرم بھی کیا۔
پھر 2008 کے الیکشن میں کراچی سے پھر ایم کیوایم کوبھاری مینڈیٹ مل گیا۔ اُس وقت کوئی جماعت بھی اُس کے مقابلے میں اپنی الیکشن مہم چلاہی نہیں پاتی تھی۔ کراچی کے عوام آئے دن کی ہڑتالوں، احتجاج اورقتل وغارت گری سے تنگ آچکے تھے۔ جبری چندہ وصولی، بھتہ خوری اورچوری اورڈکیتیوں سے تنگ آئے ہوئے اِن شہریوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ یہاں کی صوبائی حکومت کو بھی صرف اپنے مفادات کے تحفظ کی فکر تھی۔ کراچی شہر خواہ کتنا ہی تباہ ہوجائے اُسے اُس سے کوئی غرض نہ تھی۔ اُسے اور پاکستان پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت کوصرف اپنے ہی بچاؤ کی فکر لاحق تھی۔
اِس لیے اُن کی پہلی ترجیح اپنی اپنی حکومتوں کوگرنے سے بچانا ہی ہواکرتا تھا، لیکن پھر 2013ء میں نئے الیکشن کے بعد وفاق میں مسلم لیگ(ن) کی حکومت بننے کے بعد حالات کچھ تبدیل ہوتے دکھائی دینے لگے۔ مسلم لیگ نون کومینڈیٹ اتنا بھاری ملاتھا کہ وہ حکومت بنانے کے لیے دوسری جماعتوں کی محتاج نہیں تھی۔ شاید اِسی لیے اُس نے کراچی کا امن اورسکون ایک بار پھر بحال کرنے کا بیڑہ اُٹھا لیااور میاں نواز شریف نے کراچی سے ووٹ نہ ملنے کے باوجود یہاں کے شہریوں کواُن کے اچھے دن واپس کرنے کا تہیہ کرلیا۔ آج ہم اورآپ کراچی کے جس پر امن ماحول میں رہ رہے ہیں دیکھاجائے تو یہ سب ن لیگ کی پالیسیوں کانتیجہ ہے، وہ اگرعسکری اداروں کے ساتھ ملکر مافیازکیخلاف کارروائی کافیصلہ نہ کرتے تو کوئی بعید نہ تھا کہ کراچی آج بھی جل رہاہوتا۔
پاکستان تحریک انصاف کوتو ایک پرامن شہر ملا تبھی تو وہ یہاں سے قومی اسمبلی کی 14سیٹیں لے پائی۔ اگر حالات پہلے جیسے ہوتے توکیا مجال تھی کہ وہ ایک سیٹ بھی یہاں سے لے پاتی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ جس ایم کیوایم کو خان صاحب ملک دشمن اوردہشت گرد پارٹی سمجھاکرتے تھے آج اقتدار ملنے کے بعد اُس کے لوگ اُنہیں بہت ہی نفیس اوراچھے معلوم ہونے لگے ہیں۔
کراچی سے اتنا بھاری مینڈیٹ پاکستان کی تاریخ میں ایم کیو ایم کے بعد اگرکسی کوملاہے تووہ صرف PTIکوہی ملاہے۔ قومی اسمبلی کی 14نشستیں کوئی معمولی نہیں ہواکرتیں۔ یہ چودہ سیٹیں اگر نہ ملتیں توخان صاحب آج وفاق میں حکومت بنانے کے قابل ہی نہیں ہوتے، لیکن کیا خان صاحب نے کراچی والوں کے اِن احسانوں کا بدلہ چکایا ہے۔
دو سال گزر چکے ہیں سوائے زبانی جمع خرچ کے اُنہوں نے کراچی والوں کے ساتھ ابھی تک کیا اچھا برتاؤ کیا ہے۔ وہ جب جب کراچی تشریف لاتے ہیں سوائے لمبے چوڑے وعدوں کے اورکچھ نہیں کرتے۔ عملاً ایک بھی کام نہیں ہو پایا ہے۔ کراچی شہرکے مسائل بہت گھمبیر ہیں۔ یہاں بجلی، پانی اور ٹرانسپورٹ کا زبردست فقدان ہے۔ پنجاب کے تین شہر ایئر کنڈیشن میٹرو بسوں کی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں لیکن کراچی والے تیس تیس سال پرانی مزدا بسوں میں آج بھی اُس کی چھتوں پر بیٹھ کرسفرکرنے پر مجبور ہیں۔ 162 ارب روپے کی جس پیکیج کااعلان گزشتہ برس کراچی کے لیے خان صاحب نے کیا تھا اُس کا کیا ہوا؟
سندھ حکومت کے کارکردگی کا تو سب کومعلوم ہے۔ وہ اپنے گاؤں، دیہاتوں میں جہاں سے وہ جیت کرآتے ہیں اُن کے لوگوں کاکام نہیں کرتے تو وہ کراچی شہرکاکام کیوں کریں گے۔ کراچی والوں کواُن سے اب کوئی گلابھی نہیں ہے۔ اُنہوں نے اُن کوووٹ بھی نہیں دیا ہے۔ ووٹ توPTI کو ملا تھا۔ پی ٹی آئی کراچی والوں کے ریلیف کا کتنا بندوبست کر رہی ہے۔ کون سے ایسے کام ہیں جنھیں گنوا کر یہ کہا جائے کہ دیکھوکراچی والوتم نے پی ٹی آئی کوووٹ دیا تھاتواُس کا بدلہ بھی تمہیں اچھا ملا ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے نہ خان صاحب کواورنہ اُن کے کراچی سے جیتنے والے اراکین اسمبلی کو اِس بات سے کوئی سروکارہے کہ کراچی والے کس حال میں رہ رہے ہیں۔ کراچی کی ساری سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکی ہیں۔
ہر طرف بڑے بڑے اورگہرے کھڈے ہیں جن پرسے گاڑیاں گذارنا عذاب بن چکاہے۔ سوائے چند ایک بڑی سڑکوں کے سارے شہرکی سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں اوریہ کوئی ابھی کی نہیں ٹوٹی ہیں کئی سالوں سے ایسی ہی پڑی ہیں۔ لیکن کیا مجال کہ کسی ایک صاحب اختیارشخص کو یہ احساس ہوجائے کہ کراچی والے کس حال میں زندگی گذار رہے ہیں۔ سب کے سب بیکاراور ویلے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سر شام وہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے روزانہ ٹی وی پر بڑے شوق سے آجاتے ہیں لیکن جو کام اُن کے کرنے کے ہیں اُن کے بارے میں نہ اُنہیں کوئی خیال آتاہے اور نہ اُن کی قیادت کو۔ دوسال ایسے ہی گذر چکے ہیں شاید اگلے تین برس بھی یونہی گذر جائیں گے۔ کراچی والے پہلے بھی بے آسرا تھے اور آیندہ بھی ایسے ہی رہیں گے۔