کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جس کا کوئی والی وارث نہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی جائے پیدائش ہونے کا اعزاز رکھنے والایہ شہر اُن کی وفات سے یتیم اورلاوارث ہوگیا تھا۔ سویلین حکومتوں کے دور میں تو یہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کا دارالحکومت بنارہا لیکن جیسے ہی کسی ایک غیر سویلین حکمراں کو برسراقتدار آنے کے بعد موقعہ ملا اُس نے اِس شہر سے یہ اعزاز چھین لینے پر مکمل عملدرآمد بھی کر لیا۔ پھرکیا تھا یہ شہر کسی پلاننگ اور منصوبے کے بغیر اپنے طور پر خود ہی پھیلنے اور بڑھنے لگا۔
پانی، سیوریج اوربجلی کی فراہمی کے کسی باقاعدہ نظام کی تشکیل کے بناء ہی یہ خود رو جھاڑیوں اور پودوں کے طرح جہاں چاہا وسعت پاتا رہا۔ ایوب خان دورکے بعد پہلی جمہوری اور سویلین حکومت جس شخص کی بنی وہ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی تھی، مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کراچی کی تباہی وبربادی کے اصل داستان شروع ہی اُن کے دور سے ہوتی ہے۔ ویسے تو انھیں کراچی سے بظاہر بہت محبت تھی لیکن یہاں چونکہ اردو بولنے والوں کی تعداد تمام شہروں سے زیادہ تھی لہٰذا انھیں یہ بات شاید پسند نہیں آئی اور اپنی پہلی فرصت میں انھوں نے اردو زبان کونشانہ بنانا شروع کردیا۔
سندھی زبان کو صوبے کی زبان قرار دینا کوئی غلط اور ناجائز کام نہیں تھا لیکن سرکاری نوکریوں میں سندھ کے شہری اور دیہی کی تفریق کرکے انھوں نے اِس صوبے سے وہ زیادتی کردی جس کاخمیازہ نہ صرف اردو بولنے والے لوگ ہی بھگت رہے ہیں بلکہ اِس صوبے میں بسنے والے کروڑوں لوگ بھی اِس کی ترقی وخوشحالی سے محروم ہوتے چلے گئے۔ قابلیت اوراہلیت کاجنازہ جس احساس محرومی کو دورکرنے کے لیے نکالا گیا تھا، وہ احساس محرومی آج چالیس پچاس سال گزرجانے کے بعد میں ختم نہیں ہو پایا ہے۔
اندرونِ سندھ کے لوگ آج بھی اُسی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، جو اِس کوٹہ سسٹم سے پہلے گزار رہے تھے۔ کراچی کی اہمیت وافادیت کم کرکے کسی نے سندھ کی اہمیت میں کوئی اضافہ نہیں کیا، بلکہ اِسے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے مقابلے میں بھی کئی درجہ کم کردیا۔ دس سال کے لیے نافذ کیاجانے والا یہ کوٹہ سسٹم آج 46 برس گزرجانے کے بعد بھی ختم نہیں ہوسکا۔
اسلام آباد میں تمام حکومتوں کی مجبوریاں اورمصلحتیں اِسے ختم کرنے کی راہ میں حائل ہوتی رہیں۔ وفاق میں حکومت کرنے والی کسی بھی جماعت کے مفادات کراچی شہر کے باسیوں سے جڑے نہیں رہے ہیں۔ 2018 تک یہاں الیکشن میں کامیاب ہونے والوں کا تعلق کسی بھی ملک گیر بڑی پارٹی سے نہیں رہا۔ لہٰذا اِس کی ترقی وخوشحالی کسی کو بھی مقدم نہ تھی، پھر یہاں کے اردو بولنے والوں کی حمایت میں جس سیاسی پارٹی نے 30 سال تک مہاجر تنظیم کے نام پر ووٹ حاصل کیے اُسی نے اِس شہرکامزید حال بگاڑ کررکھ دیا اوراِسے ایک جھگڑالو، بھتہ خوراوردہشت پسند لوگوں کے شہر سے منسوب کروا دیا۔
تیس سال تک یہ شہر لوٹ مار، قتل وغارت گری اورخونریزی کا مرکز بنا رہا۔ کہنے کو پرویز مشرف ایک غیر سویلین حکمراں تھے وہ چاہتے تو اِس شہرکو آسانی سے امن کا گہوارہ بناسکتے تھے لیکن انھوں نے بھی اپنی ساری قوت اورطاقت اپنے آپ کومضبوط کرنے میں صرف کردی۔ مہاجرہونے کے ناتے کراچی سے انھیں ہمدردی ضرور تھی لیکن انھوں نے بھی ایم کیوایم کواستعمال کیا۔ 12مئی 2007 کااندوہناک واقعہ انھی کے دور میں پیش آیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی 2008سے متواتر سندھ پر حکومت کر رہی ہے لیکن اِس پارٹی نے ابھی تک اُن لوگوں سے بھی وفا نہیں کی جن سے وہ ووٹ لے کر حکومت کیاکرتی ہے تو پھرکراچی کی بھلاکیونکر وہ کوئی خدمت کرے گی۔ کراچی شہر کی سڑکوں کی جوحالت ِزار ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ سوائے چند بڑی شاہراہوں کے شہرکی تمام سڑکیں ایک عرصے سے ٹوٹ پھوٹ کاشکار ہیں۔
نہ سندھ حکومت کوئی توجہ دے رہی ہے اور نہ شہری حکومت۔ شہری حکومت تو چارسال ہوگئے صرف اپنے اختیارات اور فنڈزکا رونا ہی روتی رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے میئر کراچی سے مخاطب ہوکر درست ہی کہا کہ جب اختیارات نہیں ملے تو میئرکی سیٹ چھوڑکیوں نہیں دیتے۔
میئر کراچی وسیم اختر وہاں توکچھ نہیں کہہ سکے لیکن دوسرے دن باہر نکل کر اپنی خجالت یوں دورکررہے تھے کہ ہم عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوکرآئے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ میئر شپ چھوڑکیوں نہیں دیتے۔ گویادوسرے الفاظ میں یہ سمجھاجائے کہ کوئی کام بھی نہیں کرنا ہے اور اقتدارچھوڑنا بھی نہیں ہے۔ یہاں جس کسی کو چھوٹی سی چھوٹی بھی پوسٹ مل جائے وہ اُس سے الگ ہونا نہیں چاہتا۔ اُسے کوئی نہ کوئی مفاد توضرورعزیزہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایساکرنے سے قاصر رہتے ہیں۔
کراچی کی ٹرانسپورٹ کا جوحال ہے وہ دنیاکے کسی شہر میں بھی نہیں ہوگا۔ 12سال سے سندھ حکومت ہر سال سالانہ بجٹ میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ایک خطیر رقم ضروررکھتی ہے اور500 نئی بسیں لانے کاوعدہ بھی ضرور کرتی ہے لیکن کیامجال کہ کسی برس بھی یہ وعدہ وفا ہوجائے۔
گرین لائن کا جومنصوبہ میاں نوازشریف شروع کرگئے تھے اُس میں صوبے کی حکومت کی دلچسپی رتی برابر بھی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ڈھائی تین سال گزر جانے کے بعد بھی اب تک مکمل نہیں ہوپایاہے۔ پانی اورسیوریج کے مسائل اس کے علاوہ ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور کے الیکٹرک کے نااہلی کی وجہ سے یہاں کے شہری ایک اورعذاب سے گذررہے ہیں لیکن نہ صوبائی حکومت اورنہ وفاقی حکومت کواِس مسئلہ کے حل کرنے میں کوئی خاص دلچسپی ہے۔ صرف پریس کانفرنسیں کرکے اورزبانی جمع خرچ کرکے وزراء عوام کو تسلی اوردلاسہ دیکر چلے جاتے ہیں مگراُن کے جانے کے بعد کوئی پیش رفت سامنے نہیں آتی۔ نہ لوڈ شیڈنگ کم ہوتی ہے اورنہ کوئی اورمسئلہ حل ہوتا ہے۔
14 قومی اسمبلی کی نشستیں اور35 صوبائی اسمبلی کی نشستیں اگر پی ٹی آئی کے بجائے نون لیگ کو ملی ہوتیں توہمیں اتنا ضرور یقین ہے کہ وہ اِس شہر کے حالات ضرور بدل کر رکھ چکی ہوتی۔ کراچی سے اسے صرف چند ایک ہی نشستیں ملی تھی تب بھی اُس نے یہاں امن وامان قائم کرنے کے لیے مخلصانہ کوششیں کیں اوراُس میں کامیاب اورسرخرو بھی ہوئی۔ اِس کے علاوہ لاہورکی طرز پریہاں بھی میٹروبس سروس فراہم کرنے کے لیے گرین لائن پروجیکٹ کاآغاز کیا۔ پانی کی فراہمی کے لیے کے فور منصوبے کی مد میں بھی وفاق کی طرف سے بہت بڑا حصہ ڈالا۔ اب یہ یہاں کی صوبائی حکومت کی ذمے داری تھی کہ وہ اِن دونوں پروجیکٹس کوتیزی سے آگے بڑھائے۔
کراچی کے نظام کوچلانے کے لیے کبھی کبھار ہمارے یہاں گورنر راج نافذ کرنے یاشہرکووفاق کے حوالے کرنے کی باتیں سامنے آتی ہیں۔ ایسالگتاہے یہ سب کچھ بھی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے کیاجاتاہے۔ اول توآئین کے تحت ایسا کرنا ناممکن ہے اوراگر زبردستی بھی کرلیاجائے توعدالتیں اُسے معطل یا منسوخ ضرورکردیں گی۔ وفاق سے اپنے کام توہو نہیں پارہے تووہ بھلادوسرے پنگے اپنے سرکیوں لے۔ وفاق کی اپنی کارکردگی بھی کوئی اتنی اچھی نہیں ہے کہ وہ فخرسے اُس کاکریڈٹ اپنے نام سجا سکے۔
ایسے میں کراچی کے مسائل حل کرنے کاٹھیکہ وہ بھلااپنے ذمے کیوں باندھے گی۔ کراچی کے لیے خان صاحب نے ایک سال پہلے 162ارب کے فنڈز دینے کاوعدہ کیا تھا وہ توابھی تک پورا نہیں کرپائے ہیں توبھلا سارے شہر کے مسائل کو اکیلے کیسے حل کرپائیں گے۔ لہٰذا عوام کسی خوش فہمی میں نہ رہیں کہ کراچی کووفاق اپنی تحویل میں لے لیگا، یہ سب سیاسی اسٹنٹ ہوا کرتے ہیں۔ وقت گذارنے اورعوام کوبیوقوف بنانے کے لیے ایسے شوشے چھوڑے جاتے ہیں۔