خان صاحب کی حکومت کی انفرادیت اورخوبی ہے کہ وہ جس کے خلاف سب سے زیادہ شورمچاتی ہے اُسی پر نوازشیں اور کرم نوازیاں بھی خوب کرتی ہے۔ دوسال ہوگئے عوام کاتوایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا لیکن مافیاگروپس کا ہر مسئلہ حل ہوگیا۔
وزیراعظم اپنی تقریروں اوربیانوں سے تو ہمیشہ یہ تاثر پیدا کرتے رہتے ہیں کہ جیسے وہ اِن عناصر کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ جب کہ دیکھا بالکل اِس کے برعکس گیا ہے۔ وہ جتنازیادہ کسی کے خلاف بولتے ہیں درپردہ اُنہی کی سرپرستی یا حمایت اورمدد بھی کرتے رہتے ہیں۔ عوام کے سامنے تو بظاہر وہ ملک میں ستر سالوں سے جاری لوٹ مار کے خلاف ایک جنگجووزیراعظم کاروپ دھارے ہوئے ہوتے ہیں اور اندر سے وہ اُن کے ساتھ ملے ہوئے ہی نظر آتے ہیں۔
سالِ رواں کے مہینہ جنوری میں جب آٹے اور چینی کابحران سامنے آیاتووہ ابتدامیں تو چپ چاپ بیٹھے رہے لیکن پھرعوام کی طرف سے زبردست شور مچانے اوراحتجاج کرنے پروہ کمیشن بناکر تحقیقات کرنے پر طوعاًوکرہاًراضی اوررضامند ہوگئے۔ اُن کی تعریف وتوصیف میں ساتوں آسمانوں کے قلابے ملانے والوں نے اُن کی مدح سرائی شروع کردی اور کہنے لگے کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی حکومت اپنے ہی لوگوں کے خلاف تحقیقات کرانے جارہی ہے۔
سب سمجھے رپورٹ آنے پر ذخیرہ اندوزوں اورچینی ایکسپورٹ کرنے کی آڑ میں سبسڈی سے فائدہ اُٹھانے والوں کے خلاف زبردست تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ایک ابتدائی رپورٹ آئی تو کہاگیا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آجانے دیجیے پھر دیکھئے گا، ہماراخان کیسے اُس کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرتا ہے۔ وہ بھی آگئی اورپھر ہوا کیا۔ ایک ملزم بھی قابل سزا قرار نہیں دیاگیا۔ سبسڈی کو ایشو بناکر 2008سے اب تک دی جانے والی ساری سبسڈیوں کا کیس بناکے نیب کے حوالے کردیا۔ یوں سارامعاملہ اتناپیچیدہ اورالجھادیا کہ کوئی بھی ملزم یامجرم گردانہ نہ جاسکے۔
چینی کی قیمت اِس سال 53سے85تک کیسے پہنچی اُس ایشوکو چھیڑاتک نہیں گیا۔ سابقہ ادوار میں اگر چینی ایکسپورٹ کی گئی اور اُس پرسبسڈی دی بھی گئی، لیکن اُسکی وجہ سے نہ مارکیٹ میں چینی کی ریٹیل پرائس بڑھی اور نہ چینی کی کوئی قلت یاکمی پیداہوئی۔ ضرورت سے زائد چینی پڑی تھی وہ ایکسپورٹ کردی گئی، جب کہ یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور تھا۔ اضافی چینی کابہانہ بناکر ایکسپورٹ کی اجازت لی گئی اورپھر اُس پر سبسڈی بھی حاصل کی گئی اورملک کے اندر چینی کابحران پیداکرکے یہاں بھی اپنی مرضی کے دام مقررکرا دیئے گئے۔
مزید برآں ایکسپورٹ کی جانے والی چینی کاکوئی ریکارڈ بھی نہیں دکھایاگیا۔ ملک اورقوم کو دونوں جانب سے لوٹا گیا۔ اِس سارے کھیل کے پیچھے حکومت کے اپنے لوگ ملوث تھے لہذا خاموشی کے ساتھ اُنہیں بیرون ملک روانہ کردیا گیا۔ قوم آج بھی اُسی دام سے چینی خریدنے پر مجبورہے جو شوگر مافیانے ازخود مقرر کردیئے ہیں۔ خان صاحب نے اب تک شوگر کے اِس مافیا کے خلاف ایک بھی کارروائی نہیں کی۔ اُلٹا اُنہیں چور دروازے سے باہرروانہ کر دیا۔ عوام کاکیاہے کچھ دنوں میں بھول جائیں گے، اگر نہیں بھولے توکوئی دوسرابحران پیداکرکے پچھلابحران بھلا دینے پر مجبورکردیاجائے گا۔
ابھی قوم چینی اورآٹے کے بحرانوں ہی کورو رہی تھی کہ پیٹرول کی قلت پیداکردی گئی۔ خان صاحب نے حسب عادت اِس کابھی نوٹس لے لیا، وہ جس کابھی نوٹس لیتے ہیں وہ معاملہ سلجھنے کی بجائے اوربھی گھمبیر ہوجاتاہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ گزشتہ مہینے حکومت نے پٹرول کچھ سستا کرکے اُس کی فی لٹرخوردہ قیمت تقریباً 75روپے مقرر کردی۔
عوام کولارے لپے دیئے گئے کہ دیکھوتمہاری ہمدرد حکومت اپنے عوام کا کتنا خیال رکھتی ہے۔ لیکن اِس اعلان کے فوراًبعد پیٹرول ملنا دشوار ہوگیا۔ خان صاحب نے حسب دستور پھر نوٹس لیا اور ساتھ ہی یہ دعوی بھی کیاکہ وہ اِس بحران کے ذمے داروں کونہیں چھوڑیں گے۔ پیٹرول کمپنیوں کے گروپس کو مافیا کانام دیکر اُسے بھی خوفناک انجام سے ڈرایاگیا۔ لیکن پھر ہواکیاوہ سب کے سامنے ہے۔
حکومت کے اہل کاروں نے اِس مافیاکے سامنے بھی اپنے گھٹنے ٹیک دیئے اورسارا بوجھ ایک بار پھرعوام کے سرلاد دیا۔ حکومت کی اِن مافیاز کے سامنے وقعت اورحیثیت کااندازہ اُس قبل ازوقت اعلان سے بھی کیاجاسکتا ہے کہ پیٹرول کی قیمت سوروپے فی لٹر تک لے جانے کا فیصلہ اتنی جلدی اور عجلت میں کیا کہ قیمتوں کے جائزے کے لیے طے شدہ تاریخ یعنی ہر مہینے کی پہلی کی بجائے چار روز قبل ہی کر دیا گیا۔ پیٹرول سستا ہونے کا مکمل ریلیف عوام کوکیاملتا اُلٹا پہلے سے بھی زیادہ قیمت پر اب وہ فروخت ہونے لگا۔
31مئی 2020کو پیٹرول 86روپے فی لٹر مل رہاتھاجسے سستاکرنے کی غرض سے 75روپے پر یکم جون کولایاگیالیکن 26جون کی رات کو عوام پر شب خون مار کر واپس 86کرنے کی بجائے یکدم 100روپے فی لٹر کردیاگیا۔ قوم کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ وہ اب خان صاحب کی کن باتوں پراعتبار کرے، وہ جس کے خلاف بھی ایکشن لینے کا ارادہ ظاہرکرتے ہیں الٹااُسے نوازنے لگتے ہیں۔
نہ چینی سستی ہوئی اورنہ پٹرول۔ حکومت کے اخراجات کاسارا بوجھ صرف اورصرف عوام کے کمزور کاندھوں پر ڈال دیاگیاہے۔ ذرا سوچیے، اربوں روپے چینی کی مد میں عوام کی جیبوں سے نکل کرآج بھی شوگرملز مالکان کے خزانوں میں جارہے ہیں اوراِسی طرح اب پٹرول کی مد میں کھربوں روپے عوام کی جیبوں سے نکل رہے ہیں، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ غریب عوام اپنا دکھڑا روئیں توکس کے سامنے۔ شکوہ کریں توکس سے کریں۔ کوروناوائرس اورمسلسل لاک ڈاؤن کیوجہ سے وہ پہلے ہی ادھ موئے ہوئے بیٹھے ہیں۔ ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں اورحکومت ہے کہ عوام پر مزید بوجھ لادے جارہی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے ابھی تک عوام کاکوئی مسئلہ حل نہیں کیاہے اورنہ وہ لوٹا ہوا پیسہ ابھی تک واپس لانے میں کامیاب ہوپائی ہے اورنہ کسی کوسزادینے کی قابل ہوپائی ہے، بلکہ اگرغیر جانبدارانہ طور پر دیکھا جائے تو یہ حقیقت کھل کرعیاں ہوجائے گی کہ موجودہ دور حکومت میں ملک کے اندر موجود تمام مافیاز اور بھی مضبوط ہوئی ہیں۔ جو ڈر اورخوف اگر پہلے کچھ باقی تھاوہ بھی اب رفع دفع ہوچکا ہے۔ وہ بلاخوف وخطر اپنی من مانیاں کررہی ہیں اور خان صاحب اُن کے خلاف صرف اورصرف زبانی جمع خرچ ہی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
اُن کی دلیری اوربہادری کی ساری باتیں اب ہوا چکی ہیں، وہ کسی کاکچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اُنکی حکومت جتنی بے بس اورلاچار حکومت ہے شاید ہی اِس سے پہلے ہماری کوئی حکومت رہی ہو۔ وہ نہ اپنے وزراء کوسدھارسکتی ہے اورنہ باہر بیٹھی کسی مافیاکو۔ ہر چندماہ بعد صرف عوام اورمیڈیاکودکھانے اوراُنہیں خاموش اور چپ کرانے کی غرض سے کچھ شیخیاں ضروربھگار ی جاتی ہیں مگرعملاً کوئی کارروائی سامنے نہیں آتی۔