پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری کے خیال میں میاں نواز شریف کو ملنے والی تمام رعایتیں محض اس وجہ سے ہیں کہ اُن کا ڈومیسائل پنجاب کا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو عدالتوں سے اُنہیں ریلیف ہرگز اِس وجہ سے نہیں ملا ہے کہ وہ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔
ریلیف ملنے کی بات کو اگر علاقائی تعصب کی عینک کے بنا دیکھا جائے تو عدالتوں سے سب سے زیادہ ریلیف خود اُنہیں اور اُن کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کو ملا ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین جن پر ابھی چند سال پہلے 480 ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگا تھا وہ آج کس جیل میں قید ہیں کوئی بتا سکتا ہے۔ اومنی گروپ کے حسین لوائی اور انور مجید کیا کر رہے ہیں اور کس شہر میں مقیم ہیں کوئی جانتا ہے۔ پیپلزپارٹی کے دیگر لوگوں پر مالی بدعنوانیوں کے مقدمات کا کیا ہوا۔ کیا وہ سب بھی سندھ ڈومیسائل رکھنے کی پاداش میں ابھی تک پابند سلاسل ہیں یا رہا کر دیے گئے۔
میاں محمد نوازشریف کا خاندان ہم سب جانتے ہیں سیاست میں آنے سے پہلے بھی مالی طور پر اچھا خاصہ مستحکم تھا، جس طرح ہمارے ملک کے آج بہت سے لوگ بزنس ذریعے ترقی کر گئے اِسی طرح میاں صاحب کے والد محترم جن کا تعلق سیاست سے کبھی نہیں رہا تھا 1972 میں ہی ترقی کرکے مالدار لوگوں میں شمار ہوچکے تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے میاں نوازشریف کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ہی اُنہیں سب سے پہلے پنجاب کا فنانس منسٹر لگایا۔ جنرل ضیاء الحق سے تمام تر اختلاف کے باوجود کوئی بھی شخص آج یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ کوئی کرپٹ حکمران تھے، جس طرح ذوالفقار علی بھٹوکی بھی یہ خصوصیت تھی کہ اُنہوں نے سیاست کو مالی بدعنوانی کے لیے کبھی استعمال نہیں کیا بالکل اسی طرح جنرل ضیا گیارہ سال تک اِس ملک کے ایک مطلق العنان حکمراں رہے لیکن کرپشن نہیں کی اور نہ کسی کو کرنے دی۔ 1988 میں اُن کی فضائی حادثے میں ناگہانی ہلاکت کے وقت اُن کے خاندان کے پاس رہنے کے لیے اپنا کوئی ذاتی مکان تک نہ تھا۔ ملکی سیاست میں کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کا دور جنرل ضیا کی وفات کے بعد شروع ہوا یہ اگر کہا جائے تو قطعاً غلط اور بے جا نہیں ہوگا۔
سیاست اور جمہوریت کو اپنے مالی فوائد اور مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا ہنر ہمارے یہاں سب سے زیادہ کسے آتا ہے وہ بھی ہم سب کو پتا ہے۔ کیا زرداری صاحب یا اُن کی پارٹی کی کسی اعلیٰ عہدیدار کو عدالتوں نے قرار واقعی سزا سنائی ہے، جب کہ میاں صاحب کو پاناما اسکینڈل کی آڑ میں نہ صرف معزول اقتدار کردیا گیا بلکہ دس سالوں کے لیے قید کی سزا بھی سنادی گئی۔ اس اسکینڈل میں نامزد485 ملزمان میں سے صرف ایک شخص پر مقدمہ چلا کر جس طرح بدنام کیا گیا ہے کیا وہ بھی صرف پنجاب کے ڈومیسائل کی وجہ سے تھا۔
پنجاب اور سندھ کے ڈومیسائل کا تفرق کرنے والے 1993 کے اُس مقدمہ کی بات کرتے ہیں جس میں ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے صدر مملکت اسحق خان کے فیصلے کو معطل کرکے میاں نوازشریف کی حکومت بحال کردی تھی، حالانکہ اُس واضح اور دو ٹوک فیصلے کے بعد بھی میاں نوازشریف کی حکومت کو چلنے نہیں دیا گیا۔ مگر میاں صاحب نے کبھی اپنی اس محرومی کو صوبائیت اور لسانیت سے نہیں جوڑا۔ ڈومیسائل کو ایشو بناکر اس ملک میں کالا باغ ڈیم بھی بننے نہیں دیا گیا اور پھر جب فصلوں کے لیے پانی کی کمی ہوجائے تو پانی کی چوری کا الزام بھی اِسی تفریق و امتیازکے ساتھ پنجاب پر لگا دیا جاتا ہے۔
آج سوائے سندھ صوبے کے سارے ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر ڈومیسائل کی تفریق ابھی تک باقی ہے۔ یہ ایشو ایسا ایشو ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا۔ معاملہ پانی کی کمی کا ہو یا صوبوں کو وفاق سے ملنے والے فنڈز کا ہو، پیپلزپارٹی ڈومیسائل کی آڑ میں اپنا حق وصول کرتی رہے گی۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بھی یہ مسئلہ جوں کا توں باقی ہے اور شاید ہمیشہ رہے گا۔
قومی سطح پر ڈومیسائل کا شکوہ کرنے والوں نے خود اپنے صوبے میں ایک ڈومیسائل کی بجائے دو ڈومیسائل رائج کررکھے ہیں۔ اربن اور رورل سندھ۔ 1973 میں دس سالوں کے لیے کوٹہ سسٹم بنایا گیا تھا اور اردو بولنے والوں سے اُن کا حق نہ صرف چھین لیا گیا تھا بلکہ غصب کر لیا گیا تھا اور48سال گذر جانے کے باوجود ابھی تک چھینا جارہا ہے۔
کراچی میں پیدا ہونے والوں کا یہ جرم جو اُن کے اختیار میں بھی نہ تھا ایک ناقابل معافی اور تلافی جرم قرار پایا ہے۔ یہاں پیدا ہونے والا کبھی بھی سرکاری نوکریوں کا حقدار نہیں گردانہ جائے گا۔ رورل ایریا سے ہجرت کرنے والوں نے کراچی سے اُس کا یہ چالیس فیصد حصہ بھی ہڑپ کر لیا ہے اور اربن ڈومیسائل بناکر سیاسی اثرو رسوخ استعمال کرکے ان کے حصے کی نوکریاں بھی اپنے نام کردی ہیں۔ ایسی صورت میں کراچی میں پیدا ہونے والا کہاں جائے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود در در کی ٹھوکریں کھانا اس کا مقدر بن چکی ہے۔ یہاں کے نوجوانوں کے لیے کام اب صرف ٹیکسی چلانا رہ گیا ہے۔ کراچی کے کسی بھی ضلع کا کمشنر کراچی کا رہنے والا نہیں ہے۔
بورڈ آف ریوینیو میں کوئی بھی رجسٹرار اردو بولنے والا نہیں ہے۔ کراچی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا نام بدل کر سندھ ڈیویلپمنٹ اتھارٹی رکھ دیا گیا ہے اور یہاں سارے افسران سندھ سے ہیں۔ شہر بھر میں تجاوزات کے جس جال کا ہمیشہ گلا رہتا ہے وہ سب ایسے ہی افسروں کا کیا دھرا ہے۔
اِن افسروں کو پکڑنے کی بجائے اُن غریب مکینوں کو ڈانٹا جاتا ہے جنھوں نے اپنی تمام زندگی کی جمع پونجی حکومتی اداروں سے منظور شدہ پروجیکٹس میں لگا دی تھی۔ اَن پروجیکٹس کی منظوری جن افسروں نے دی تھی وہ آج بھی مزے میں گھوم پھر رہے ہیں۔ اُنہیں کوئی طلب کرنے والا نہیں ہے۔ سندھ میں کوٹہ سسٹم کو ختم کرنے میں کسی کی دلچسپی نہیں ہے۔ نہ پی ٹی آئی جسے اِس شہر سے قومی اسمبلی 14 نشستیں ملی ہیں اور نہ اردو بولنے والوں کی ترجمان ایم کیوایم کے پاس اس بارے میں سوچنے کا وقت اور فرصت ہے، جب کہ پیپلزپارٹی نے تا قیامت یہاں راج کرنے کا لائسنس حاصل کیا ہوا ہے، لہٰذا یہ حق تلفی اب تا قیامت یونہی چلتی رہے گی۔