مولانا فضل الرحمن کو گلہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے اُنکے آزادی مارچ اور اسلام آباد دھرنے میں اُن کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کیا اور وہ تنہا ہی حکومت کے خلاف سراپا احتجاج بننے پر مجبور ہوئے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو آزادی مارچ شروع کرنے کا فیصلہ مولانا نے اکیلے ہی اکیلے خود کر دیا تھا۔ اِن دونوں جماعتوں نے تو مولانا کو بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ حکومت ہٹانے کے کسی غیر جمہوری طریقہ کار کو اچھا نہیں سمجھتیں۔ پیپلز پارٹی نے تو کھل کر کہہ دیا تھا کہ وہ دھرنا سیاست کی سخت مخالف ہے۔
اِسی طرح مسلم لیگ (ن) بھی اکتوبر 2019میں کسی تحریک کے شروع کیے جانے پر رضا مند ہی نہ تھی، مگر مولانا نے کچھ دن تو صبر کیا اور حتی المقدور دونوں سیاسی پارٹیوں کو راضی کرنے کی کوششیں کیں لیکن پھر اچانک خود ہی یکطرفہ فیصلہ کر کے میدان میں کود پڑے۔ شروع شروع میں تو اُن کے اِس مارچ میں شرکاء کی کثیر تعداد نے تو لوگوں کو حیران کر دیا اور وہ سمجھنے لگے کہ واقعی مولانا کو کہیں سے کچھ اشارے ملے ہیں اور وہ اب اسلام آباد جا کر ہی رکیں گے۔
پھر جب وہ مقررہ تاریخ کو اسلام آباد پہنچے تو کئی دنوں تک سخت موسمی حالات میں بھی وہ اور اُن کے ساتھیوں نے آس اور اُمید کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ وہ بارش اور کڑاکے دار سردی کے باوجود وہ دھرنا دیے بیٹھے رہے۔ حکومت کی طرف سے رکاوٹ کی غرض سے بلائے گئے کنٹینروں میں نہ صرف پناہ لی بلکہ اُنہیں اپنے قیام کے تمام عرصہ تک باقاعدہ سرائے کے طور پر استعمال بھی کیا۔ مولانا صاحب نے بظاہر جمہوری اُصولوں کی پاسداری کے شوق میں اِس احتجاج کو مکمل پُر امن رکھا اور عدم تشدد کی راہ اپنائی۔
ڈی چوک نہ جانے کے فیصلے نے مولانا کے اپنے چاہنے والوں کو بھی بہت مایوس کیا اور رفتہ رفتہ کوئی نتیجہ نہ نکلنے کے سبب وہ واپس ہونے لگے۔ مولانا نے صورتحال کی نزاکت کو بر وقت بھانپ کے چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کو بنیاد بنا کے دھرنے کے خاتمہ کا اعلان فرما دیا۔ اب وہ چاہیں خواہ کچھ بھی کہتے رہیں کہ کسی خفیہ یقین دہانیوں پر اُنہوں نے دھرنا ختم کیا تھا مگر حقیقت یہی ہے کہ نہ خدا ہی ملا، نہ وصال صنم کے مصداق خالی ہاتھ وہ اسلام آباد سے واپس تشریف لے آئے۔
وہ چاہیں اب کچھ بھی کہتے رہیں لیکن مارچ کے مہینے تک خان حکومت کے خاتمے کی باتوں پر اب کسی ایک شخص کو بھی یقین نہیں آرہا۔ مولانا کی اب یہ کیفیت ہے کہ وہ پرویز الٰہی یا خفیہ یقین دہانی کروانے والوں سے بھی پوچھ نہیں پا رہے کہ اُس کہ اُن سے کیا ہوا وعدہ کیا ہوا۔ مجبوراً وہ اب اپنے دوستوں سے شکوہ کر رہے ہیں کہ اُنہوں نے ساتھ نہ دیا۔ ہمیں تو ایسا لگتا ہے مولانا سے کسی نے بھی کوئی وعدہ نہیں کیا تھا، وہ اپنی مرضی سے اسلام آباد گئے تھے اور اپنی ہی مرضی سے واپس بھی ہوئے۔
اپوزیشن نے تو مولانا سے صاف صاف کہہ دیا تھا کہ وہ فی الحال کسی اکھاڑ پچھاڑ کے موڈ میں نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) تو خود اپنے جھمیلوں میں پھنسی ہوئی ہے۔ اُس کی ساری سیاست تو اب صرف اپنے آپ کو بچانے پر لگی ہوئی ہے۔ میاں صاحب کی رہائی اور لندن روانگی سے لے کر دیگر معاملات تک مسلم لیگ (ن) صرف خاموشی پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔ بلاول بھٹو سمیت بہت سے تبصرہ نگاروں کی شدید تنقید کے باوجود مریم نواز اپنا چپ کا روزہ توڑنے پر کسی طور آمادہ دکھائی نہیں دے رہیں۔
وہ لندن بھی نہیں جا پا رہیں اور ملک کے اندر سیاست بھی نہیں کر پا رہیں۔ بس اُنہیں اوراُن کے والد کو یہ اطمینان ہے کہ وہ آج کل کوٹ لکھپت کی سلاخوں سے باہر ہیں۔ ملک کے اندر آٹے اور چینی سمیت کئی بحرانوں نے جنم لیا اور دم توڑگئے لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت ایک لفظ بھی بول نہیں پائی۔ حکومت کی نا اہلی ہر روز ایک نیا شوشہ کھڑے کر دیتی ہے لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت ہر معاملے سے لا پرواہ اور لاتعلق ہوکر حالات کے بدل جانے کا انتظار کر رہی ہے۔ مریم نواز آج کل اپنے ٹویٹ پر بھی بہت کم کم دکھائی دیتی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ یہ حکومت خود اپنی نااہلیوں اور نالائقیوں کے سبب گرے گی۔ اِسے زبردستی گرانے سے وہ عوام کی نظروں میں بلاوجہ مقدس اور معصوم ہونے لگے گی۔ لہذا اِسے اپنے کرتوتوں اور ناقص کارکردگی کی بدولت ہی غیر مقبول ہونے دیا جائے۔ جو حکومت یہاں بڑے بڑے پروجیکٹ اور منصوبے شروع کرکے معاشی و اقتصادی خود مختاری کی راہ پرقوم کو ڈالے وہ زیادہ دنوں تک برداشت نہیں کی جاتی۔
ہاں جوحکومت مرغیوں، بھینسوں، کٹوں، لنگرخانوں اور شیلٹرہوم جیسے چھوٹے چھوٹے مشغلوں سے قوم کا دل بہلایا کرے وہ امریکی انتظامیہ کے لیے اچھی، مخلص اور قابل قبول گردانی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ہماری موجودہ حکومت کوسابقہ تمام حکومتوں پر ترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں، جو حکمراں ہمارے یہاں ترقیاتی منصوبوں پر قدغنیں لگائے اور سی پیک جیسے عظیم پروجیکٹ کو سرد خانے کی نذرکردے وہی اُن کی نظروں میں زیادہ معتبر اورقابل اعتماد ہوا کرتا ہے۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی، مولانا کی خفگی اور ناراضی کی۔ اُنہیں چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی سے شکوہ شکایت کرنے کی بجائے وہ خود اپنی عجلت پسندی اورغیر دانش مندانہ حکمت عملی کو الزام دیں تو شاید مناسب ہوگا، کیونکہ جب ملک کے تمام ادارے کسی حکومت کے انتہائی فیور میں ہوں اور اُسے مکمل سپورٹ کر رہے ہوں تو ہمارے یہاں قبل از وقت چلائی گئی تحریکوں کو حشر ایسا ہی ہواکرتاہے۔ پیپلز پارٹی کوگرچہ اُن مصائب اور مشکلات کا سامنا نہیں جیسے مسلم لیگ (ن) کو ہے لیکن وہ پھر بھی ابھی تک کسی احتجاجی تحریک کے موڈ میں دکھائی نہیں دیتی۔ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے حکومت مخالف اکا دکا بیانات سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ابھی سڑکوں کی سیاست کے لیے مکمل تیار ہے۔
چالیس سالہ سیاسی جدوجہد نے پیپلز پارٹی کو بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ وہ حالات وواقعات کا مکمل جائزہ لے کر ہی سڑکوں پر آنے کا سوچا کرتی ہے۔ کسی جلد بازی یا عدم پختگی کا مظاہرہ وہ ہرگز نہیں کرتی۔ وہ لوہے پر اُسی وقت چوٹ مارنے کی حامی ہوتی ہے جب لوہا اچھی طرح گرم ہو۔ مولانا کو اِن دونوں سیاسی جماعتوں سے شکوہ شکایت کرنے کی بجائے خود اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیے۔
اُنہوں نے کس کے مشورے پر اِس آزادی مارچ کا آغاز کیا تھا۔ ایسی تحریکیں مکمل منصوبہ بندی اور پلاننگ کے ساتھ شروع کی جاتی ہیں۔ تمام ممکنہ آپشنز اور پہلوؤں پر غورکیاجاتا ہے۔ حکومت وقت کی جانب سے تمام ممکنہ مزاحمتی اقدامات کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اور جب ایک بارکوئی قدم اُٹھا ہی دیا تو پھر دانش مندی کا تقاضا تھا کہ ڈٹے رہتے۔ پی ٹی آئی کے 126دنوں کے دھرنے کو سامنے رکھ کرکوئی حکمت عملی تیار کرتے۔ ڈی چوک کا وہ دھرنا بھی دیکھاجائے تو ایک مکمل فلاپ شو تھا، لیکن ہرروز شام ڈھلے ایک میوزیکل شوکروا کے اُسے 126دنوں تک زبردستی چلایا گیا اور پھر آرمی اسکول میں دہشت گردی کو عذر بنا کر لپیٹ دیا گیا۔
مولانا کے پاس تو میوزیکل کنسرٹ کروانے کا بھی کوئی آپشن نہیں تھا۔ لہذا ناکام ہونا لازمی اور ناگزیر تھا۔ اُنہیں اپنے دوستوں سے شکوہ اور شکایت کرنے کی بجائے اب صرف اُس خفیہ سمجھوتے کو عوام کے سامنے لانا ہوگا جس کو بنیاد بنا کر اُنہوں نے اسلام آباد سے واپس جانے کا فیصلہ کیا تھا وہ اگر خالی ہاتھ واپس نہیں گئے تھے تو پھر قوم کو بتائیں کہ ساتھ لے کرکیا گئے تھے۔