آٹھ نو ماہ ہوچکے لیکن مولانا فضل الرحمن کو اب تک یہ گلہ کھائے جارہاہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے گزشتہ برس اُن کے دھرنے والے پروگرام کاحصہ نہ بن کر اُن کے ساتھ بے وفائی کی اور انھیں آسرا دیکربیچ منجھدارمیں بے یارو مددگار تنہا چھوڑدیا، حالانکہ دیکھا جائے تو اِن دونوں جماعتوں نے تو مولانا کواُس وقت بھی بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ وہ ایسا نہ کریں۔
زمینی حقائق اِس وقت ہمارے فیور میں نہیں ہیں۔ حکومتِ وقت کو ابھی تک ملک کی نادیدہ قوتوں کی مکمل سپورٹ اور سرپرستی حاصل ہے۔ اِس لیے آپ کچھ بھی کرلیں آپ کی تمام تر کوششیں لاحاصل ہی رہیں گی، مگرمولانا صاحب پتا نہیں کس خوش فہمی اورخوش گمانی میں مبتلا تھے کہ وہ یہ معرکہ اکیلے ہی سر کرنے نکل پڑے۔
شروع شروع میں تو اُن کے اِس مارچ میں شرکاء کی کثیر تعداد نے بہت سے لوگوں کو حیران کردیا اور وہ سمجھنے لگے کہ واقعی مولانا کو کہیں سے کچھ اشارے ملے ہیں اور وہ اب اسلام آباد جاکر ہی رکیں گے، پھر جب وہ مقررہ تاریخ کو اسلام آباد پہنچے تو کئی دنوں تک سخت موسمی حالات میں بھی وہ اور اُن کے ساتھیوں نے آس اور اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اور بارش اور کڑاکے دار سردی کے باوجود وہ دھرنا دیے بیٹھے رہے۔
حکومت کی طرف سے رکاوٹ کی غرض سے بلائے گئے کنٹینروں میں نہ صرف پناہ لے لی بلکہ انھیں اپنے قیام کے تمام عرصہ تک باقاعدہ سرائے کے طور پر انھیں استعمال بھی کیا۔ مولانا صاحب نے کامیابی کی غیر مستند یقین دہانیوں اورضرورت سے زیادہ خود اعتمادیوں کی وجہ سے اور بظاہر جمہوری اُصولوں کی پاسداری کے شوق میں اِس احتجاج کو مکمل پُرامن رکھااور عدم تشدد کی راہ اپنائی۔ ڈی چوک نہ جانے کے فیصلے نے مولانا کے اپنے چاہنے والوں کوبھی بہت مایوس کیا اوررفتہ رفتہ کوئی نتیجہ نہ نکلنے کے سبب وہ دلبرداشتہ ہوکرواپس ہونے لگے۔
مولانا نے صورت حال کی نزاکت کو بروقت بھانپتے ہوئے حکومت کی طرف سے بھیجے گئے وفد کے سربراہ چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ بڑے خوشگوار انداز میں مذاکرات شروع کیے اور پھر فوراً ہی اِن مذاکرات کو ایک کامیابی قراردیکراپنے اِس دھرنے کے خاتمہ کاباقاعدہ اعلان فرماڈالا۔ وہ اب چاہے کچھ بھی کہتے رہیں کہ کسی خفیہ یقین دہانیوں پر انھوں نے دھرنا ختم کیاتھا مگر حقیقت یہی ہے کہ نہ خداہی ملانہ وصال صنم کے مصداق وہ خالی ہاتھ ہی اسلام آباد سے واپس لوٹے تھے۔ اُن کے دھرنے نے باامر مجبور ی، دم توڑا لیکن وہ بظاہراپنے طور پر سرخروئی کاتاج پہن کر اسلام آباد سے لوٹے۔ نجانے ایسے کونسے وعدے تھے کہ جن کو آج تک بتانے سے گریزاں ہیں۔
مارچ کے مہینے میں جس تبدیلی کی انھیں کسی نے یقین دہانی کرائی تھی وہ کم از کم اُن سے تو پوچھ سکتے ہیں کہ میرے ساتھ اتنا بڑا ہاتھ کیوں کرڈالا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مولانا صاحب کو بھی دھرنے سے واپس آنے کے لیے کوئی باعزت سیف پیسیج چاہیے تھا، وہ چوہدری برداران نے پرانی دوستی کاخیال رکھتے ہوئے انھیں فراہم کردیا۔ یوں مولانا صاحب اپنی کچھ عزت بچانے میں کامیاب ہوپائے اورخان حکومت کے سر سے بھی یہ عارضی اورجزوقتی خطرہ ٹل گیااوراِس کے نتیجے میں وہ فیض آبادجیسے دھرنے والے حالات کاسامنا کرنے سے بچ گئی۔
ہماری موجودہ اپوزیشن کا تو جو حال ہے وہ کسی سے ڈھکاچھپا بھی نہیں ہے۔ وہ خان صاحب کی دھمکیوں اور نیب کی کارروائیوں سے خوفزدہ اور پریشان نہیں ہیں۔ میاں صاحب کو سزا دینے والے ایک جج کو تو ویڈیو سکنیڈل میں معزول کردیاگیالیکن میاں صاحب کے خلاف فیصلہ جوں کا توں ہی رہا۔ اِسکے باوجود بھی شریف فیملی پراسرار خاموشی پر اکتفا کیے ہوئے ہے کہ شاید اس طرح اُتر جائے تیرے دل میں میری بات اورمعافی تلافی کاکوئی راستہ ہموارہوسکے۔
رہ گیا سوال پیپلز پارٹی کے لوگوں کاتووہ اِسی میں خوش ہیں کہ ان کے پاس کم از کم ایک صوبے سندھ کی حکومت تو موجود ہے۔ مزید براں نیب نے بھی نے انھیں فی الحال کچھ ریلیف دیا ہواہے اوراُن پراپنا ہاتھ بھی ہلکا کیاہوا ہے۔ کہاں گیا وہ ڈاکٹر عاصم کی 480ارب روپے کی کرپشن کاقصہ اور ایان علی کی منی لانڈرنگ کا مقدمہ۔ رہ گیاسوال ملک کا تووہ پہلے بھی اسی طرح چلتا رہا ہے آیندہ بھی چلتا رہے گا۔
امریکی ایجنڈے کی تعمیل اورتکمیل نے اِس ملک کو کبھی آگے بڑھنے ہی نہیں دیا۔ آج امریکا سمیت دیگر دشمن ممالک کی ایجنسیاں یقینا مسرت اور اطمینان کاسانس لے رہی ہونگی کہ پا کستان ترقی وخوشحالی کی راہ سے بھٹک کر ایک بار پھر تنزلی اور انحطاط پذیری کی جانب بڑھنے لگا ہے۔
اُسکی خود مختاری اور خود انحصاری کاخواب ایک بار پھر تشنہ تعبیر ہوچکا ہے اور وہ لاغر اور محتاج ہوکرہمارے ہرحکم کی اطاعت اور تابعداری پر مجبور ہوچکا ہے۔ یہی وہ چاہتا تھا اورویسا ہی کردیا گیا ہے۔ آج ملک کی شرح نمود یعنی GDP برسوں بعد منفی درجوں میں پہنچادی گئی ہے۔ حالات کی سنگینی عندیہ دے رہی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ مزید تنزلی کاشکار ہوگی۔ یہ ہماری بدقسمتی رہی ہے کہ جب جب اِس ملک نے اپنے آپ کو مستحکم بنانے کی کوشش کی، اچانک کوئی ایسا معاملہ اور ایشو سامنے آجاتا ہے یاپیدا کردیا جاتا ہے اوربڑی محنت اور بڑی مشکلوں سے بنایاگیا سیٹ اپ جڑ سے اکھاڑکر پھینک دیاجاتا ہے۔
ہاں تو بات ہورہی تھی مولانا کی خفگی اور ناراضی کی۔ انھیں چاہیے کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی سے شکوہ شکایت کرنے کے بجائے وہ خود اپنی عجلت پسندی اورغیر دانشمندانہ حکمت عملی کو الزام دیں تو شاید مناسب ہوگا۔ کیونکہ جب ملک کے تمام ادارے کسی حکومت کے انتہائی فیور میں ہوں اوراُسے مکمل سپورٹ کررہے ہوں تو ہمارے یہاں قبل ازوقت چلائی گئی تحریکوں کا حشر ایسا ہی ہواکرتا ہے۔
مولانا کو اپنے دوستوں سے شکوہ اور شکایت کرنے کے بجائے اب صرف اُس خفیہ سمجھوتے کو عوام کے سامنے لاناہوگاجس کو بنیاد بناکر انھوں نے اسلام آباد سے واپس جانے کا فیصلہ کیاتھا، وہ اگر خالی ہاتھ واپس نہیں گئے تھے تو پھر قوم کو بتائیں کہ ساتھ لے کر کیا گئے تھے۔ مولانا جن کے کہنے پرواپس ہوئے وہ بھی نہیں بتارہے کہ مولانا کو کن وعدوں اور یقین دہانیوں پرواپس جانے پر مجبور کیاگیاتھا اورنہ خود مولانا صاحب اِس پرلب کشائی کرنے کو تیار ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ مولانا کو یہ رازکھولنے میں کون سی رکاوٹ حائل اورمانع ہے۔