Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Moroosi Siyasat Ki Mukhalfat Kyun

Moroosi Siyasat Ki Mukhalfat Kyun

ہمارے یہاں اکثر لوگ پاکستان پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ(ن) پر تنقید کرتے ہوئے یہ کہتے اور سنے جاتے ہیں کہ اِن دونوں پارٹیوں کی قیادت ایک ہی خاندان کے ارد گرد گھومتی ہے۔ پارٹی میں اور بھی قابل لوگ ہوتے ہیں لیکن قیادت صرف ایک ہی فیملی کے پاس رہتی ہے۔ ایساکیوں؟

جی یہ بات درست ہے کہ پارٹی میں ایک نہیں بہت سے لوگ علم اور ذہانت کے اعتبارسے قابل ہوتے ہیں اوراُن کا حق بھی بنتا ہے کہ وہ پارٹی کی ضرورت پڑنے پرقیادت بھی کریں لیکن ہمیں یہ بھی دیکھناہوگا کہ عوام قیادت کے طور پر کس کو دیکھناچاہتے ہیں۔ شخصیت پرستی سیاست کا اہم جز ہوتی ہے۔ کوئی شخص کامیاب سیاستداں بنتا ہی اُسی وقت ہے جب اُسے عوام الناس کی محبت اور پذیرائی نصیب ہوتی ہے۔ قابلیت اورعلمیت سیاست میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتے۔

اگر ایسا ہوتا تو پھر صرف دانشور حضرات ہی میدانِ سیاست کے سپہ سالار ہوا کرتے، اوریہ صرف ہمارے یہاں ہی ایسا نہیں ہوتا۔ ساری دنیا میں ایسا ہی ہوتا آیاہے۔ موروثی سیاست کوئی بری چیز نہیں ہوتی۔ ہمارے پڑوس میں اندراگاندھی کون تھی۔ وہ بھارت کے ایک سابق وزیراعظم جواہرلال نہرو کی صاحبزادی تھیں۔

انھوں نے تقریباً سولہ برس ہندوستان پر حکمرانی کی۔ پھراُن کے بعد اُن کے فرزند راجیو گاندھی نے پارٹی کی قیادت سنبھالی اور وزیراعظم کے عہدے تک کامیابی سے پہنچے اور سرخروبھی ہوئے۔ اِس کے علاوہ اندراگاندھی کے ایک اور فرزند جناب سنجے گاندھی تو اُن کے دور اقتدار ہی میں سیاست میں اچھے خاصے سرگرم ہوچکے تھے اوراگر وہ طیارے کے حادثے میں جاں بحق نہ ہوتے تو شاید وہ بھی وزیراعظم ضرور بن جاتے۔ لیکن زندگی نے اُن کا ساتھ نہیں دیااوروہ اِس دنیاسے بہت پہلے ہی چلے گئے۔

اِس کے علاوہ اطراف کے دیگر ممالک میں دیکھیں تو بنگلہ دیش میں آج کون حکمران ہے۔ محترمہ حسینہ واجد کون ہے۔ وہ بھٹو صاحب کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح ایک معروف سیاستداں بلکہ بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمن کی ایک باصلاحیت ہنر مند بیٹی ہیں۔ اُن سے سیاسی طور پر ہم کتنا ہی اختلاف کرلیں لیکن اُن کی قائدانہ صلاحیتوں سے انکار ہرگز نہیں کرسکتے۔ وہ اگر اِن قائدانہ صلاحیتوں کی مالک اور امین نہیں ہوتیں توکب کی سیاست سے فارغ کر دی جاتیں۔

اُن کی سیاست میں کامیابی کا یہ ثبوت ہی کافی ہے کہ اُن کے دور میں آج بنگلہ دیش تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے سیاسی امور میں اداروں کی مداخلت کاراستہ بھی مکمل طور پر بند کردیا ہے۔ ورنہ اُن سے پہلے بنگلہ دیش میں بھی آئے دن جمہوری حکومتوں کو معزول کرنے کارواج قائم تھا۔ اگر دیکھاجائے تو بنگلہ دیش کی موجودہ خوشحالی میں بھی یہ فیکٹر بہت اہم اور نمایاں ہے۔

ہم لاکھ انکار کریں لیکن سیاسی اور جمہوری حکومتوں کے تسلسل ہی کی وجہ سے وہاں کے لوگ آج ترقی وخوشحالی کی راہ پرگامزن ہیں۔ اِس کے علاوہ سری لنکا میں بندرانائیکا فیملی ایک ایسی واحد فیملی ہے جس نے ملک کو تین پرائم منسٹر اورایک صدرمملکت دیے اورجن کے دور میں سری لنکانے کامیابی سے ترقی کی منازل طے کیں۔ وہ خاندان آج بھی ایک محترم اور معتبر سیاسی خاندان کے طور پرجانا پہچاناجاتاہے۔ اِس کے علاوہ انگلینڈ اور امریکا میں بھی سیاستدانوں کی اولادیں ہی اُن کی سیاسی وارث بنتی رہی ہیں، یہ کوئی ایسی معیوب بات نہیں ہے۔

ہمارے یہاں نجانے کیوں اِسے برا اورمعیوب سمجھاجاتا ہے۔ مخالفوں کے پاس جب کوئی توجیح یا مضبو ط دلیل نہیں ہوتی تووہ اِسے ایشو بناکر اعتراضات کرنے لگتے ہیں۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا سیاست سے تعلق ہے تووہ پاکستان کی سیاست میں اتفاقاً ہی وارد ہوئے تھے اوراُن سے پہلے اُن کے والد نے کبھی اِس میدان میں قسمت آزمائی نہیں کی۔ اورنہ وہ پیدائشی طور پرکوئی سیاستداں تھے۔ مگر میاں نوازشریف اوراُن کے بھائی میاں شہباز شریف کو سیاست میں شامل جنرل جیلانی اور جنرل ضیاء الحق نے کروایاتھا۔ وہ 1982ء میں پنجاب کی کابینہ میں شامل ہوئے اورپھرخالصتاً اپنی کارکردگی کی بنیاد پرسیاست میں آگے نکلتے گئے۔

وہ اِس ملک کے تین بار وزیراعظم بنے تو اِ س میں بھی کسی کی سفارش کاعمل دخل ہرگز نہیں تھا۔ عوام انھیں اپناوزیراعظم دیکھناچاہتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) اگر آج بھی مقبول ومعروف ہے تو صرف اورصرف میاں نوازشریف کی وجہ سے۔ اُن کے بناء مسلم لیگ نواز کا تصور بھی ناممکن ہے۔ یہی حال پاکستان کی دوسری سیاسی پارٹیوں کا بھی ہے، اگرپیپلز پارٹی سے بھٹو فیملی کونکال دیاجائے تو ساری پیپلزپارٹی تتر بتر ہوجائے گی۔ خود پاکستان تحریک انصاف بھی خان صاحب کے بغیر کچھ نہیں۔

یہ اور بات ہے کہ خان صاحب کی اولادیں پاکستان میں رہناہی پسند نہیں کرتیں۔ ورنہ کوئی بعید از قیاس نہ تھاکہ وہ بھی سیاست میں آج حصہ لے رہے ہوتے۔ سیاست میں اُن کی غیرموجودگی کا عمران خان کی موروثی مخالف سیاست یا نظریہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اپنی مرضی سے پاکستان سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ اِس لیے اِس میں خان صاحب کی کوئی سوچ یا نظریہ کاکوئی عمل دخل نہیں ہے۔ شخصیت پرستی کاعنصر تو ہمیں پی ٹی آئی میں سب سے زیادہ ملتا ہے۔ خان صاحب کے چاہنے والے صرف اُن کی پرسنلٹی سے متاثر ہیں۔ وہ آج اگر برسراقتدار ہیں تو اِس میں بھی یہی فیکٹر نمایاں ہے۔ وہ کارکردگی کے معاملے میں تو پیچھے دکھائی دیتے ہیں۔

میاں نواز شریف اپنی اولاد کوسیاست میں لانا ہرگز نہیں چاہتے تھے بلکہ اِس کے خلاف تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اُن کے دونوں بیٹے اِس معاملے سے پرے اورنابلد ہی رہے۔ اُن کی بیٹی بھی سیاست میں اُس وقت وارد ہوئیں جب اُس کے والد کو زبردستی اقتدارسے معزول کرکے مقدمات میں الجھا دیا گیا۔ ورنہ وہ بھی اِس سے پہلے اپنے گھر اور خاندان میں امور خانہ داری نبھارہی تھیں۔ اِس لیے یہ کہنا کہ وہ موروثی سیاست کا حصہ ہیں قطعاً درست اور مناسب دکھائی نہیں دیتا۔

میاں صاحب نے کبھی سوچابھی نہیں تھا کہ اُن کی بیٹی بھی اُن کے شانہ بشانہ قید خانوں میں روز و شب گذارے گی اورنہ اُن کی تربیت اِس انداز سے کی گئی تھی کہ وہ کبھی اُن کی جگہ لے سکے۔ لیکن وہ آج عوام کی آس و اُمید بن چکی ہیں۔ پارٹی کے کسی اور رہنما کے جلسوں اورجلوسوں میں یاریلیوں میں اتنے افراد دکھائی نہیں دیتے جتنے مریم نوازکی ریلیوں میں نظر آتے ہیں۔ یہ اُن کی کرشماتی شخصیت کامظہر ہے کہ عوام کی بھاری تعداد انھیں میاں نواز شریف کے بعد اپنا لیڈر ماننے لگی ہے۔

مریم اگراپنے مخالفوں کی تنقید کے بعد اپنے آپ کو پیچھے ہٹا لیتی ہے اورپارٹی میں سے کسی اورکو قیادت کے فرائض نبھانے کے لیے آگے کردیتی ہے تو اِس سے نہ صرف عوام میں مایوسی پھیلے گی اور پارٹی کے شیرازہ بھی بکھرجانے کاسو فیصد اندیشہ ہے۔ یہی حال پاکستان پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔ زرداری صاحب نے بڑی ذہانت سے محترمہ کی شہادت کے بعد پارٹی کو ختم ہونے سے بچالیاتھا۔ اوراب انھوں نے بلاول کی مکمل سیاسی تربیت کرکے انھیں اِس قابل بنادیا ہے کہ وہ پارٹی کو لے کر آگے چل سکیں۔

اب مخالفوں میں کوئی بھی طعنہ دینے والا باقی نہیں رہا کہ جو یہ کہہ سکے کہ پارٹی میں قابل سینیئر لوگ بھی ہیں جنھیں اِس کم عمر اورکم عقل لڑکے کو اپنا لیڈر نہیں ماننا چاہیے۔ سیاست میں عوام کی مرضی چلا کرتی ہے۔ کوئی لاکھ جتن کرلے جب تک وہ عوام کی نظروں میں محترم اورعزیز نہیں ہوگاپارٹی کی قیادت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔