ملک وقوم کی بڑی بدقسمتی ہے کہ منافرت اور عدم برداشت جیسے مہلک امراض کے جراثیم اب ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں میں بھی سرایت کر چکے ہیں۔ پہلے یہ سب کچھ جاہل اور ان پڑھ لوگوں میں دیکھا جاتا تھا مگر 2014ء کے دھرنے کے بعد یہ ہمارے با شعور اور مہذب سمجھے جانے والے لوگوں اور نوجوانوں میں بھی تیزی کے ساتھ پھیل گیا ہے۔
خان صاحب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے ہماری نوجوان نسل کو ایک شعور دیا اور یہ اُن کا ہی کارنامہ ہے کہ جو لوگ الیکشن اور انتخابات والے دن گھروں میں سو کر گزارا کرتے تھے اب پولنگ اسٹیشنوں پر نظر آنے لگے ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست اور صحیح ہے لیکن ساتھ ساتھ انھوں نے اِس نوجوان نسل کو عدم برداشت کی اک ایسی راہ پر ڈال دیا ہے جس سے مضر اثرات سے اب کوئی بھی محفوظ نہیں ہے۔
چھوٹی چھوٹی اور معمولی بات پر لڑنے مرنے اور ایک دوسرے کی تضحیک اور بے عزتی کرنے میں بھی کسی کو کوئی عار اور شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اِس دور سے پہلے بھی ہمارے یہاں سیاست ہوا کرتی تھی لیکن ہتک عزت اور عدم برداشت کے ایسے رویے پہلے کبھی نہیں دیکھے جاتے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے سخت مخالف رہے ہیں لیکن وہ صرف پارلیمنٹ اور سیاسی جلسوں تک ہی مخالفت کرتے رہے۔ علاقوں، محلوں اور گھروں میں نفرت کے یہ بیج ہرگز نہیں بوئے گئے۔ سیاست کو سیاست تک ہی محدود رکھا گیا۔
لوگوں میں باہم عزت و احترام کا رشتہ بہرحال قائم رہا۔ لیکن پی ٹی آئی کے متحرک ہونے کے بعد یہ عزت و احترام جاتا رہا اور اب ہر گھر اور محلے میں لوگ ایک دوسرے کو برداشت کرنے پرتیار نہیں ہیں۔ نفرت اور اشتعال کے اِس پھیلاؤ میں ہمارے الیکٹرانک میڈیا اور خاص کر سوشل میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
ڈاکٹروں اور وکیلوں کے درمیان ہونے والے حالیہ معرکہ کو بھی دیکھیں تو ہمیں اِس میں سوشل میڈیا کابہت بڑا ہاتھ نظر آتا ہے۔ ڈاکٹروں کی جس ویڈیو کولے کر یہ سب کچھ کیا گیا دیکھا جائے تووہ ہمارے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو ہی تھی۔ وہ ویڈیو اگر وائرل نہ ہوتی تو شاید یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوتا ہی نہیں۔ اور تو اور اِس اندوہناک واقعہ کے بعد بھی ایک دوسرے کو لعن و طعن کرنے کا سلسلہ روکا نہیں گیا بلکہ اِس میں معزز عدلیہ اور ججوں کو بھی ہدف تنقید بنایا جانے لگا۔ عنقریب ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس کو بھی بخشا نہیں جا رہا اور اُن سے منسوب ایسی ایسی پوسٹیں لگائی جا رہی ہیں جنھیں دیکھ کر اصلاح احوال کی تمام اُمیدیں اب خاکستر ہونے لگی ہیں۔ انکساری اور وضع داری سے یکسر عاری ہمارے لوگ اب ایک ایسا ہجوم بنتے جا رہے ہیں جس کے ہاتھوں کسی کی بھی عزت محفوظ نہیں ہے۔
بات بات پر مخالفوں کو ذلیل و رسوا کرنا اور معزز اور محترم افراد کو بے عزت وبے آبرو کرنا قومی مشغلہ بن کررہ گیاہے۔ قابل افسوس بات یہ ہے کہ جو اِس کام میں سب سے زیادہ ہنر مند اور ماہر ہو وہی سیاسی طور پر باشعور سمجھاجانے لگا ہے۔ جو جتنا بد زبان اور بدکلام ہو وہی سیاسی پارٹیوں میں بھی قابل تعریف و تحسین سمجھا جانے لگا ہے۔ خود خان صاحب کو بھی ایسے لوگ بہت عزیز ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کی کابینہ میں ایسے لوگوں کو ہی تعریفی کلمات سے نوازا جاتا ہے اور اُن کی پیٹھ تھپ تھپائی جاتی ہے۔
ہمارا اجتماعی شعور تشدد اور عدم برداشت سے عبارت ہو چکا ہے۔ قومی افق پر مایوسی، اداسی، خوف اور بے چینی کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایک طرف مہنگائی اور غربت سے لوگ پریشان ہیں تو دوسری جانب دہشتگردی، ظلم و بربریت اور ناانصافی کا سیلاب ہمیں غرق کیے جا رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے ہم نے ذہنی اور فکری ارتقاء کے سفر کا آغاز کیا ہی نہیں بلکہ زمانہ قدیم کی کسی پسماندہ قوم کی مانند ماضی سے چمٹے رہنے اور عہد رفتہ کو گلے سے لگائے رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ ہم احساس زیاں سے بے نیاز ہو کر اجتماعی خود سوزی اور خود کشی میں مصروف ہیں۔ ہمارے اِنہی رویوں نے اِس معاشرے کو ایک ایسا جامد، ساکت اور بنجر معاشرہ بنا کر رکھ دیا ہے جہاں انسانی قدروں کی توڑ پھوڑ مسلسل جاری ہے۔
جہاں جھوٹ، فریب، ضمیر فروشی اور بے ایمانی قومی امتیازات اور اعزازات کا روپ اختیار کر چکی ہیں اور جہاں صبر و تحمل اور رواداری جیسی انسانی قدریں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ ہماری رگوں میں نفرت، تعصب، اشتعال انگیزی اور انتقام کا زہر پوری طرح سرایت کر چکا ہے۔ فکری بالیدگی، احساس مروت اور انسان دوستی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
سیاسی زندگی میں اخلاقی کردار کی پامالی، ملک دشمن رجحانات پر مجرمانہ چشم پوشی، اصول پسندی کی جگہ مصلحت کوشی اور مصالحت کی روش نے ہمارے معاشرہ کو بیمار بنا کے رکھ دیا ہے۔ انسانوں میں نفرت اور اشتعال کے بیج بونے والے اِس حقیقت سے ناآشنا ہیں کہ تعصب کے فضاؤں تک بلند ریلے بینائی سے محروم ہوا کرتے ہیں۔
دوسروں کے گھروں میں آگ لگانے والے اور نفرت کی آندھیوں کا استقبال کرنے والے اِس سچائی سے بے خبر اور بے بہرہ ہیں کہ جب آندھی آتی ہے تو چراغوں سے اُن کا تعارف پوچھا نہیں کرتی۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات اور وفاقی ریلوے منسٹر کے ساتھ حالیہ دنوں میں جو بدتمیزی کی گئی اُس کی حمایت ہرگز نہیں کی جا سکتی لیکن اِن وزراء کو بھی سوچنا ہو گا کہ صرف اُن کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا ہے۔ بات بات پر دوسروں کی بے عزتی کرنا اور ہتک عزت کرنا کچھ لوگوں کے لیے تو باعث تمانیت ہو سکتا ہے لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ حالات ہمیشہ یکسر نہیں رہتے۔ وقت بدلتے ہی وہ خود بھی ایسی حرکتوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔
جس جلاو، گھیراؤ، مارنے اور مرجانے کی ترغیب شیخ رشید دھرنے والے دنوں میں قوم کو دیا کرتے تھے آج خود اُن کی حکومت کو ایسے ہی حالات کا سامنا ہے۔ یہ قانون قدرت اور مکافات عمل ہے۔ وہ زمانے لد گئے جب خدا کے یہاں دیر ہوا کرتی تھی اندھیر نہیں۔ مگر اب نہ دیر ہے اور نہ اندھیر ہے۔ لوگ چند سال میں ایسے اعمال کا اپنی آنکھوں سے ری پلے دیکھ لیا کرتے ہیں۔
وقت بہت بڑا ظالم ہے۔ فرعونیت کے دور اب لمبے نہیں ہوا کرتے۔ ڈیل اور ڈھیل نہ دینے کے زمانے بھی اب ختم ہو چکے۔ بڑے بڑے دعوے کرنے والے چند مہینوں میں یو ٹرن لیتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اپنے فیصلوں پر خفت اور ہزیمت مٹانے کے لیے اب اپنے میڈیکل بورڈ کی رپورٹوں پر ہی تنقید کرنے لگے ہیں۔
سات ارب روپے کے بانڈ کی شرط عائد کرنے والے 40 ارب روپے واپس آ جانے پر جشن بھی منا نہیں پا رہے۔ زبانوں کی ایسی کند لگی ہے کہ ایک لفظ بھی ابھی تک بول نہیں پائے۔ کم ازکم شہزاد اکبر کی تعریف میں تو کچھ ارشاد فرما دیتے۔ کمزور اور طاقتور کے لیے علیحدہ قانون کا طعنہ دینے والے نجانے آج کس نامعلوم طاقتورکے حق میں نہ صرف از خود مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں بلکہ اپنے وزراء کو بھی اِس پر لب کشائی سے منع کیے ہوئے ہیں۔ ہم تو بس یہی سوچ کرچپ ہیں کہ کیا ایسا ہوتا ہے ہمارا لیڈر جس کے بارے میں کہاجاتا تھا کہ "نہ ڈرے گا، نہ جھکے گا، ڈٹا رہے گا ہمارا لیڈر۔"