Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Peoples Party Aur N League, Daimi Hareef

Peoples Party Aur N League, Daimi Hareef

ایک زمانہ تھا جب پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی ایک دوسرے کے بڑے حریف سمجھے جاتے تھے۔ 1970کے انتخابات میں تو ملک کے مغربی حصے میں اِن ہی دوجماعتوں کے درمیان اصل اور سخت مقابلہ تھا۔ گو کہ جماعت کو اُس الیکشن میں شکست کاسامناکرنا پڑا لیکن ووٹوں کی تعداد کے اعتبار سے وہ دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر کامیاب ہوکرسامنے آئی۔ جمہوری اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی یہ ایک ہی ایسی واحد سیاسی جماعت ہے جس میں اقرباء پروری اور موروثی سیاست کی کوئی جگہ نہیں ہے۔

وہاں امیر کاانتخاب ممبروں کے صاف شفاف ووٹوں سے کیا جاتا ہے۔ پیپلزپارٹی اور جماعت کا ایک دوسرے سے مقابلہ دراصل صرف نظریہ کے بنیاد پر ہواکرتا تھا۔ ایک کا تعلق مذہبی فیکٹر سے تھا تودوسرے کاتعلق سوشل ازم اور کمیونزم سے تھا۔ اُن دنوں امریکا اورسویت یونین کے درمیان سرد جنگ اپنے عروج پر تھی اور کمیونزم کااثریورپی ممالک تک بڑھ چکاتھا۔

اِسی سرد جنگ کے تناظرمیں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹونے اپنی پارٹی کی بنیاد کمیونزم کے اُصولوں پرمرتب کی اورشایداِسی وجہ سے جماعت اسلامی اُن کی سب سے بڑی حریف بن گئی، کیونکہ جماعت اسلامی سوشلسٹ اور کمیونزم کی سخت مخالف تھی اور اسلامی نظریہ کی زبردست حامی تھی۔ بھٹو صاحب کے اپنی شخصیت اور پرسنلٹی اتنی جاذب نظر تھی کہ سوشلسٹ نظریہ سے کوئی دلچسپی نہ رکھنے والے بھی اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور یوں 1970کے الیکشن میں جماعت اسلامی کو سیٹوں کے اعتبار سے شکست کاسامنا کرنا پڑا۔

وہ دن ہے اور آج کادن جماعت ویسے تو تقریباًہر الیکشن میں بھر پورشرکت کرتی رہی ہے لیکن کامیابی کاریشو ایسا ہی رہتاہے۔ ووٹ تووہ اچھے خاصے حاصل کرلیتی ہے لیکن جمہوری طریقہ کار کے مطابق وہ پارلیمنٹ کی نشستیں لینے میں کوئی زیادہ کامیاب نہیں ہوتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ ہمارے ملک میں متناسب نمایندگی کے تحت ہونے والے انتخابات کی زبردست حامی تصور کی جاتی ہے۔

جنرل ضیاء کو جماعت اسلامی کی متبادل کے طور پرپھرمسلم لیگ نے سہارادیا اور 1985کے غیر جمہوری انتخابات میں اُسی کے نمایندے کامیاب ہوکر محمد خان جونیجوکی حکومت کاحصہ بنے۔ یہ وہ دور تھا جب محمد نوازشریف نے پنجاب کے فنانس منسٹر کے حیثیت سے ملکی سیاست میں اپنی جگہ بنانی شروع کی اور بہت جلد کامیاب ہوکر اُس صوبے کے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے۔

وہ اپنی اہلیت اور صلاحیتوں کی بنیاد پر آگے بڑھتے گئے اور جنرل ضیاء کے جانشین کے طور پر سمجھے جانے لگے۔ حالیہ دنوں میں جب عوام موجودہ حکومت کی کارکردگی سے بددل اورنالاں ہوتے جارہے ہیں تواِن دونوں جماعتوں کے درمیان اتحاد ایک فطری ردعمل ہے۔ وہ اکیلے کسی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کارسک نہیں لے سکتے تھے لہٰذامجبوراً اور بادل نخواستہ انھیں ایک پلیٹ فارم پرجمع ہونا ہی پڑگیا۔ پیپلزپارٹی میاں نواز شریف کی پالیسیوں سے ہمیشہ اختلاف کرتی رہی ہے اور کرتی رہے گی۔

اِسی طرح مسلم لیگ نون بھی کبھی پیپلزپارٹی کے ساتھ آنکھیں بندکرکے چل نہیں سکتی۔ دونوں کے درمیان اعتماد کازبردست فقدان ہے۔ ایک زمانہ تھاجب پیپلزپارٹی کے سابق چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے خلاف ہونے والی احتسابی کارروائیوں پر اِس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو للکاراتھااور اینٹ سے اینٹ بجادینے کی بات کی تھی تواُس وقت کے وزیراعظم محمد نوازشریف نے اُن کاساتھ دینے اور ایک طے شدہ ملاقات سے بھی اچانک انکارکردیاتھا۔ آصف علی زرداری یہ غم آج تک بھلا نہیں پائے ہیں۔

نوازشریف دورمیں بلوچستان کی نون لیگی حکومت کے خلاف اچانک عدم اعتماد کی تحریک لانے میں بھی اُن کاکردار کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اِسی طرح سینیٹ کے چیئرمین کے انتخابات کے موقعہ پر بھی انھوں نے مسلم لیگ نون کاساتھ دینے کے بجائے تحریک انصاف کاساتھ نبھانے کو ترجیح دی۔ حالانکہ میاں نوازشریف نے پیپلزپارٹی کے سابقہ چیئرمین رضاربانی ہی کودوبارہ چیئرمین بنانے کی پیشکش بھی کردی تھی۔ اُن کی اِس ناراضی کے ثبوت ہمیں موجودہ پنجاب اسمبلی میں بھی دکھائی دیے اور وہاں بھی وزیراعلیٰ کے انتخاب میں انھوں نے مسلم لیگ نون کاساتھ دینے سے اجتناب برتا۔ اب بظاہر دونوں کی مجبوریاں ایک دوسرے کو قریب تو لے آئی ہے لیکن اندرونی چپقلش ابھی تک باقی ہے۔ جب جب موقعہ ملتا ہے وہ اپنا مفاد اور فائدہ دیکھتے ہوئے ایک دوسرے سے کنارہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

آج میاں صاحب اپنا بیانیہ طشت ازبام کررہے ہیں توپیپلزپارٹی اُن کے ساتھ چلنے کوتیار نہیں ہے، وہ شاید اسٹیبلشمٹ کی نظروں میں خود کواُن کے مقابلے میں زیادہ معتبر اورقابل قبول بنانے کی کوششوں میں سرگرداں ہے۔ بلاول زرداری کاحالیہ بیان بھی اُن کی ایسی ہی سوچ کامظہر ہے۔ ویسے بھی آیندہ ہونے والے الیکشن میں بھی پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں پاکستان پیپلزپارٹی کااصل مقابلہ تو مسلم لیگ نون ہی سے متوقع ہے اور15نومبر کوہونے والے گلگت بلتستان میں بھی یہ دونوں ہی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کے مقابل کھڑی ہیں۔ لہٰذااُن کا پاکستان ڈیموکریٹک موؤمنٹ میں ایک ساتھ نظر آنااِس بات کی غمازی ہرگز نہیں کرتاکہ وہ اپنے پرانے اختلافات بھول کر ایک جاں اور ایک قالب ہوگئے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کے ہمیشہ سے مخالف اور حریف رہے ہیں اورآیندہ بھی رہیں گے۔