سبز باغ اِس قوم کو ویسے تو سارے سیاسی رہنماؤں نے ہی دکھائے ہیں لیکن جتنے بڑے بڑے سبز اورشاداب باغ اب اِس بھولی بھالی عوام کو دکھائے گئے ہیں وہ شاید ہی کسی اور نے دکھائے ہوں۔ پچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں سمیت 350چھوٹے ڈیم کے وعدے اور دعوے اتنے حسین اور ناقابل یقین تھے کہ شاید خود اُنہیں اختراع کرنے والوں کو بھی اِس پرعملدرآمد کا یقین نہ تھا۔ لیکن کیاکریں جوش اور جذبات کی لہر میں ایسے دعوے سیاستدانوں کا معمول ہیں۔
پی ٹی آئی قیادت کو اول تو یہ یقین ہی نہیں تھا کہ وہ کبھی اِس طرح برسراقتدار آبھی سکتے ہیں یا پھر ہوسکتا ہے کہ اس نے پاکستان کے معاشی حالات کا صحیح طریقے سے مشاہدہ ہی نہیں کیا تھا۔ نوے دنوں میں قوم کی تقدیر بدلنے کاجو پلان ترتیب دیا گیا تھاوہ ڈھائی سال گذرنے کے بعد بھی مکمل تو کیاہوتاابھی تک ابتدائی مراحل ہی سے گذر رہا ہے۔ ہم اس بات سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ دھرنے والے دنوں میں ببانگ دہل کہا جاتا تھا کہ دوسرے ملکوں سے قرضے اور امداد نہیں مانگیں گے۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملز کے بارے میں بھی اُن کے اور اُنکے رفقاء کاخیال تھاکہ وہ اُنہیں فعال اور کارآمد بناکر منافع بخش اداروں میں تبدیل کرلیں گے، لیکن پھر کیاہوا۔ اداروں کو فعال اور منافع بخش بنانے کی بجائے اب اُن سب اداروں سے نجی کاری کے نام پر جان چھڑائی جارہی ہے۔
یہی کام جب میاں نوازشریف کرنے جارہے تھے تو پی ٹی آئی قیادت ہی نے اُس کی سخت مخالفت کی تھی۔ اسد عمر اسٹیل ملزکے ملازمین سے کہاکرتے تھے کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت کبھی برسراقتدار آئی اوراُس نے ملازمین کو نکالناچاہاتو سب سے پہلے خود اسد عمر پی ٹی آئی چھوڑ کرملازمین کے حقوق کی جنگ لڑے گا۔ وہ اب کہاں ہیں۔ وہ ملازمین کے حقوق کی جنگ کیوں نہیں لڑ رہے۔
ایسے بہت سے دلفریب وعدے عوام سے کیے گئے تھے، مگر اُن میں سے کوئی ایک وعدہ بھی اب تک وفانہیں ہوا۔ اُلٹاعوام پر مصائب اورمسائل کے مزید انبار لگادیے گئے۔ خیبر پختون خوا میں اپنے پچھلے دور میں پی ٹی آئی نے 350 پچاس چھوٹے ڈیم بنانے کاجو منصوبہ پیش کیاتھاوہ 7سال گذرجانے کے بعد بھی پورانہ ہوسکا۔ 350 توکیادس ڈیم بھی وہ نہیں بناسکے۔
حیرانی اِس بات پر نہیں ہے کہ وہ 350 پچاس ڈیم بنانہیں سکے بلکہ حیرانی اِس بات پر ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں ڈیم بنانے کادعویٰ کرنے والوں کو دعویٰ کرنے سے پہلے کیااپنی حیثیت اور صلاحیت کااندازہ نہیں تھا۔ یہی بات بلین ٹری منصوبے میں بھی دیکھی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کو اپنے وژن اور اُسکے تحت نئے نئے منصوبوں کے اعلان پر بہت فخر اورنازہے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ دنیااُن کے وژن کے بہت بڑی قدرداں اور معترف ہے، وہ چاہے اُن کاکوروناوباکے خلاف اسمارٹ لاک ڈاؤن کامنصوبہ ہویاپھر 10 بلین ٹری کا منصوبہ۔ مائیکروسوفٹ کے مالک بل گیٹس کے تعریفی کلمات کو وہ اپنے لیے سرمایہ حیات سمجھتے ہیں۔ مرغی انڈوں کے سنہری منصوبے کی حمایت میں بھی وہ بل گیٹس کے کسی پرانے تجزیئے ہی کاسہارا لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
خواہ وہ منصوبہ ڈھائی سال گزرجانے کے باوجود ابھی تک روبہ عمل نہ ہوپایاہو۔ ایک کروڑ نوکریاں دینے کاوعدہ کیاپوراکرنا تھا اُلٹاایک کروڑ نوجوان ضرور بے روزگار کردیے گئے۔ کوروناکی آفت اپنی جگہ لیکن نج کاری کے نام پر نجانے کتنے ملازمین کو اب بے روزگار کیاجارہا ہے۔ باہر کی دنیاکے لوگ ہمارے یہاں نوکریاں کرنے آنے والے تھے اور بقول فیصل واؤڈا اگلے چند ہفتوں میں اتنی نوکریاں ہونگی کہ اپنے لوگ کم پڑجائیں گے۔ ٹھیلے اور پتھارے والے ٹیکس دے رہے ہوں گے۔ اِس بات کو بھی تقریباً ڈیڑھ برس بیت چکے ہیں۔
دس ارب درخت لگانے کے دعوے کو ہمارے عوام تو خاموشی سے اب تک برداشت کررہے تھے اوروہ اِسے اندازتکلم اور جذبات کی رو میں بہک کر تقریر کرنے کاہی حصہ سمجھ کردرگزر کررہے تھے۔ لیکن ہماری عدالت عظمیٰ نے اِس کاحساب کتاب مانگ لیا ہے۔ یکم دسمبر 2020ء کو سپریم کورٹ نے اِس منصوبے کانوٹس لیا۔ حکومت کی طرف سے عدالت کو بتایاگیاکہ گزشتہ دو برس میں 430 ملین درخت لگائے جاچکے ہیں، جس کی باقاعدہ سیٹیلائٹ مانیٹرنگ بھی کی جارہی ہے۔ مزید استفسار پر بتایاگیاکہ اِس منصوبے میں آدھے پیسے وفاقی حکومت نے فراہم کرنے ہیں اورآدھے صوبائی حکومتوں نے۔ چیف جسٹس صاحب نے فرمایاکہ دس ارب درخت لگناناممکن ہے۔ اتنے درخت لگ جائیں تو ملک کی قسمت ہی بدل جائے۔ کاغذوں میں آدھا پاکستان جنگل ہے، KPK کا محکمہ ماحولیات چور ہے، اسلام آباد انتظامیہ نااہل ہے۔
لگتاہے سار ے درخت بنی گالہ میں لگے ہوئے ہیں۔ جس پر وفاقی سیکریٹری نے ارشاد فرمایادس ارب درخت کے منصوبے پر عمل صوبائی حکومتوں کو کرناہے۔ گویاکریڈٹ تو وفاق لے لیکن عمل وہ کرے جو وفاق کی سنتے ہی نہیں۔ چیف جسٹس نے بھی یہی فرمایاکہ صوبے وفاق کی سنتے کب ہیں۔ سندھ حکومت کاجوحال ہے، اُس کاذکر بھی کارروائی کے دوران آیا۔ اُنہوں نے مزید فرمایاکہ سندھ حکومت کے مالی حالات سمجھ سے بالاتر ہیں۔ اِس کے مالی معاملات توکچھ اور ہی طرح سے چلتے ہیں۔ انھیں جتنا فنڈدیاجائے لگتاکچھ نہیں۔
درخت کیسے لگیں گے۔ بلوچستان میں ایک درخت بھی دکھائی نہیں دیتا۔ پھر اتنے سارے درخت کہاں لگائے جارہے ہیں۔ اسلام آباد پشاور موٹر وے پر کوئی نیادرخت دکھائی نہیں دیتا۔ جب کہ کلرکہار علاقے سے اُلٹا درخت کاٹے جارہے ہیں اورکوئی نوٹس لینے والانہیں۔ وہاں فوراً تعمیرات روکی جائیں۔ اب ہم مجسٹریٹ بھیج کراس منصوبے کی رپورٹس منگوائیں گے۔ عدالت نے حکام سے سیٹیلائٹ تصاویر بھی طلب کیں۔
پی ٹی آئی حکومت کایہ 10 بلین ٹری منصوبہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس کاکریڈٹ لیتے ہوئے وہ کبھی تھکتی بھی نہیں ہے۔ لیکن حقیقت حال اتنی مایوس کن ہے کہ جس کا موازنہ سندھ حکومت کے کسی بھی چھوٹے منصوبے سے کیاجاسکتا ہے۔ جس طرح سندھ میں کوئی بھی ترقیاتی کام اپنی مقررہ مدت میں پورا نہیں ہوتا اورجو صرف کاغذوں میں ہی اکثر دکھائی دیتاہے۔
اُسی طرح پی ٹی آئی حکومت کایہ منصوبہ بھی حقیقت میں کم اورکاغذوں میں زیادہ نظر آتاہے۔ اِس بے مثال اورمنفرد منصوبے کے لیے بھی اچھے خاصے فنڈ ز رکھے گئے۔ اگراُس کی مالیت اوراُس کے نتائج کا اگر صحیح طور پر آڈٹ کیاجائے تومالی بدعنوانی کایہ ایک ریکارڈ منصوبہ ثابت ہوگا۔
10ارب درخت کی تعداد کوئی معمولی تعداد نہیں ہے کہ جسے مذاق سمجھ کر رد کردیاجائے۔ اِس منصوبے پر قوم کے اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں۔ خود کو صاف شفاف حکومت کادعویٰ کرنے والی انتظامیہ کوعدالت عظمیٰ کے اِس نوٹس پر ناراض یا برہم ہرگز نہیں ہوناچاہیے بلکہ تمام ثبوت اور ریکارڈ فراہم کرکے ثابت کرنا چاہیے کہ واقعی سارے پاکستان میں اتنے سارے درخت لگے ہیں۔ چیف جسٹس کی یہ بات یقینا وزن رکھتی ہے کہ اگر واقعی اتنے سارے درخت ہمارے پاکستان میں لگ چکے ہوں تو ملک کی قسمت بدل جانی چاہیے۔ یہ کوئی مرغی انڈوں کامعاملہ نہیں ہے جسے درگزر کردیاجائے۔ اِس پر پاکستانی قوم کابے تحاشہ سرمایاخرچ کیاگیاہے۔