قرض لینا کبھی ہماری مجبوری ہوا کرتی تھی لیکن اب ایک عادت اور خصلت بن چکی ہے۔ کوئی بھی حکومت ہو برسر اقتدار آنے کے بعد اس کا پہلا بیانیہ یہی ہوا کرتا ہے کہ پچھلی حکومت سارا خزانہ خالی چھوڑ گئی ہے اور ہمارے لیے قرض مانگنے کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔
موجودہ حکومت نے تو اس معاملے میں پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے، حکمران جماعت قرض کو زبانی و کلامی طور پر جتنا برا سمجھا کرتی تھی عملی طور پر ایسا نہیں ہوا۔ شروع شروع میں تو قوم نے سمجھا کہ واقعی بہت مجبوری ہوگی اور حکمران جو قرض کو انتہائی برا اور ناگوار سمجھا کرتے تھے بلکہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ وہ کسی سے قرض نہیں مانگیں گے، کبھی اپنا عہد نہ توڑتے۔
2018 کے انتخابات کے بعد جب ہماری یہ حکومت برسر اقتدار آئی تو خزانے کے خالی ہونے کا گلہ سابقہ حکومتوں کی طرح اس نے بھی شروع کردیا، حالانکہ الیکشن سے پہلے ایک عبوری حکومت بھی قائم کی گئی تھی لیکن اس حکومت نے کبھی ایسا تاثر ظاہر نہیں کیا کہ ایک دن کا بھی گذارا ناممکن ہے۔
وہ جب انتخابات کروا کے واپس گئی تو اُس وقت بھی قومی خزانے میں 18ارب ڈالرز سے زائد فارن ایکسچینج موجود تھا۔ جولائی 2018 میں ملک پر غیر ملکی قرضوں کا انبار تقریباً 25 یا 26 ارب ڈالرکے قریب تھا۔ حکومت نے کہا کہ ملک قرضوں میں ڈوب چکا ہے اور ہمیں قرض کی رقم بمع سود ادا کرنے کے لیے طوعاً و کرہاً دوست ممالک سے امداد مانگنی پڑے گی۔
حکمران قیادت نے ہمت کرکے قرض لینے کا فریضہ نبھایا اور سعودی عرب اور یو اے ای سے امداد لی۔ عوام کو یہ نوید سنائی گئی کہ الحمد للہ ہم قرض حاصل کرنے کے ایک بہت بڑے مشن میں کامیاب و سرخرو ہوئے ہیں، مگر یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رک گیا بلکہ ہم چائنا کے ساتھ ساتھ IMF سے بھی قرض لینے کے طریقے ڈھونڈنے لگے۔
اس مقصد کے لیے وزیر خزانہ اسد عمر کی بھی قربانی دینا پڑی اور باہر سے امپورٹ کرکے حفیظ شیخ کو اس اہم عہدے پر براجمان کروانا پڑا۔ ساتھ ہی ساتھ اسٹیٹ بینک کے گورنر کے عہدے کے لیے بھی IMF کے ایک نمایندے کو بھی نامزد کرنا پڑا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہمیں ابھی تک معاشی طور پر سکھ چین کا ایک سانس بھی نصیب نہیں ہوا۔ ہر تھوڑے دنوں بعدIMF کے معاہدے کے مطابق قرض کی قسط حاصل کرنے کے لیے گفت و شنید کرنا پڑتی ہے اور جواب میں عوام پر بے تحاشہ مہنگائی کے بم بھی گرانے پڑتے ہیں۔ پچھلے قرض اتارنے کے لیے نئے قرض لینا پڑتے ہیں اور اُن کے بارے میں عوام کو بتانے سے بھی گریز کرنا پڑتا ہے۔
اپنے روپے کو مزید بے توقیر اور بے عزت بھی کرنا پڑتا ہے اور گھر کی چیزیں بھی گروی رکھنا پڑتی ہیں، وہ موٹر ویز جو بنتے وقت تحریک انصاف کی قیادت کی زبردست تنقید کا شکار رہی آج گروی رکھ کر قرض حاصل کرنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ گھر کے مالی معاملات ہیں کہ سدھر ہی نہیں پا رہے۔ پی آئی اے اور اسٹیل ملز ایسے سفید ہاتھی ہیں جو منافع تو درکنا مسلسل خسارے کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
ہر چند ماہ بعد انھیں بیچنے کی باتیں تو ضرورکی جاتی ہیں لیکن کوئی خریدار نہ ملنے کی صورت میں جوں کا توں رکھنے پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے، یہ حلق کا وہ کانٹا ہے جو نہ نکالا جاتا ہے اورنہ نگلاجاتا ہے۔
وزیراعظم صاحب ابھی چند روز پہلے سعودی عرب کے دورے پر تشریف لے گئے اور واپسی پر پھر ایک نیا پیکیج لے آئے۔ کہا گیا کہ ریاض میں وہ انویسٹمنٹ فورم کے اجلاس میں شرکت کرنے جارہے ہیں لیکن اجلاس سے پہلے ہی وہ چار ارب ڈالرز کی امداد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے، وہ ملک جو ابھی چند ماہ پہلے ہم سے اپنے پرانے قرض کے پیسوں کی واپسی کا تقاضا کررہا تھا، یہ اچانک پھر کیسے تین چار ارب ڈالر دینے پر راضی ہوگیا۔
وزیراعظم جانے سے پہلے قوم کو باور کروا رہے تھے کہ ملک ترقی کی راہ پر چل پڑا ہے اور مشکل وقت گذر چکا ہے، پھر یہ امداد اور قرض لینے کی وجہ کیا ہے۔ کیا قرض لینا ہماری عادت بن چکی ہے، یعنی جب اس کی ضرورت بھی نہ ہو لیکن ہمیں ہرچند ماہ بعد ہر کسی سے قرض لینا ضروری ہے۔ کہنے کو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں مگر ہم پھر بھی قرض لے رہے ہیں۔
ایسا لگتا ہے ہم جب بھی کسی غیر ملکی دورے پر جاتے ہیں تو ہماری پہلی ترجیح یہی ہوتی ہے کہ کس طرح اس ملک سے بھی کچھ پیسے ادھار یا مستعار کر لیے جائیں۔ تین سال سے زائد کاعرصہ بیت چکا ہے ہم قوم کو یہ خوش خبری سنا نہیں سکے ہیں کہ ہم نے اب قرض لینے کو خیر باد کہہ دیا ہے۔
قوم اب امداد اور قرضوں کے بغیر ترقی و خوشحالی کی منازل طے کریگی۔ ایک اندازے کے مطابق 2018 میں جو غیر ملکی قرضہ 26 ارب ڈالرز کے لگ بھگ تھا اب بڑھ کر صرف ان تین سالوں میں 46ارب ڈالرز تک پہنچ چکا ہے اور ہماری حالت مرزا غالب کے اس شعر کی مانند ہوچکی ہے۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن