امریکہ میں مقیم ایک "انقلابی" رہ نما جس انداز میں ٹرمپ کے نامزد کردہ ایک گشتی سفیر جناب رچرڈ گرنیل کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے مجھ بدنصیب کے پیچھے پڑگئے ہیں اس نے مجھے طیش میں مبتلا کررکھا ہے۔ میرے بے تحاشہ دوست یہ مشورہ دیتے ہیں کہ موصوف کے کلمات کو میں نظر انداز کردوں۔
"نظر اندازی" سوشل میڈیا کے غلام ہوئے دور میں لیکن ممکن ہی نہیں۔ وہ زمانہ کب کا ختم ہوچکا ہے جب ہماری مائیں ہمیں سمجھایا کرتی تھیں کہ گندے پانی میں پتھر پھینکوں گے تو اس کی چھینٹوں سے خود بھی محفوظ نہیں رہ پائو گے۔ میری نسل کی بدقسمتی کہ مائوں کی سمجھائی یہ بات ذہن میں اٹک کر رہ گئی ہے اور "زغوغائے رقیباں" کی بدولت اپنے کام پر بھرپور توجہ بھی نہ دے پائے۔
ہماری ایک سیاسی جماعت نے بھی "زغو غائے رقیباں" سے اجتناب کی روایت کا خوب فائدہ اٹھایا۔ اس کے قائد جلسوں میں کھڑے ہوکر اپنے مخالفین کو اوئے توئے پکارتے ر ہے۔ ہمارے نام نہاد "مقتدرہ" نے اس ضمن میں ان کا ڈٹ کرساتھ دیا۔ "اقتدار میں باریاں لینے والوں" کو کنٹرول کرنا تھا اور ان کے متبادل ایک "تیسری قوت" کی تلاش بھی تھی۔ بہرحال "تیسری قوت" توانا سے توانا تر ہوتی رہی۔
اپنے عروج کی جانب بڑھتے ہوئے مذکورہ جماعت نے نہایت منظم انداز میں اخبار نویسوں کو نشانہ بنایا۔ جو صحافی ان کے "بیانیے" کو ڈھول کی طرح گلے میں ڈال کر مسلسل بجانے سے انکار کرتے رہے انہیں شریف خاندان کا "لفافہ" پکارا گیا۔ اس کے علاوہ ایک بڑے کاروباری ادارے کے "سرکاری پیڈ" کے ذریعے ایک فہرست بھی سوشل میڈیا پر وائرل کروائی گئی۔ اس میں ان تمام صحافیوں کو مذکورہ ادارے سے قیمتی پلاٹ اور گرانقدر رقوم لینے کا مجرم ٹھہرایا گیا۔ میرا نام بھی اس فہرست میں شامل تھا۔
نہایت دیانتداری سے آج بھی وہ پلاٹ ڈھونڈ رہا ہوں جو میرے نام منسوب کیا گیا تھا اور پلاٹ بھی تاکہ اسے باقاعدہ وصول کرکے بیچوں اور آرام سے باقی جتنی بھی زندگی رہ گئی ہے گزاردوں۔ کس بدنصیب کو عمر کے آخری حصے میں جب دو قدم چلنا بھی دشوار محسوس ہوتا ہے اچھا لگتا ہے کہ وہ صبح اٹھتے ہی قلم تھامے اور کسی موضوع پر ہزار سے زیادہ لفظ لکھ کر روز کی روٹی روز کمائے۔ یہ دنیا مگر ظالم ہے۔ آپ پر بہتان لگے تو خوش ہوتی ہے۔ دلوں میں موجود کمینہ پن مطمئن ہوجاتا ہے جب "بااصول دانشور" مشہور ہوئے کسی شخص کی پگڑی اچھالی جائے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے چسکہ فروشی کا اصل مقصد مگر آپ کو اس امر پر قائل کرنا تھا کہ "صحافی" سچ نہیں بولتے۔ اپنی شہرت اور اقتدار کے ایوانوں تک رسائی کو ذاتی فوائد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ صحافیوں کے بارے میں ایسے الزامات اس ملک میں لگائے گئے جہاں حق گوئی کی وجہ سے سینکڑوں کارکن صحافی تقریباََ ہر دور میں بے روزگار ہوتے رہے۔ اخباروں پر سو طرح کی پابندیاں لگیں۔ مثال کے طورپر فقط 1964ء کے برس کی یاد دلائوں گا۔ اس برس "مقتدرہ" سے اٹھے ہمارے پہلے "دیدہ ور" فیلڈ مارشل ایوب خان نے خود کو "جمہوری طور" پر ملک کا صدر بنانے کی کوشش کی۔
ان کا مقابلہ کرنے کی سکت کسی سیاستدان کو نصیب نہیں ہوئی۔ ان کی کثیر تعداد وفد بناکر ہاتھ باندھے بھکاریوں کی طرح قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے گھر کراچی پہنچ گئی۔ ان سے درخواست ہوئی کہ وہ ایوب خان کا مقابلہ کریں۔ وہ رضا مند ہوگئیں تو "نوائے وقت" کے مدیر جناب مجید نظامی مرحوم ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو "مادر ملت" کا خطاب دیتے ہوئے قوم سے روشناس کروایا تو نوائے وقت پر ہزاروں مصیبتیں نازل ہوئیں۔ نظامی صاحب مگر ڈٹے رہے اور "نوائے وقت" وہ واحد اخبار تھا جس میں انتخابی مہم کے دوران ہوئے جلسوں سے مادر ملت کا خطاب حرف بہ حرف شہ سرخیوں سے چھاپا جاتا تھا۔ میں اگر "نوائے وقت" کے لئے یہ کالم نہ لکھ رہا ہوتا تب بھی اس حقیقت کو فراموش نہ کرپاتا۔
جنرل ضیاء کے اقتدار سنبھالنے کے پہلے دو سالوں کے دوران تقریباََ ہر دوسرے تیسرے مہینے عامل صحافیوں کو "آزادیٔ صحافت" کے لئے احتجاجی جلوس نکالنا پڑتے تھے۔ اس جرم کی پاداش میں چار محترم ساتھیوں کو برسرعام ٹکٹکی سے باندھ کر کوڑے لگائے گئے۔ ایسی شاندار روایت کی حامل صحافت مگر اپنی ساکھ کھو بیٹھی کیونکہ ایک مخصوص جماعت نے یہ طے کرلیا کہ ہر وہ صحافی جو ان کے بیانیے کا ڈھول نہیں پیٹتا وہ "بکائو" ہے۔ "لفافہ" ہے۔ دوسرے پر انگلیاں اٹھانے والے یہ حضرات بذاتِ خود 2011ء سے "مقتدرہ"کے ساتھ "سیم پیج" پر لڈیاں ڈالنے کو بے چین تھے۔ بالآخر 2018ء کے ا نتخابات کے دوران آر ٹی ایس کی حرکت قلب کچھ گھنٹوں کو بند ہوئی اور ہمارے ایک کرشمہ ساز وطن عزیز کے وزیر اعظم "منتخب" ہوگئے۔ اگست 2018ء سے اکتوبر2021ء کے برس تک وہ چن چن کر صحافت کو "مقتدرہ" کی معاونت سے پاک صاف کرنے کی کوششوں میں مبتلا رہے۔
ہر روز مگر روزِ عید نہیں ہوتا۔ ہر عروج کو زوال دیکھنا بھی لازمی ہے۔ اکتوبر2021ء میں "دیدہ ور" کے پشت پناہوں کو احساس ہوا کہ وہ قمر جاوید باجوہ کے اثر سے رہائی پاکر "سولو پرواز" کرنا چاہتا ہے۔ اس کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ اس کے بعد جو ہوا تاریخ ہے۔ اس تاریخ کا مگر المیہ یہ بھی ہے کہ کئی برسوں تک "ان" کے ساتھ "سیم پیج" پر لڈیاں ڈالنے والے دورِ حاضر کے "چی گویرا" نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ربّ کریم ہمارے حال پر رحم کرے۔
بہرحال زندگی یوں ہی چلتی رہے گی۔ اپنا غصہ بھلاکر مجھے نہایت عاجزی سے اپنے مسیحی بھائیوں اور بہنوں کو کرسمس کی مبارک باد دینا ہوگی۔ بہتر یہی تھا کہ میں 24دسمبر کے کالم کی بدولت یہ مبارک باد پہنچانے کی کوشش کرتا۔ لاہور کے مشن ہائی سکول کا طالب علم رہا ہوں۔ وہاں پانچویں جماعت تک ہمیں نہایت شفیق خواتین سے تعلیم ہی نہیں اچھا انسان بننے کے اصول بھی سیکھنے کو ملے۔ وہ تمام خواتین مسیحی مشنری تھیں۔ انہوں نے اپنی زندگیاں ہم جیسوں کی تعلیم وتربیت کے لئے وقف کررکھی تھیں۔ ہر کرسمس پر انہیں آنکھوں میں احسان مندانہ نمی کے ساتھ یاد کرتا ہوں۔