کہا جاتا ہے زمانہ قدیم میں قبائل اپنا پڑاؤ دریاؤں کے کنارے ڈالتے اسکی وجہ پانی جیسی بنیادی ضرورت کی باآسانی فراہمی، نیزجانوروں کے لئے چارہ کا مل جانا تھا، تپتی دھوپ میں سایہ سائبان کا کام کرتا، درختوں کی گھنی چھاؤں میں لوگ آرام کرتے، مال برداری انکی آمدن کا ذریعہ ہوتی، لکڑی کو وہ بطور ایندھن استعمال کرکے کھانا پکاتے، لکڑی سے زرعی آلات بنا کر کھیتی باڑی بھی کرتے تھے، کشتیوں کو نقل و حمل اور بار برداری، مچھلی پکڑنے اور سفرکے لئے بھی استعمال کرتے۔
جب پہیہ ایجاد ہوا تو ایک انقلاب برپا ہوا، ذرائع آمدورفت میں بھی جدت آگئی، پختہ سڑکوں کی تعمیر کا آغاز ہوا، اب وہ آبادیاں جو دریاؤں، نہروں کے کنارے ہوا کرتی تھیں انھوں نے سڑکوں کے کنارے رہنا شروع کردیا، شہروں اور قصبوں کے مابین ٹرانسپورٹ کے چلنے سے کاروباری سرگرمیاں بھی بڑھ گئیں، فاصلے سمٹ کر رہ گئے اب انکو مگر محفوظ بنانے کی فکر لاحق ہوئی۔
تاریخ دان آروی سمتھ شیر شاہ سوری کو دور اندیش بادشاہ اس لئے کہتے ہیں کہ انھوں نے کلکتہ سے پشاور تا کابل تک جرنیلی سڑک بچھائی اور مسافروں کی سہولت کے لئے اسے درختوں، کنوؤں، سراؤں کے ساتھ ساتھ پولیس چوکیوں سے آراستہ کیا، اسکی تعمیر میں پانچ سال صرف ہوئے، یہ بادشاہ کے تدبر اور انتظامی مہارت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ بعدازاں انگریزوں نے اس روڈ کا نام گرینڈ ٹرنک (جی ٹی) روڈ رکھا، اسے ملک گیر رابطہ قائم کرنے کے لئے استعمال کیا، مذکورہ شاہراہ تین ممالک پاکستان، افغانستان، ہندوستان میں منقسم ہے، شیر شاہ سوری نے ایک روڈ ملتان تا دہلی بھی بنائی تھی، اس کا مقصد بڑے تجارتی مراکز کے مابین کاروباری سرگرمیوں کو فروغ دینا اور عوام الناس کو سفری سہولیات فراہم کرنا، نیز پیغام رسانی کے لئے بھی اس کا استعمال کرنا تھا۔
دنیا بھر میں شاہرات کی تعمیر سے نئی کاروباری سرگرمیاں وجود میں آتی ہیں، منڈیوں تک رسائی آسان تر ہوتی ہے سفری سہولیات میسر آتی ہیں، فی زمانہ چین اقتصادی راہ داری کے لئے سڑکوں کا جال بچھا رہا ہے، ملتان، دہلی روڈ گزشتہ کئی سالوں سے حالت نزاع میں ہے، ایک طرف موٹرویز کا کلچر آباد اور رابطہ سڑکوں کی بحالی کے نام پر دیہی علاقہ جات میں کارپٹ ورک کیا جارہا ہے، دوسری طرف ملتان، وہاڑی المعروف دہلی ملتان روڈ کے نشانات بھی ختم ہورہے ہیں۔
قریباً چار سالوں سے اسکی خستہ حالی جاری ہے، میڈیا رپورٹس اور مختلف ہسپتالوں کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک سال میں چار ہزار سے زائد حادثات ہوئے ہیں، جن میں تین سو سے زائد مسافروں کی موت واقع ہوئی جبکہ چھ ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں، سوشل میڈیا پر اس کو "خونی سڑک" کا لقب دیا گیا ہے۔
مصروف شاہراہ ملتان وہاڑی کے مابین سات قومی اسمبلی کے حلقوں سے گزرتی ہے، چار دہائیوں سے روایتی سیاسی خاندانوں ہی کو اس خطہ میں کامیابی ملتی رہی ہے، عوام کا یہ درینہ مسئلہ مگر اِن کی آنکھوں سے اوجھل چلا آرہا ہے، ممکن ہے کہ حادثات میں مرنے والوں کے اعداد و شمار سے یہ لا علم رہے ہوں، کیونکہ ایسی کلاس کی "اکھ" عمومی طور پر اس ٹھیکیدار پر ہوتی ہے، جس کے نام قراء نکلتا ہے۔
ہمارے ہاں مذکورہ طبقہ اتنا "سعادت مند" ہے، انکی نیم رضامندی سے سڑک کی تعمیر سے قبل بھاری بھر کمیشن ان کے اکاونٹ میں ڈال کر سرخ رو ہوتا ہے روایات یہ کہ ٹھیکیدار سڑک ادھوری چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں، اس سڑک کی بابت کچھ ایسی ہی سازش کی بو آرہی ہے، کیونکہ فنڈز کے مختص ہونے اس کی تعمیر کے اعلانات سے افتتاح تک کی خبروں سے عوام کو بہلایا گیا ہے۔
یہ شاہراہ عوامی اور کاروباری اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے، یہی خطہ زرعی اجناس کے اعتبار سے شہرت رکھتا، یہاں سبزیات کی کاشت کی جاتی ہے، بہت سی تعداد میں باغات بھی موجود ہیں، گلاب کے پھولوں کا بھی یہی مسکن ہے، جہانیاں، وہاڑی، بورے والہ، میلسی کے بڑے تجارتی مراکز اسی شاہراہ پر قائم ہیں، اعلی تعلیم کے حصول کے لئے طلباء و طالبات کو دیگر شہروں میں اس کے راستہ ہجرت کرنا پڑتی ہے، ایمبولینس کو بھی اسی راہ پر نامساعد حالت میں سفر اس طرح کرنا پڑتا ہے کہ مریضوں اور ان کے لواحقین بے بسی دیکھی نہیں جاتی۔
ملتان مدینہ اولیاء کی شہرت ہی نہیں رکھتا بلکہ تاریخی شہر بھی ہے، ملتان، قصور، لاہور تا اجمیر شریف تک یہ روٹ مذہبی ٹورازم اور تاریخی، دفاعی سفرکے لئے بھی بڑا اہم ہے، اسکی کلیدی اہمیت کے پیش نظر شیر شاہ سوری نے شاہراہ کو تعمیر کیا تھا، اسکی ضرورت آج بھی مسلمہ ہے۔
سینکڑوں مسافر حادثات میں لقمہ اجل بنے ہیں، اگر یہی معاملہ کسی مہذب ریاست میں درپیش ہوتا تواب تلک ذمہ داران کٹہرے میں ہوتے، ٹرانسپورٹرز کو بھی نقصان کی ادائیگی ہوتی، کیونکہ ہمارا خمیر ہی غلامی سے اٹھا ہے، اس لئے سمجھوتہ کرنا ہماری گھُٹی میں شامل ہے، جس کا فائدہ ارباب اختیار اٹھاتے ہیں۔
مذکورہ علاقہ کی موٹر ویز تک رسائی نہ ہونے کی ایک وجہ بھی ملتان، وہاڑی روڈ کی خستہ حالی ہے، دوسرا خانیوال تا گڑھا موڑ سڑک بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ضلع وہاڑی میں گڑھا موڑ ایک بڑا تجارتی مرکز ہے، دہلی ملتان روڈ کی تعمیر کی وساطت سے ہم وزیر اعلی پنجاب سے ملتمس ہیں کہ وہ پنجاب میں شاہراہوں کے تعمیری منصوبہ میں خیر ٹامیوالی تا خانیوال براستہ میلسی، گڑھا موڑ بھی شامل کر لیں تواس علاقہ کے عوام اور کاروباری طبقہ کو خانیوال سے موٹر وے کے ذریعہ کراچی تا پشاور رسائی آسان تر ہو جائے گی۔
گذشتہ دنوں پنجاب کے ڈویژن اور اضلاع میں اضافہ کیا گیا ہے، کئی دہائیوں سے شریفین کا دم بھرنے اور اقتدار میں رہنے والی ضلع وہاڑی کے معروف شہر ٹبہ سلطان پور کی سیاسی شخصیت کی سیاسی ریاضت میں نجانے کون سی کمی تھی کہ عوامی مطالبہ کے باوجود مذکورہ شہر کو تحصیل کا درجہ نہ مل سکا، البتہ میلسی کے روایتی جاگیر دار منتخب ایم این اے کی سیاسی بصیرت کی داد دینا پڑتی ہے جنہوں نے نامساعد حالات میں وزیر اعظم سے ملاقات کے نتیجہ آشیر باد حاصل کرتے ہوئے انکے کیمپ میں شمولیت کی ہے، اگر یہ سب ڈھیل یا ڈیل کا نتیجہ تھا تو موصوف ملتان، دہلی روڈ کی تعمیر کے ساتھ میلسی کی موٹر وے تک رسائی اور نئی جامعہ، فنی تعلیمی ادارہ کے قیام کا وعدہ بھی لے لیتے تو علاقائی سیاست میں امر ہو جاتے، شائد یہ سب عوام کا مقدر نہ تھا۔
مذکورہ شاہراہ کے لئے فنڈ کے بار بار مختص اور منسوخی کے عمل نے عوام کومایوس کیا ہے، اب انکی توقعات وزیر اعلی پنجاب سے ہیں کہ وہ ملتان، وہاڑی شاہراہ کی تعمیر کے ساتھ اس خطہ کے عوام کو مجوزہ روٹ کی شاہرات کی تعمیرسے موٹر وے تک رسائی دینے کا حکم صادر فرمائیں گی جو عوام کا درینہ مطالبہ بھی ہے۔