نئے پاکستان کے عمرانی تخیل اورفلسفہ کو لے کرہمارے لوگ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ یہ پرانے پاکستان سے بالکل مختلف کوئی ایسا نیاپاکستان ہوگا جہاں وہ آرام و چین کی زندگی گزار رہے ہوں گے۔
مسائل و مصائب سے دوچار غریب عوام اِس خوش فہمی میں مبتلاہوگئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی ایسا مسیحا بھیج دیاہے جو اُن کے سارے دکھ اور غم دور کردے گا اور وہ غربت اور پریشانی کے دورسے نکل کر ایک ترقی یافتہ دور میں پرآسائش زندگی گذار رہے ہونگے۔ جس مہنگائی اور پریشانیوں کاوہ سابقہ ادوار میں سامنا کر رہے تھے وہ اب شاید باقی نہیں رہیں گی۔ جہاں زندگی کی تمام آسائشیں اور سہولتیں باآسانی دستیاب ہونگی۔
پچاس لاکھ گھروں میں سے کوئی ایک چھوٹاسا گھر اُن کابھی ہوگا، ایک کروڑ نوکریوں میں اُن کا بھی کوئی حصہ ہوگا۔ کھانے پینے کی تمام اشیاء ضرورت سستے داموں مل رہی ہونگی۔ گیس، بجلی اور پیٹرول کے نرخ ایک عام آدمی کی آمدنی اوراُسکی قوت خریدکے مطابق ہونگے۔ روزمرہ کے تمام مسائل حل ہوچکے ہوں گے۔
ساتھ ہی ساتھ ہمارا ملک بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کررہاہوگا۔ خوشحالی اور روشن مستقبل کی کرنیں مایوسیوں کے اندھیروں کو دور کررہی ہوں گی، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ یہ کہاجائے توقطعاً غلط اور بے جا نہیں ہوگا کہ اِن سارے خوابوں کی تعبیر کچھ الٹی ہی ثابت ہوئی اوروطن عزیز کے ساتھ ساتھ 22کروڑ عوام بھی مزید زوال و پستی سے دو چار ہوگئے۔ جن قرضوں کو اُتارنے کے دعوے کیے گئے وہ قرضے نجانے کتنے ادا ہوئے، مصدقہ اعدادوشمار تویہی بتا رہے ہیں کہ قوم کے ہرفرد پر واجب الادا قرض پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔
ایک زرعی ملک ہوتے ہوئے ہم اب چینی کے بعد گندم بھی امپورٹ کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں لیکن کسی کو احساس ندامت بھی نہیں ہے۔ افراط زر کی شرح ہے کہ بڑھتی جارہی ہے اور ملکی ترقی کا ریشو جی ڈی پی مثبت سے اب منفی درجوں میں جا پہنچا ہے۔
نوجوانوں کے لیے روزگار کے نئے مواقعے پیداکیاہوتے بلکہ لوگوں کا پہلے سے قائم روزگار بھی رفتہ رفتہ ختم ہوتا جارہا ہے۔ ایک خوفناک اور بھیانک صورتحال پیدا ہوتی جارہی ہے۔ وزیراعظم کے بڑے بڑے منصوبوں اور پروجیکٹس میں شیلٹر ہومزاور لنگر خانوں کا قیام اولین ترجیح کا حامل ہے۔
قوم کو مفت کی روٹی توڑنے کی طرف راغب اور مائل کیاجارہا ہے۔ یہ کام ہمارے یہاں پہلے ویلفیئر ادارے اور دیگر تنظیمیں کیاکرتی تھیں۔ مگر اب یہ وفاقی حکومت کے کرنے کا کام بنتا جارہا ہے۔ سمجھ نہیں آتا ہے کہ روشن پاکستان کی تعمیر کاداعی کن چھوٹے چھوٹے کاموں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔
بھینسوں، کٹوں، مرغیوں اور انڈوں کاویژن اگر پہلے سامنے آجاتا تو شاید ہماری قوم 2018کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے پہلے کچھ سوچ بچار کرلیتی۔ غیرمنافع بخش اِن منصوبوں میں قوم کو دو وقت کی روٹی اور رات کو سونے کے لیے ایک چھوٹا سا بستر دیکر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ اِس طرح ہمارے لوگ اب بھوکے نہیں سوئیں گے۔ کیا قومیں واقعی اِس طرح ترقی کیا کرتی ہیں۔
جن لنگر خانوں میں پہلے ہمیں کچھ حاجت مند اورواقعی ضرورت مند کھانا کھاتے دکھائی دیتے تھے وہاں اب ہمیں اچھے کٹھے صحت مند نوجوان جو محنت و مزدوری کرکے اچھا خاصہ کما سکتے تھے یوں اِس خیراتی کھانوں کو اپناجائز حق سمجھنے لگے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چھوٹے چھوٹے صنعتی منصوبے لگاکر اِن بیروزگار نوجوانوں کو کسی محنت و مزدوری پرلگایا جاتا۔ اِس طرح وہ قوم اور ملک پربوجھ بننے کے بجائے خود اپنے پیروں پرکھڑے ہوتے۔ انڈسٹری کو فروغ دیکر روزگار کے مواقعے پیدا کیے جاتے۔ پرائم منسٹر کے احساس پروگرام نے تو انھیں اور بھی کاہل اور سست بناکے رکھ دیا ہے۔ وزیراعظم اپنی تقریروں میں اکثر اِن لنگر خانوں اور شیلٹر ہومز کاذکر کرکے انھیں اپنی کارکردگی کے زمرے میں گردانتے دکھائی دیتے ہیں۔
کاش وہ کسی ایسے پروجیکٹ کا بھی ذکرکرتے جو حقیقی معنوں میں اِس ملک وقوم کو عظیم بنانے میں مدد گار ہوتا۔ دنیا کاکوئی حکمراں ہمیں شیلٹر ہومز، لنگر خانوں پر فخر کرتا نظر نہیں آتا۔ مگر ہمارے یہاں اِسے ایک نئے پاکستان کی ایک ایسی ابھرتی ہوئی حسین تصویرسمجھا جارہاہے جہاں بظاہرکسی کو بھی دو وقت روٹی کے لیے متفکر اور پریشان ہونے کی ضرور ت نہ ہوگی، وہ اگرمہنگائی کی وجہ سے گھر کا راشن خرید نہیں سکتا تو کم از کم اپنا پیٹ تو باآسانی بھر سکتاہوگا۔ وزیراعظم جس ایوب خان دور کے قصیدے اکثر پڑھاکرتے ہیں وہ کیا اُن کے لنگر خانوں کی وجہ سے مشہور تھے۔
پچھلے دنوں وزیراعظم کراچی میں بارش سے ہونے والی تباہی کاکچھ تدارک اورازالہ کرنے کی غرض سے تشریف لائے اور ایک بہت بڑے مالی پیکیج کااعلان بھی مرحمت فرمادیا۔ مگر دوسرے ہی روز وہ اسلام آباد میں کسی تقریب میں قومی خزانے کے خالی ہونے کاشکوہ بھی کررہے تھے۔
ایک طرف اُن کے پاس عوام کو کچھ دینے کے لیے پیسہ نہیں ہے اور دوسری طرف وہ فراخدلانہ پیکیجوں کواعلان بھی کرتے پھررہے ہوتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتا یہ سب کچھ اپنے حکمرانوں کی لاعلمی اور معصومیت تصور کریں۔ جسے ایسی سخاوت اور دریادلی دکھانے سے پہلے اپنی مالی حالت کااندازہ ہی نہ ہو۔ وہ کبھی 300ارب روپے کا بھاشا ڈیم بنارہے ہوتے ہیں تو کبھی پانچ کھرب روپے کے راوی ریوراربن ڈیویلپمنٹ پروجیکٹ کی نوید سنارہے ہوتے ہیں۔
مگر جب پیسہ فراہم کرنے کو کہاجاتاہے تو حسب معمول اپنی دونوں خالی جیبیں اُلٹی کرکے دکھادیتے ہیں۔ کراچی کے لیے اِس سے پہلے بھی انھوں نے 162ارب روپے دینے کاوعدہ کیاتھا۔ سال ہوگیالیکن ایک روپیہ بھی اُس میں سے ابھی تک نہیں ملا۔ یہ گیارہ سوارب روپے کا پیکیج ایک اورسہانہ خواب ہے جو وہ قومی اسمبلی کی چودہ سیٹیں دینے والے شہرکے باسیوں کو دکھاگئے ہیں۔
اِس حکومت نے اور اِس سے پہلے KPK کی سابقہ صوبائی حکومت نے اب تک جو ایک واحد پروجیکٹ تین چار سالوں میں مکمل کیاہے وہ پشاورکا بی آر ٹی منصوبہ ہے۔ اِس منصوبے پر ہونے والی لاگت اب تک شہباز شریف کے تینوں میٹرو بس پروجیکٹس سے زیادہ ہوچکی ہے مگر یہ ہے کہ چل کے ہی نہیں دے رہا۔ بڑی مشکل سے عوامی دباؤ کے نتیجے میں اِس کاافتتاح تو کردیا گیا لیکن ایک مہینہ ہی میں اِسے معطل کرنا پڑگیا۔
اربوں روپوں سے خریدی جانے والی ہائبرڈ بسیں اپنی افادیت کھوکر سر کادرد بن چکی ہیں۔ دوچار ہفتوں میں چار پانچ بسیں شارٹ سرکٹ کی وجہ سے جل کر خاک ہوچکی ہیں۔ اب اُس کا نقص تلاش کیاجارہا ہے۔
لاہورکی جس میٹرو بس سروس پر دی جانے والی سبسڈی کو ہمارے حکمران قومی خزانے پر ایک بوجھ تصور کرتے رہے ہیں وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ پشاور کی یہ میٹرو اب تک چلے بناء قومی خزانے کے کتنے پیسے کھاچکی ہے۔ تجربے اور اہلیت کے فقدان نے گزشتہ چند سالوں میں اِس ملک وقوم کو جونقصان پہنچایا ہے وہ شاید ہی ماضی میں کسی اور حکومت نے پہنچایاہو۔ اِس حکومت کومعرض وجود میں آئے دو ڈھائی سال بیت چکے ہیں اورکپتان ابھی تک ایک اچھی ٹیم بنانے میں ہی سرگرداں ہے۔ یاد رہے کہ قوم اب مزید کسی نااہلی اور ناتجربہ کاری کی متحمل نہیں ہوسکتی۔