پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے درمیان چلنے والی حالیہ چپقلش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ وقت اور زمانے کی مجبوریاں انھیں کچھ دنوں کے لیے ایک دوسرے کے قریب تو لے آتی ہیں مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ یہ دوستی بہت ہی کم دنوں کے لیے ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام سے وہ ایک دوسرے کے قریب تو آگئے مگر جیسے ہی مفادات کا ٹکراؤ سامنے آنے لگا وہ ساری دوستی چھوڑکر ایک بار پھر ایک دوسرے کے مخالف بن گئے۔ وہ گزشتہ برس مولانا فضل الرحمن کی کوششوں کے سبب اور پی ڈی ایم اتحاد کا حصہ تو بن گئے لیکن ایک میز پر جمع ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے خلاف شکوک و شبہات ختم نہ ہوسکے اور صرف چند مہینوں میں ہی اس اتحاد کا شیرازہ بکھرنے لگا۔
یہ اتحاد ویسے تو گزشتہ برس پیپلزپارٹی کی میزبانی کے تحت وجود میں آیا تھا جب کہ پیپلزپارٹی شروع دن سے ایسے کسی اتحاد میں شامل ہونے سے کتراتی رہی تھی۔ دس گیارہ جماعتوں کے اتحاد میں بہت کم جماعتیں ایک دوسرے کے منشور اور نظریہ کی قائل اور متفق تھیں لیکن مجبوری حالات نے انھیں ایک ڈوری کے ساتھ باندھ دیا تھا۔
دیکھا جائے تو پی ڈی ایم کے قیام سے سب سے زیادہ فوائد سمیٹنے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی ہی رہی ہے۔ اِس اتحاد نے انھیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ایک بار پھر قدم جمانے کا موقعہ فراہم کیا جہاں اِس سے پہلے اُس کا خاصا نقصان ہوچکا تھا۔ 2018ء کے انتخابات میں اِس صوبے میں صرف مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی ہی کامیاب ہو پائی تھیں اور پیپلز پارٹی صرف چند سیٹیں ہی لے پائی تھی، لیکن پی ڈی ایم نے بلاول بھٹوکے لیے ایسے سازگار حالات پیدا کر دیے کہ وہ پنجاب کے عوام کے سامنے اپنے آپ کو ایک نئے لیڈر کے طور پر متعارف کروا سکیں۔
اِسی اتحاد کی بدولت وہ بڑے بڑے جلسوں سے خطاب بھی کرسکے اور اس قابل بھی ہوسکے کہ پیپلزپارٹی کے بار ے میں سابقہ امیج زائل کرکے اُسے ایک بہتر متبادل کے طور پر پیش کرسکیں۔ اِسی پی ڈی ایم کا حصہ ہونے کے ناتے وہ یوسف رضا گیلانی کو سینیٹر بنوا پائے جو شاید پہلے اُن کے لیے ہرگز ممکن نہ تھا۔
مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلزپارٹی کی دوستی اور مفاہمت سے اُن کے اپنے لوگ اور کارکن خوش نہ تھے خاص کر پنجاب کے عوام جو مسلم لیگ کا ساتھ کئی سالوں سے شاید اِس لیے نبھا رہے تھے کہ اُس نے پیپلزپارٹی کے برعکس عوام کی بہت خدمت کی تھی۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ اُن کی پسندیدہ اور ہر دل عزیز سیاسی پارٹی یوں مفاہمت کی سیاست اپنا کر اپنے پرانے حریفوں کے ساتھ بیٹھی نظر آئے۔ یہی وہ نظریاتی فرق تھا جو اِن دونوں سیاسی جماعتوں کے ووٹروں کو اپنا حق رائے دہی آزادانہ استعمال کرنے پر مجبورکر رہا تھا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مریم نواز شریف پی ڈی ایم کے معرض وجود میں آنے سے قبل جس طرح تن تنہا بہت ہی بڑے کامیاب جلسے کررہی اور جلوس اور ریلیاں نکال رہی تھیں وہ اگر اِسی طرح جاری رکھتیں تو شاید ملک کی واحد مقبول ترین سیاسی رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آ جاتیں۔ مگر پی ڈی ایم کے اتحاد نے اُن کے اِس امیج کو آگے بڑھنے سے روک دیا، جب کہ دوسری جانب پاکستان پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم میں شامل ہو کر ایسے فوائد حاصل کر لیے جو شاید پہلے ممکن نہ تھے۔
اسمبلیوں سے استعفیٰ نہ دینے کے معاملے سے شروع ہونے والا تنازعہ اِس قدر بڑھ جائے گا کہ خود پی ڈی ایم کا وجود ہی خطرے سے دوچار ہوجائے گا، کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ مسلم لیگ کی قیادت نے آصف علی زرداری کی سیاست کو سمجھنے میں شاید ایک بار پھر غلطی کردی۔
وہ اِس سے پہلے بھی 2008ء میں یہی غلطی کرچکی تھی جب پیپلز پارٹی نے میاں نواز شریف سے ججوں کی بحالی کا وعدہ کرکے انھیں سابق صدر جنرل پرویز مشر ف کے خلاف مواخذہ پر رضا مند کر لیا تھا اور پھر اُن کے استعفیٰ اور خود اپنے صدر بن جانے کے بعد اِس وعدے کو پورا نہ کر سکی۔ اِسی طرح اِس بار بھی وہ اسمبلیوں سے استعفیٰ کا وعدہ کرکے اور یوسف رضاگیلانی کو سینیٹر بنوانے کے بعد اپنے اِس وعدے پر عمل درآمد میں ٹال مٹول سے کام لینے لگی تو مفادات کا ٹکراؤ تیزی سے ابھر کر سامنے آنے لگا۔
پھر چپ چاپ BAP کی مدد سے یوسف رضا گیلانی کو اپوزیشن لیڈر بنوانے میں کامیاب ہوگئی۔ حالانکہ دیکھا جائے تو یہ کوئی اتنا بڑا ایشو نہیں تھا اور نہ یہ کوئی اتنی بڑی سیٹ تھی مل بیٹھ کر بھی معاملات طے کیے جاسکتے تھے۔ پھر بات یہاں بھی ختم نہ ہوئی اور پی ڈی ایم کی طرف سے شوکاز نوٹس ملنے پر خفا ہو کر اتحاد سے فوراً علیحدہ ہو جانا کچھ مناسب رویہ نہ تھا۔ پیپلزپارٹی کا خیال ہے پی ٹی آئی حکومت کی نااہلی اور ناکامی کی صورت میں مقتدر قوتوں کے لیے وہ شاید اُسی طرح ایک بہتر آپشن کے طور پر خود کو سامنے لا سکتی ہے جس طرح 1993میں میاں نوازشریف کی اسٹبلشمنٹ سے ناراضی کی صورت میں محترمہ بے نظیر ایک متبادل آپشن قرار پائی تھیں۔
کراچی کے حلقہ 249 کے حالیہ ضمنی ایکشن میں جو کچھ بھی ہوا اس کا تدارک اگر آج نہ کیا گیا تو یہ سلسلہ آیندہ الیکشنوں تک بھی جائے گا۔ جس پارٹی کا جس صوبے میں اثر و رسوخ موجود ہے وہ اپنا کام کر دکھاتی ہے۔ رات کے اندھیرے میں نتائج میں ہیرا پھیری روکی نہ گئی تو صاف اور شفاف الیکشن کروانے کے تمام پروسس پر سے عوام کا اعتماد ختم ہوکر رہ جائے اور پھر ووٹروں کا ٹرن آؤٹ ناقابل یقین حد تک اتنا گر جائے گاکہ خود سارا انتخابی عمل ہی مشکوک بن جائے گا۔ ہمیں اگلے الیکشنوں سے پہلے یہ مسئلہ حل کرنا ہوگا۔
یہاں بھی اگر نتائج کو صحیح معنوں میں عوام تک پہنچنے دیا جاتا توکوئی قیامت نہیں آجانی تھی۔ ہم نے اِس سارے الیکشن کی کمپئین کے دوران دیکھا کہ کراچی کے اِس حلقہ کے عوام کو صرف ایک ہی شکایت تھی کہ انھیں عام استعمال کا پانی نہیں ملتا۔ ہائیڈرینٹ مافیاکو تو باآسانی مل جاتا ہے لیکن علاقے کے عوام اس پانی کو برسوں سے ترس رہے ہیں۔ سوچا جائے کہ اُن کا یہ مسئلہ کسی نے ابھی تک حل نہیں کیا، اگر کرلیا ہوتا تو پھر موجودہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔
پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نون چاہے کتنے ہی قریب آجائیں اُن کے درمیان خلیج ہمیشہ حائل رہے گی۔ یہ ایک دوسرے کے اگر خلاف نہ رہیں تو اُن کی ساری سیاست ہی ختم ہو کر رہ جائے گی۔ ووٹروں کی سوچ اور نظریہ کی بنیاد ہی اِن دونوں کی حریفانہ سیاست پر مبنی ہے، اگر سب ایک ہو جائیں تو انتخابات کی پھر شاید ضرورت ہی باقی نہ رہے۔