Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Sirf Imandar Hona Kafi Nahi

Sirf Imandar Hona Kafi Nahi

عبد الستار ایدھی نہایت شریف، سادہ اور ایماندار آدمی تھے۔ ہمارے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے اُن پر اندھا اعتبار بھی کیا اور وہ اُس اعتماد اور اعتبار پر پورا اترے بھی۔ انھیں جس کام کے لیے لوگوں نے پیسے دیے وہ انھوں نے بڑی ذمے داری اور ایمانداری سے خرچ بھی کیے۔ فلاحی اور رفاہی کاموں پر بے دریغ پیسہ لگایا اور ساری دنیا میں ایک مثال بن کر سامنے آئے، مگر اُن کی اِ ن تمام خوبیوں پر ہمارے یہاں کسی نے انھیں اِس ملک کا وزیر اعظم یا صدر بنانے کا سوچا بھی نہیں۔ سادگی اور ایمانداری ایک علیحدہ چیز ہے اور نظام مملکت چلانا، ایک بالکل ہی علیحدہ صلاحیت اور خوبی ہے جو ہرکسی کے اندر موجود نہیں ہوتی۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدارکی سادگی اور معصومیت پرکسی کو اعتراض نہیں ہے وہ بے شک ایماندار اور شریف النفس انسان بھی ہیں لیکن اُن کے اندر حکومت چلانے والی کوئی ایک خوبی بھی موجود نہیں ہے، لیکن نجانے کیا سوچ کر انھیں اِس ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اگر کسی کی ایمانداری اور سادگی کو ہی حکمرانی کے لیے قابلیت اور صلاحیت کا پیمانہ بنانا مقصود تھا تو انھیں صوبے کی بجائے اِس ملک کا سربراہ ہی کیوں نامزد نہیں کر دیا گیا۔ خان صاحب کو عثمان بزدار کے اندر کسی مملکت کو چلانے والی خوبیاں دکھائی نہیں دیتیں تو پھر ایک بڑے صوبے کو اُن کے حوالے کیوں کر دیا گیا۔

ہمارے لیے یہ بات باعث حیرانی اور پریشانی ہے کہ ڈیڑھ سال میں اُن کی کارکردگی دیکھنے کے باوجود خان صاحب اپنی اِس ضد پر اڑے ہوئے ہیں کہ نہیں وہی اِس صوبے کے وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ کارکردگی نہ دکھانے پر خان صاحب نے اپنے سب سے قابل اور باصلاحیت شخص اسد عمر کو تو صرف چھ ماہ ہی میں فارغ کر دیا لیکن عثمان بزادر کے معاملے میں وہ اپنے فیصلے پر نہ صرف بضد ہیں بلکہ ڈٹے ہوئے ہیں۔ انھیں پارٹی کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں۔ جس طرح وہ وزیر اعظم کی حیثیت میں اپنی کارکردگی سے مطمئن ہیں اُسی طرح وہ عثمان بزادر کی بھی ڈیڑھ سالہ کارکردگی سے مکمل طور پر مطمئن ہیں۔ وہ عثمان بزدارکے خلاف کسی بھی شکایت کو لائق اعتناء نہیں سمجھتے۔

عثمان بزدارکی اِس قدر ٹھوس حمایت کرنے پر اب خان صاحب کی قابلیت اور صلاحیت پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ دیکھا جائے تو وزیر اعظم کی حیثیت سے وہ بھی اپنی قوم کو ابھی تک کوئی زبردست کارکردگی نہیں دکھا پائے ہیں۔ اول تو انھیں اِس ملک کے مسائل اور مشکلات کا صحیح طور پر ادراک ہی نہیں ہے۔ اگر ادراک ہوتا تو اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد وہ کارکردگی دکھانے کی غرض سے اپنے لیے سو دنوں کا ٹارگٹ ہرگز مقرر نہیں کرتے۔ سو دنوں میں ناکامی کے بعد انھوں نے قوم سے ایک سال کی مہلت مانگی اور اُس میں بھی مکمل ناکامی کے بعد وہ اب پانچ سال کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ اُن کی حکومتی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ ہر نیا آنے والا دن قوم کے لیے مشکلات کے کم ہونے کا نہیں بلکہ اُس میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ لوگوں کو ریلیف اورآسائش فراہم کرنے کی بجائے خان حکومت نئے نئے مسائل پیدا کرتی جا رہی ہے۔ جن مصیبتوں سے اِس قوم نے گزشتہ دس بیس سال میں جان چھڑا لی تھی وہ ایک ایک کر کے ایک بار پھر وبال جان بنتی جا رہی ہیں۔

کھانے پینے کی اشیاء کے لیے راشن شاپس پر لمبی لمبی قطاروں سے اِس قوم کی جیسے تیسے جان چھٹی تھی وہ ایک بار پھر اُن کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ بنتی جا رہی ہیں۔ خان صاحب کو اِس پرکوئی پشیمانی بھی نہیں ہے، بلکہ وہ اِسے اپنی حکومت کی زبردست کارکردگی شمار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ بڑے بڑے شیلٹر ہومز، لنگر خانے اور راشن ڈپوز اُن کا مشن اور ٹارگٹ بن چکا ہے۔ پہلے وہ قوم کی تقدیر انڈوں، مرغیوں اور بھینس کے کٹوں سے بدلنے کا ویژن رکھ رہے تھے۔

دنیا کہاں سے کہاں جا رہی ہے اور ہمارا وزیر اعظم ابھی تک پولٹری اور ڈیری فارموں میں ہی الجھا ہوا ہے۔ انھیں کون سمجھائے کہ پولٹری فارمز اور ڈیری فارمز بنانا کسی وزیر اعظم کا کام اور شیوہ نہیں ہوتا۔ اُسے تو قوم بڑے بڑے پروجیکٹ بنانے کی غرض سے برسر اقتدار لاتی ہے۔ یہ چھوٹے چھوٹے کام وزیر اعظم کے سوچنے کے نہیں ہوتے۔ اُسے تو سی پیک اور ون روڈ ون بیلٹ جیسے عظیم منصوبوں کے لیے منتخب کیا جاتا ہے۔ کسی ملک کے وزیر اعظم ہونے کے لیے اچھی تقریرکرنا یا محض جاذب نظر دکھائی دینا کافی نہیں ہوتا۔

خان صاحب کے بقول22 سال انھوں نے سیاسی جدوجہد کی ہے، مگر لگتا ہے یہ 22 سال انھوں نے ضایع کر دیے ہیں۔ انھیں جب اپنی قوم کے مسائل و مصائب کا صحیح طور پر ادراک ہی نہ ہوسکا ہے تو پھر اِس ساری جدوجہد کا حاصل کیا۔ قدرت نے جب انھیں اُن کی آرزوؤں اور حسرتوں کے مطابق وزارت عظمیٰ کا عہدہ تفویض فرما دیا تو پھر انھیں چاہیے تھا کہ 22 سال تک وہ جو باتیں کرتے رہے ہیں اور جو سہانے خواب قوم کو دکھاتے رہے ہیں، اپنے اعمال سے اور اپنی کارکردگی سے اُس کی صحیح اور درست تعبیر کے سامان پیدا کریں ناکہ اب بھی صرف بڑی بڑی باتوں سے قوم کا دل بہلایا کرتے رہیں۔

قوم حیران و پریشان ہے کہ بظاہر اتنا سمجھ دار اور ہشیار دکھائی دینے والا وزیر اعظم اندر سے اتنا کمزور اور ناتواں نکلے گا کہ اُن کا ایک مسئلہ بھی مکمل طور پر حل نہیں کر پائے گا۔ ملک دن بدن مسائل میں مزید گھرتا جا رہا ہے۔ ہر نیا آنے والا دن قوم کے لیے نئی مصیبتوں اور مشکلوں کا باعث بنتا جا رہا ہے۔ ایک بحران حل نہیں ہو پاتا کہ دوسرا بحران جنم لے لیتا ہے۔ ابھی روپے کی گراوٹ کے نتائج سے ہماری قوم سنبھلنے بھی نہیں پائے تھی کہ اُسے چینی اور آٹے کی بحرانوں میں الجھا دیا گیا ہے۔ روزمرہ کی اشیائے خوردنی کے دام عام آدمی کی پہنچ سے باہر نکل چکے ہیں۔

وزیر اعظم سمیت کسی کو غریب کی مفلوک الحالی کا احساس تک نہیں ہے۔ ہر دو ماہ بعد بجلی اور گیس کے نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ پھر اُس پر طرفہ تماشہ اور دلاسہ یہ کہ قوم گھبرائے نہیں۔ معیشت سدھر چکی ہے اوراچھے دن اب آیا ہی چاہتے ہیں۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ کون سچ بول رہا ہے۔ وزیر اعظم اور اُن کے رفقاء یا پھر باہر بیٹھے ہمارے ماہر معیشت جو ہر روز معیشت کی زبوں حالی کی ایسی خوفناک داستان سناتے رہتے ہیں جن سے بچنے کے اب کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ ایکسپورٹ بڑھنے کی بجائے متواتر کم ہوتی جا رہی ہے۔ جی ڈی پی کی شرح مایوسیوں کی حدوں کو چھو رہی ہے۔

بے حساب نئے ٹیکس نافذ کرنے کے باوجود ایف بی آر ٹیکس جمع کرنے کے اپنے اہداف بھی پورے نہیں کر پا رہا۔ بینکوں سے ملنے والے قرضوں پر مارک اپ کی شرح مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ نتیجتاً ہمارا انڈسٹریل سیکٹر تباہی کے دہانے پر جا پہنچا ہے۔ قومی افق پر نا امیدی اور مایوسی کے سائے پھیلتے اور بڑھتے جا رہے ہیں۔ کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں آ رہی۔ ملک کے اندرکوئی ترقیاتی کام نہیں ہو رہا۔ پہلے سے شروع پروجیکٹس پر بھی قدغنیں لگا دی گئی ہیں۔ کاروبار مملکت چلانے کے لیے غیر ملکی قرضوں پر انحصار بڑھتا جا رہا ہے۔

جس کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ اُسے آئی ایم ایف کے چنگل میں ایسا پھنسا دیا گیا ہے کہ اگلے دس بیس سال تک وہ اُس کی گرفت سے باہر نہیں نکل پائے گی۔ حکومت کی غیر ذمے داری اور لا اُبالی پن نے سارے ملک کو بازیچہ اطفال بنا کے رکھ دیا ہے۔ وزیر اعظم کی ٹیم میں کوئی بھی اپنے کام میں مخلص اور سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہا۔ سب کے سب صرف وقت گزار رہے ہیں۔ اُن کے فرائض منصبی میں اولین کام صرف اپوزیشن کو لتاڑنا باقی رہ گیا ہے اور جو اِس ایک کام میں سب سے ہنر مند اور باکمال ہو گا، وہی خان صاحب کی نظروں میں سب سے مقرب اور مقدم گردانا جائے گا۔ جب تمام اکابرین حکومت کا یہ حال ہو گا تو پھر کسی اچھائی اور خیر کی توقع کی بجائے ہمیں اپنی مزید تباہی اور شکستہ حالی کے لیے اب تیار رہنا ہو گا۔