جس طرح ہمارے یہاں عید قرباں کے موقعہ پر قربانی کے جانوروں خاص کر گائے کے رسی چھڑا کے بھاگ جانے کے مناظر سے لطف اندوز ہونے والوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی، ایسے ہی دو افراد یا دو خاندانوں کے بیچ لڑائی سے بھی مزہ لینے اور اُس سے اندر ہی اندر خوش ہونے والوں کی بھی ہمارے یہاں کوئی کمی نہیں ہوا کرتی۔
ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ دو افراد جب زبانی وکلامی کی حد تک ایک دوسرے سے لڑ رہے ہوتے ہیں تو اُن کی اِس لڑائی سے مزہ لینے والے نہ صرف سارے منظر سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں بلکہ اُن کی خواہش اور حسرت تو یہی ہوتی ہے کہ یہ لڑائی اور جھگڑا زبانی حدود سے باہر نکل کر ہاتھا پائی کی شکل اختیار کر لے اور جب اُن کی یہ حسرت بدقسمتی سے حقیقت کا روپ دھارنے لگتی ہے تو مجمع میں سے چند ایک شریف النفس افراد آگے بڑھ کر اُن لڑنے والوں کو چھڑانے کی کوششیں کرنے لگتے ہیں، لیکن جب تک دونوں فریقوں میں سے کسی ایک فریق کی ٹھکائی اچھی خاصی ہوچکی ہوتی ہے۔
اِسی طرح ہماری سیاست میں بھی اداروں کے مابین کشیدگی اور تناؤ سے مزے لینے اور لطف اندوز ہونے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو اُس وقت بڑی تکلیف ہونے لگتی ہے جب یہ دونوں فریق یا ادارے صلح و صفائی کر کے ایک دوسرے کو پچھاڑنے سے باز آجاتے ہیں۔ انھیں اِن دونوں فریقوں کے بیچ مفاہمت اور دوستی کے بڑھتے ہوئے احساسات و جذبات اور تعلقات ایک آنکھ نہیں بھاتے اور وہ طعن و تشنیع کے ذریعے انھیں پھر سے پرانی روش اختیارکرنے پر اُکسانے لگتے ہیں۔ اُن کی اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ یہ دونوں فریق مفاہمت اور انڈر اسٹینڈنگ کا راستہ اختیار نہ کرنے پائیں اور ہمیشہ گتھم گتھا اور لڑتے ہی رہیں اور وہ خود اُن کے درمیان کشیدگی اور مخاصمت سے براہ راست اور بالواسطہ فائدوں سے فیض یاب ہوتے رہیں۔ ایسا ہی کچھ آج کل حکمراں جماعت پی ٹی آئی کے لوگوں کی طرف سے ہوتا ہوا دیکھا جا رہا ہے۔
وہ مسلم لیگ (ن) اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان پروان چڑھتی کشیدگی اور محاذآرائی سے انتخابی فوائد سمیٹ لینے کے بعد اُن کی اب تمنا اور خواہش تو یہی ہے کہ یہ محاذ آرائی کسی طور تھمنے نہ پائے اور وہ اپنے عرصہ اقتدار کی باقی تمام مدت اِسی لڑائی کی مرہون منت گزار لیں۔ کیونکہ انھیں معلوم ہے کارکردگی کے میدان میں تو وہ بری طرح ناکام ہو چکے ہیں اور باقی تین چار سالوں میں بھی وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ لہذا انھیں اگر قبل از وقت معزول کیے جانے کا خطرہ لاحق ہے تو صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی ہوئی انڈر اسٹینڈنگ اور ہم آہنگی سے ہے۔ وہ کسی طور نہیں چاہیں گے کہ ہم آہنگی اور مفاہمت کی یہ بیل کبھی منڈھے چڑھ پائے۔ کیونکہ جوں جوں وقت گذرتا جا رہا ہے عوام کے اندر حکمرانوں سے مایوسی اور نا اُمیدی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ حکومت سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔
کارکردگی میں ناکامی دکھانے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کے پاس اپنے بچاؤکا صرف یہی ایک راستہ رہ گیا ہے کہ وہ اداروں اور اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے بیچ مفاہمت اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہونے نہ دیں۔ انھیں توقع تھی کہ آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کے معاملے میں ہماری اپوزیشن سخت مخالفت کا راستہ اختیار کرے گی اور یوں وہ اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں خود کو زیادہ معتبر اور مخلص ظاہر کر پائیں گے، مگر افسوس کہ اُن کی اِن ساری تمناؤں اور آرزؤں پر اپوزیشن نے اپنے سیاسی تدبر اورذہانت کے ذریعے پانی پھیر دیا۔
انھوں نے نہ صرف پہلے وزیر اعظم کے اِس فیصلے کی کوئی مخالفت کی بلکہ معاملہ جب پارلیمنٹ کے سپرد کیا گیا تو بھی اُس پر غیر مشروط حمایت کر کے حکومت کی ساری حکمت عملی کو خاک میں ملا دیا۔ اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں معتبر بننے کا یہ سنہری موقعہ ہاتھ سے نکل جانے کے بعد رد عمل کے طور پر اپوزیشن کو لتاڑنے اور طنزوتضحیک کا نشانہ بنانا اب حکومتی ارکان کا فرض توبننا ہی تھا لہذا وہ اپنے اِس مشن پر لدگئے۔" ووٹ کو عزت دو" کے بیانیہ کو یاد دلا دلا کر وہ اپنے اندر کی خفت اور ہزیمت کو مٹانے کی کوششوں میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ انھیں ڈر اور خطرہ لاحق ہونے لگا ہے کہ کہیں مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابل قبول ہوگئی تو پھر وہ کہاں کھڑے ہوں گے۔ اُن کی بقا اورعافیت تو اِسی میں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور مسلم لیگ (ن) کسی طور ایک دوسرے کے قریب نہ آنے پائیں۔ ایک نجی چینل کے ٹاک شو میں وفاقی وزیر فیصل واؤڈا کی جانب سے فوجی بوٹ کو ساتھ لانے اور اُس کی چمک کو نون لیگیوں کی طرف سے چومنا قراردینا دراصل اپنے اندر چھپے اُس خوف کا لامحالہ اظہار ہے جو رفتہ رفتہ ساری حکمراں جماعت کے اندر سرایت کرتا جا رہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے پاس عوام میں دوبارہ جانے اوراُن سے ووٹ مانگنے کے لیے کارکردگی کا وہ ٹریک ریکارڈ موجود ہے جسے دکھا کر وہ باآسانی دوبارہ حکومت بناسکتے ہیں۔ انھیں اپنا یہ مقام حاصل کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ حائل ہے تو صرف ایک ہی ہے جسے سیاسی شعور رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں۔ وہ اگر رکاوٹ دور ہوگئی تو پھر مسلم لیگ (ن) کو اقتدار حاصل کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا، جب کہ پی ٹی آئی کے پاس کارکردگی کے پلڑے میں ایک کارنامہ بھی ایسا نہیں ہے جسے دکھا کر وہ عوام سے دوبارہ ووٹ مانگ سکے۔
میاں نواز شریف 1990ء میں پہلی بار وزیر اعظم بنے تو قوم کو موٹر وے کا عظیم الشان منصوبہ پیش کیا۔ اُس وقت ہمارے یہاں بہت سے لوگوں نے اُس پرشدید تحفظات پیش کیے لیکن آج تیس سال گذر جانے کے بعد وہ سارے لوگ اُس منصوبے کی افادیت اور اہمیت کے قائل ہوگئے۔ دوسری بار وزیراعظم بنے تو اپنے ملک کو دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت کا درجہ دلا دیا۔ اور اِسی طرح تیسری بار وزیر اعظم بنے تو اُس وقت سارے ملک کو دہشت گردی اور طویل دورانیے کی لوڈ شیڈنگ کاسامنا تھا۔ مگر انھوں نے ہمت نہ ہاری اور انتہائی محدود وسائل کے باوجود اِن دونوں مصیبتوں سے قوم کو نجات دلائی۔ ساتھ ہی ساتھ برادر دوست ملک چین کے ساتھ مل کر عظیم الشان منصوبے سی پیک کی بنیاد رکھی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک کے معاشی حالات اُس وقت بھی کوئی اتنے سازگار نہیں تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے پانچ سال دور اقتدار کے بعد مسائل اور مصائب اِس قدر بڑھ چکے تھے جن سے چھٹکارا دلانا کوئی آسان نہیں تھا۔ مگر میاں صاحب نے عزم و استقلال کے ساتھ یہ سب کچھ کر دکھایا۔ خان صاحب کی طرح ماضی کے حکمرانوں کو کوستے نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم آج بھی اُن کے کارناموں کی نہ صرف معترف ہے بلکہ دل سے خواہش مند ہے کہ وہ پھر سے برسر اقتدار آجائیں۔ خان حکومت نے ڈیڑھ سالوں میں قوم کی جو درگت بنا ڈالی ہے وہ کسی اظہار اور تبصرے کی محتاج نہیں ہے۔ لوگ اپنی آنکھوں سے اپنی تباہی کے مناظر دیکھ رہے ہیں۔ پنجاب کی موجودہ حکومت تو نا اہلی کی صرف ایک چھوٹی سی علامت ہے یہاں تو سارے کا سارا کنبہ ہی نالائق اور نا اہل ہے۔ کسی ایک وزیر کی کارکردگی ایسی نہیں ہے جسے مثال بنا کر پیش کیا جاسکے۔ لہذا کوشش یہی ہے کہ کچھ نہیں توکم ازکم مخالف سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سیاسی بی جمالوکا کردار ہی بخوبی سر انجام دیا جائے۔