Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Taliban Ki Iss Kamyabi Mein Hamara Hissa Kitna?

Taliban Ki Iss Kamyabi Mein Hamara Hissa Kitna?

افغانستان میں بیس سال بعد ایک بار پھر طالبان کی حکومت قائم ہوگئی۔ نائن الیون کے بعد امریکا کی افغانستان میں کی جانے والی مداخلت اورمسلح جارحیت کے نتیجے وہاں قائم ملاعمر کی پانچ سالہ حکومت کے خاتمہ اور تقریبا بیس سال تک وہاں اپناناجائز تسلط جمائے رکھنے کے بعد بالآخر اُسے بھی سویت یونین کی طرح وہاں سے نکلنا ہی پڑا۔ اُس کے نکلتے ہی وہاں اس کی قائم کردہ کٹھ پتلی حکومت بھی دھڑام سے زمین بوس ہوگئی اوراُسکے نام و نہاد صدر اشرف غنی بلا کسی مزاحمت کے چپ چاپ اپنے ملک سے فرار ہوگئے۔

ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کے اسباب و وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں لیکن اُسے جواز بناکر امریکا نے اپنے دوستوں اور نیٹو کے ممالک کے ساتھ ملکر دہشت گردی کے خلاف جس عالمی جنگ کا آغاز کیا تھااورہمیں زبردستی اُس کا اسٹرٹیجک پارٹنر بننے پر مجبورکیاتھا وہ اپنی تمام کامیابیوں اورناکامیوں سمیت اپنے اختتام کو پہنچ گئی اورافغانستان پھر اُس مقام پر پہنچ گیا جہاں وہ بیس سال پہلے موجود تھا۔ طالبان نے یہ جنگ حصول اقتدار کے لیے نہیں لڑی بلکہ اپنے وطن کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرنے کے لیے لڑی ہے۔

ملا عمر نے کبھی حکومت کے حصول اوردوام کے لیے ہاتھ پاؤں نہیں مارے تھے لہٰذا انھیں اُس کے جانے کا بھی کوئی غم نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے وہ 2001 میں امریکی مطالبات کے سامنے ڈٹ گئے تھے اوراُسامہ بن لادن کو اُن کے حوالے کرنے سے یکسر انکار کر دیا تھا۔ اُن دنوں پاکستان سے گئے ہوئے علماء پر مبنی ایک وفد کے سمجھانے اور مشورے پر بھی انھوں نے یہی جواب دیاتھاکہ اس بات کی کیاگارنٹی ہے کہ اُسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے کردینے کے بعد بھی وہ ہمیں چھوڑ دیگا۔ جنگ انھوں نے شروع نہیں کی تھی، وہ اُن پر مسلط کردی گئی تھی، ایسی صورت میں وہ کیا کرتے۔ اپنی خودداری، غیرت وحمیت اورعزت نفس قربان کرکے اپنا اقتداربچالیتے۔ انھوں نے جوکچھ کیا وہ چند بالغ نظر، دور اندیش صاحب فکرودانش کی نظر میں صریحاً حماقت اور بیوقوفی تھی۔

اُن کے خیال میں طالبان کو امریکی مطالبات کے آگے سرنگوں ہوجانا چاہیے تھا۔ ہم جودنیا کی ساتویں ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی امریکی مخالفت اوراُس کی ناراضی مول لینے کاتصور بھی نہیں کرسکتے ہیں تو پھر یہ طالبان بھلا کس کھیت کی مولی تھے۔ طالبان نے اپنا اقتداراوراپنا سب کچھ قربان کردیا۔ ہمارے دانا اور زیرک دانشوروں کی نظر میں اس سرتابی اوربغاوت کانتیجہ ایسا ہی ہوناتھا۔ اُن کے بقول نظری اورکتابی دانش اور حقیقی علمی دانش میں یہی فرق ہوتا ہے، یہ خودی اورانا کی باتیں صرف کتابی اور افسانوی ہواکرتی ہیں۔ قوموں کے فیصلے حالات اور وقت کے مطابق ہی کرنے چاہئیں۔

ہمیں اب تک یہ زعم ہے کہ ہم نے افغان مجاہدین اور امریکا کے ساتھ ملک روس کو افغانستان سے نکالا تھا اور کچھ لوگ آج امریکا کی افغانستان میں شکست کو بھی اپنی ایسی کامیابی سے گردانتے اوراُس پر فخرکرتے سنائی اوردکھائی دیتے ہیں، حالانکہ زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں۔ سوویت یونین اورامریکا دونوں کوشکست افغانستان کے جنگجوؤں نے اکیلے اورتنہاہی دی ہے۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں تو ہم اورامریکا بلاوجہ فریق بن گئے تھے۔ ہم اگر افغان مجاہدین کی کوئی مدد نہ بھی کرتے تو بھی انھیں بالکل اِسی طرح جیت جانا تھا جیسے وہ آج امریکاکے خلاف کامیاب و کامران ہوئے ہیں۔

ذرا سوچیے دنیا کی سب سے بڑی عالمی قوت کے خلاف اِس بیس سالہ جنگ میں کس ملک نے افغان مجاہدین کی مدد کی تھی۔ ہم خود توامریکا اورنیٹو افواج کے ساتھ ایک سہولت کار بنکر دہشت گردی کی اس عالمی جنگ میں ہراول دستے کے طور پرکام کررہے تھے۔ طالبان نے یہ جنگ خالصتاً اپنے زوربازو اورقوت سے جیتی ہے۔ انھیں کسی دوسرے ملک کی قطعاً کوئی حمایت اور مدد حاصل نہ تھی۔ بلکہ ہمارا نظریہ اورنقطہ نظر تو یہ تھاکہ کسی اور کے لیے ہم کیوں اپنا چین وسکون غارت کریں۔ ہمیں اپنے قوم اوراپنے ملک کوبچانا ہے اورہم نے پھر ایسا ہی کیا۔ اب جب طالبان ایک بار پھر دنیا کی اور عالمی طاقت کے خلاف سرخرو ہوچکے ہیں تو ہمیں اُن سے اپنی پرانی دوستی اورمحبت یاد آنے لگی ہے۔

ہم نے نائن الیون کے بعد جو کچھ کیا وہ ہمارے کچھ محب وطن دانشوروں کی بصیرت اوردوراندیشی کے عین مطابق تھا، جسے اگر مستقلاً اپنا لیاجائے توپھرشاید دنیا میں کوئی جھگڑا اورلڑائی ہی نہ ہو۔ ہر کمزور فریق اپنے سے طاقتور کے ہاتھوں اپنی آزادی اورخود مختاری کی حفاظت کے بجائے خود کو مکمل طور پراُس کے حوالے کر دیگا۔ دنیااگر ہمارے اپنے اِن دوراندیش، وسیع النظر دانش مندوں کے مقررکردہ معیارات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنالے تو ہر قانون اوراُصول ہی بدل جائے گا۔ راست بازی اور حق گوئی کے بجائے جابجا مصلحت کوشی جگہ پائے گی۔

اخلاص، اخلاق اور ایمانداری کی جگہ مطلب پرستی کاراج ہوگا۔ بندگان خدا آخرت میں جواب دہی کے احساس سے عاری ہوکر مظلوموں اور بے کسوں کے بجائے ظالموں اورغاصبوں کے ہم نوا اورہم رکاب ہوجائیں گے۔ کسی فرعون کے گھر کوئی موسیٰ پیدا نہیں ہوگا۔ کسی نمرود اورکسی شداد کوکبھی زوال نہیں ہوگا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج عالم اسلام میں ایک ملک بھی ایسا نہیں بچاہے جس کے حکمراں حق و باطل کے معرکے میں جرأت وہمت کامظاہرہ کرتے ہوئے مظلومیت اور حق کاساتھ دیں، بلکہ وہ تو طاقتور ملک کی سازشوں اورریشہ دوانیوں کو مزید مہمیز اوراس کادائرہ وسیع کرنے میں معاون ومددگار بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے جن فیصلوں اوراُصولوں کو اپنی عافیت اورسلامتی کاراستہ سمجھ لیاہے وہی فیصلے اوراُصول آج ہماری شکست کا سامان بنے ہوئے ہیں۔ ہمیں اب سوچنا ہوگاکہ ہم ایک خود دار اورخود مختار قوم کے طور پرجینا پسند کرینگے یاپھر 2001 کی طرح عالمی طاقتوں کی خوش نودی حاصل کرنے کے لیے دلفریب اوردلنشیں نعرہ لگا کر خود کو مکمل طور پراُن کے حوالے کردینگے۔