پی ڈی ایم جب سے معرض وجود میں آئی ہے، اُسے اپنے ہر مرحلے میں اپنی ہی ایک حلیف جماعت کی جانب سے مشکلات کاسامنا رہاہے۔
سب سے پہلے اِس اتحاد کے صدرکے عہدے کی نامزد گی پر پیپلزپارٹی کواعتراض تھا، لیکن جب اُسے یہ بتایاگیاکہ ابتدائی اورعارضی نامزدگی ہے جیسے جیسے حالات آگے بڑھیں گے یہ عہدہ کسی اور کو بھی دیاجاسکتاہے تو وہ اِس پرراضی اوررضامند ہوگئی لیکن چونکہ پیپلز پارٹی کا قد اور اُسکی حیثیت ایک بہت بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سمجھی جاتی ہے لہٰذاوہ اِس اتحاد کے فیصلوں میں اپنے رائے کوسب سے مقدم بھی رکھناچاہتی ہے۔
کہنے کو یہ اتحاد 11سیاسی جماعتوں پرمشتمل ہے لیکن اِس میں شامل بہت سی جماعتیں تو ایسی ہیں جنکے ناموں سے بھی عوام واقف نہیں ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی اورجمعیت علماء پاکستان کے علاوہ دو بڑی سیاسی پارٹیاں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی ایسی جماعتیں ہیں جنکے اختلافات اُن کے یوم تاسیس سے آج تک قائم ہیں۔
حالات اوروقت کے نزاکت اورضرورت کے تحت وہ وقتی طور پرایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ توجاتے ہیں لیکن اُنکے درمیان ذہنی اورقلبی آہنگی کبھی بھی ممکن نہیں ہوسکتی۔ وہ نظریاتی طور پرایک دوسرے کے سخت مخالف ہیں۔ آج اگر سوشل ازم اورکمیونزم پہلے کی طرح زندہ اورباقی ہوتا تو شاید یہ کبھی اِس طرح شیروشکر نہیں ہوتے۔ پیپلزپارٹی تو بنی ہی اپنے ترقی پسند خیالوں کی وجہ سے ہے۔ پی پی پی کے بنیادی منشور میں یہ بات واضح طور پردرج ہے کہ سوشل ازم ہماری معیشت۔ اِسی طرح اے این پی قوم پرست نظریات کی پرچارکرتی رہی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دور میں مسلم لیگ نے اُن کے غیر قانونی اورغیر جمہوری دور کو قانونی جواز بخشنے کے لیے حسب ضرورت بہت مدد کی اوروہیں سے میاں نواز شریف ایک سیاسی لیڈر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ محمد خان جونیجو کی وفات کے بعد مسلم لیگ کی سربراہی میاں نواز شریف کے ذمہ ڈال دی گئی۔
اُس کے بعد 2018 تک جتنے بھی انتخابات ہوئے اُس میں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کے سخت حریف رہے۔ کبھی پیپلزپارٹی اور کبھی مسلم لیگ نون اقتدارمیں آتی رہیں۔ تحریک انصاف کہنے کو 22 سال تک جدوجہد کرتی رہی لیکن 2011 تک اُسے عوام کی وہ پذیرائی نہیں ملی جیسی 2011 سے دیکھی جانے لگی۔ خان صاحب کی شخصیت کے سحر میں گرفتار ہونیوالے نجانے پہلے کیوں اُنہیں ووٹ دینے سے کتراتے رہے، یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے، وہ اگر اتنے ہی جاذب نظر ہیں تو 1996سے لے کر 2011 تک کیوں عوام کو متاثر نہ کرسکے بلکہ پہلے تووہ اور بھی اسمارٹ تھے۔
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کاجواب ہم سب کے پاس توضرور ہے لیکن اُسے بیان کرتے ہوئے ہم شاید کوتاہ نظری سے کام لینے لگتے ہیں۔ 2018 میں انتخابی معرکہ جیت جانے کے بعد وہ پہلی بارمکمل طور پربرسراقتدار آگئے اورپرانی سیاسی جماعتیں منہ دیکھتی رہ گئیں اوریوں سیاسی اورنظریاتی طور پرایک دوسرے کے سخت ترین حریف اب آپس میں قریب آنے لگے۔ اِن سب کو ایک میز پر بٹھانے کاسہرا مولانا فضل الراحمن کے سرجاتاہے۔
عمران مخالف فیکٹر نے اِنہیں ایک دوسرے کاساجھی اورمانجھی تو بنادیاہے لیکن دلوں میں ایک دوسرے سے نفرت ہنوز کم نہ ہو پائی ہے، وہ جب جب موقعہ ملتاہے انگارے اورلاوا بنکر آتش فشانی پر مجبورہوجاتی ہے۔ میاں محمد نوازشریف اور آصف علی زرداری ایک دوسرے کومعاف کرنے کو تیار نہیں ہیں، یہی روایت اُنکی اولادوں میں بھی آئی ہے۔
پیپلزپارٹی نے سینیٹ کے انتخابات میں جس طرح پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کی مدد اورحمایت سے اپنا ایک اہم سینیٹر یوسف رضاگیلانی کی شکل میں بناتولیالیکن وہ اُنہیں سینیٹ کاچیئر مین نہیں بنواسکی حالانکہ وہاں بھی پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے اپنے عہد کو اچھی طرح نبھایاتھا مگر جب بات آئی اپوزیشن لیڈر کے انتخاب کی تو پیپلزپارٹی پی ڈی ایم کے طے شدہ فیصلوں سے انحراف کرتے ہوئے بالاہی بالا یوسف رضاگیلانی کواپوزیشن لیڈر بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ کہنے کو اُس کایہ مؤقف درست معلوم ہوتاہے کہ حزب اختلاف کے طور پرسینیٹ میں اُسے عددی برتری حاصل ہے۔
لہٰذاقائد حزب اختلاف کاعہدہ اُسکا حق ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ بات پہلے کیوں نہیں سوچی گئی جب پی ڈی ایم کے فیصلے ہورہے تھے۔ چیئرمین شب کاانتخاب ہارجانے کے بعدہی یہ حق جتانے کا خیال کیوں آیا۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں شک و شبہات کا اظہار خواجہ آصف نے اُس وقت ہی کر دیا تھا جب یہ اتحاد بنایاجارہاتھا مگر پارٹی کی قیادت کی طرف سے اُنہیں خاموش کروادیاگیا۔
ہمیں اچھی طرح یاد ہے 2018 میں جب اِسی طرح سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب کا وقت آیا تھا تو میاں نواز شریف نے باوجود اکثریت رکھنے کے رضا ربانی ہی کواگلے تین سالوں کے لیے چیئرمین بنانے کی پیشکش کی تھی مگر زرداری صاحب نے کسی کے اشاروں پر رضاربانی جن کاتعلق ایک وفادار کارکن کی حیثیت سے پیپلزپارٹی ہی سے تھا چیئرمین بنانے سے انکار کر دیا۔ اُنکے بجائے وہ پی ٹی آئی کی مدد سے صادق سنجرانی کو ایک نیاچیئرمین لے آئے۔
صادق سنجرانی کانام پیپلز پارٹی نے ہی تجویز کیاتھالیکن پھر نجانے وہ کیوں 2019 میں اُن کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئی۔ آج صادق سنجرانی حکمراں جماعت کے آدمی تصور کیے جاتے ہیں لیکن در حقیقت وہ پیپلزپارٹی کے نامزد کردہ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یوسف رضاگیلانی کو قائد حزب اختلاف بنانے میں بلوچستان عوامی پارٹی کے چار ووٹ بھی اُنہی کے کہنے پر دیے گئے۔
پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ نون کبھی ایک دوسرے کی نیت پر بھروسہ نہیں کرسکتی ہیں۔ اُن کے درمیان سیاسی دشمنی اورنفرت پرانے زمانے سے ہے اورہمیشہ ہی رہے گی۔ وہ ایک دوسرے کو اپنا سخت ترین دشمن تصور کرتے ہیں۔ میاں صاحب نے گرچہ اکثر اوقات دوستی اوربھائی چارے کامظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حق کی قربانی بھی دی مگر پیپلزپارٹی ایسی کوئی قربانی دینے تو ہرگز رضامند نہیں ہوتی۔
2008میں جب پیپلزپارٹی کو حکومت بنانے کو موقعہ ملا تومیاں نوازشریف نے مکمل ساتھ نبھاتے ہوئے زرداری کابینہ میں شمولیت بھی اختیارکی اور ججوں کی بحالی کے وعدے پر کئی ماہ تک ساتھ نبھاتے بھی رہے۔ اِسی وجہ سے وہ فرینڈلی اپوزیشن کاطعنہ بھی برداشت کرتے رہے مگرزرداری صاحب صرف ایک اُس بات کولے کر ایسے خفااورناراض ہوئے کہ جسے وہ اب تک نہیں بھولے۔ جب اینٹ سے اینٹ بجانے والے بیان کے بعد میاں صاحب کسی نادیدہ اندیشے اورخوف کی وجہ سے ایک طے شدہ ملاقات سے انکارکرگئے تھے۔
اُس وقت اگر میاں صاحب کی جگہ خود زرداری صاحب بھی ہوتے توشاید ایساہی کرتے۔ اِسکے بعد زرداری صاحب نے مسلم لیگ نون کی بلوچستان حکومت کو نہ صرف زیر کرڈالا بلکہ اُنہیں اپناچیئرمین سینیٹ بھی لانے سے محروم کرڈالا۔ اِسی پراکتفانہیں ہوابلکہ نئے الیکشن کے بعد پنجاب میں بھی مسلم لیگ کو اپنی حکومت بنانے میں ناکام کرکے فخریہ اُسکاکریڈٹ بھی لیتے رہے۔ زرداری سے سیاسی مفاہمت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ مسلم لیگ نون اچھی طرح سمجھ لے کہ آنیوالے الیکشنوں مین عمران خان اُن کے لیے اتنا سخت حریف نہیں ہوگاجتناکہ آصف علی زرداری یا بلاول بھٹوزرداری ہوں گے۔