تاریخ میں عام لوگوں کا جو کردار پیش کیا جاتا رہا ہے۔ کیا اس روایتی تاریخی تصور کو مورخ تبدیل کر سکتے ہیں۔ جب تاریخ کو عوامی نقطہ نظر سے لکھا جائے گا تو سب سے پہلے اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ باربیرین اور انسانیت سے گرے ہوئے نہیں ہیں۔ ان کے بھی احساسات اور جذبات ہوتے ہیں اور یہ بھی غمی اور خوشی کے جذبات سے متاثر ہوتے ہیں۔ انہیں تاریخ کی گمنامی سے نکال کر شناخت سے محرومی کا ازالہ کرنا چاہیے۔ خاص طور سے تاریخ کی تشکیل میں ان کا جو حصہ ہے اُسے اجاگر کرنا ضروری ہے۔ مثلاً معاشرے کی معیشت اور اقتصادیات کی بنیاد انہی کی محنت پر ہے۔ کسانوں کی کھیتی باڑی، مزدوروں کا فیکٹریوں میں کام کرنا اور عمارات اور سڑکوں کی تعمیرات میں حصہ لینا، کاریگروں اور دستکاروں کی پیشہ ورانہ سرگرمیاں اور عورتوں کی گھریلو ذمہ داریاں نبھانا، یہ سب مل کر معاشرے کی معیشت کو زندہ رکھتے ہیں۔ وہ اہم پیشے جو روزمرہ کی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اُن کی اہمیت کو بھلا دیا جاتا ہے۔ جیسے جوتے گانٹھنے والا موچی، ٹھیلوں پر جگہ جگہ جانے والے سبزی فروش، گاؤں اور دیہاتوں میں پھیری والے روزمرہ کی ضروری اشیاء کو سستے داموں لوگوں تک پہنچانے کا کام کرتے ہیں۔ اگر معاشرے سے ان سب کو خارج کر دیا جائے اور ان کی یہ معاشی سرگرمیاں کم ہو جائیں تو معاشرہ منجمد ہو کر رہ جائے گا۔
حکمران طبقے ان ہی پسماندہ عوام کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جنگوں میں یہی لوگ مارے جاتے ہیں جلسے جلوسوں میں ان ہی کی شرکت سے سیاسی جماعتیں اور لیڈر اپنا مقام بناتے ہیں۔ اب یہ عوامی تاریخ لکھنے والے مورّخوں کا کام ہے کہ تاریخ کی تشکیل میں ان کے کردار کو سامنے لائے۔
عوام اپنی توانائی اور زندگی کے جذبات کے لیے اپنا کلچر بھی تخلیق کرتے ہیں۔ جو انہیں محنت و مشقت کی اذیت سے دور کر کے خوشی اور مسرت دیتا ہے۔ عوامی، گیت، قصے، کہانیاں انہیں اپنی ذات کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں ان کے ذریعے یہ اشرافیہ کا مذاق اڑاتے ہیں۔ لطیفوں کے ذریعے ان کو اونچائی سے نیچے گراتے ہیں اور اس کلچر کی مدد سے زندگی کی تلخیوں کو کم کرتے ہیں۔ لہٰذا عوامی تاریخ کا کام ہے کہ نچلے طبقوں کو انسانیت کا درجہ دے کر اُن کے لیے عزت وا حترام کے جذبات پیدا کریں۔ کیونکہ تاریخ کی تشکیل محض طاقت اور افکار کے ذریعے ہی نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ عام لوگوں کی روزمرہ کی جدوجہد اس کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
عوامی تاریخ پر لکھی جانے والی ایڈورڈ پی۔ تھامپسن (Edward P. Thompson) کی کتاب "Making of English Working Class" ہے۔
اس کتاب میں اُس نے صنعتی انقلاب کے بعد ہونے والی تبدیلیوں کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے ورکنگ کلاس وجود میں آئی۔ اُس نے لندن اور انگلستان کے صنعتی شہروں میں کاریگروں اور دستکاروں کا سروے کیا ہے۔ اُن کی تجارتی اور کلچرل سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مزاحمتی تحریکوں پر بھی تحقیق کی ہے۔ اس کتاب کی اشاعت میں ورکنگ کلاس کی تاریخ میں ایک نئے رجحان کا اضافہ کیا اور اس کے بعد جنوبی امریکا کے ملکوں میں ورکنگ کلاس کی تاریخ لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ کتاب عوامی تاریخ نویسی میں ایک ایسی بنیاد بنی جس نے ورکنگ کلاس کو تاریخ کا حصہ بنا کر اُن کی محنت و مشقت کو روشناس کرایا۔ اس کی وجہ سے اُنہوں نے معاشرے میں عزت و احترام کا مقام حاصل کیا۔