نبوت کی آخری کڑی کی حیثیت سے آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ سب کے آخر میں تشریف لائے جن کا ارشاد تھا کہ:
"میں نبوت کی عمارت کا آخری پتھر ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ "
ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا وہ آخری کلام جس میں انسان کے ہر شعبہ زندگی کی رہبری کردی گئی ہے اور جو حضور ﷺ پر وحی کی صورت میں نازل ہوا، یعنی قرآن حکیم اور اسی کے ساتھ ساتھ دین و شریعت کی تکمیل کا مقصد و مژدہ بھی سنادیا گیا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب دین مکمل ہوگیا اور نبوت کے خاتمے کا اعلان بھی کردیا گیا، تو وہ انسانی گروہ جو اس کا نام لیوا ہے اور جسے عرف عام میں مسلمان کہا جاتا ہے اس کا کیا کام باقی رہ گیا؟ اور اس کا مقصد زندگی کیا قرار پایا؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ مسلمان جو خدا کا شکر ہے کہ آج ایک ارب کی کثیر تعداد سے متجاوز ہوکر روئے عالم کے چپہ چپہ میں پھیلے ہوئے ہیں، اتباع سنت اور اسوہ حسنہ کا پہلے خود نمونہ بنیں، پھر اس کی طرف دوسروں کو راغب کریں۔
اگر مسلمانوں کے شب و روز معاشی اور اقتصادی سرگرمیوں میں صرف ہوتے ہیں اور دنیاوی جھمیلوں کو ہی وہ اپنا مقصد زندگی سمجھ لیتے ہیں تو ان کی توحید و رسالت سے صرف نام کی وابستگی کے کوئی معنی نہیں۔ اسی طرح صرف اپنی دنیا اور آخرت کی فکر کے بجائے ضروری یہ ہے کہ اپنی اصلاح کے ساتھ ساتھ دوسروں کی اصلاح و فلاح کی ذمے داری بھی اپنائی جائے۔
حضرت مولانا محمد الیاسؒ نے "اصلاح و تبلیغ" کے نام سے دہلی کو مرکز بناکر آج سے تقریباً 70 سال قبل جو محنت شروع کی تھی اور جو اب پوری دنیا میں پھیل چکی ہے وہ نہ صرف قرآن و حدیث پاک سے ثابت ہے بلکہ یہ کام اور اس کا یہ نام، نیز امت مسلمہ کی یہ ذمے داری اور ڈیوٹی بھی ثابت ہے۔ قرآن کریم کی ان آیات پر توجہ دیجیے:
"اور جو چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت جو دعوت دیتی رہے، نیک کام کی طرف، اور حکم کرتی رہے اچھے کاموں کا اور منع کرے برائی سے۔ " (سورۃ النسا: پارہ 4)
"بلا اپنے رب کی راہ پر، پکی باتیں سمجھا کر اور بھلی طرح نصیحت کرکے۔ " (پارہ 14)
"اے رسول! تبلیغ کرو اس چیز کی، جو تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ " (پارہ 6)
ان آیات میں سے پہلی اور دوسری آیتوں میں دعوت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تیسری آیت میں تبلیغ کا لفظ ہے اور درج ذیل آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس امت کو اللہ تعالیٰ نے اچھائیوں کے حکم اور برائیوں سے روکنے کے لیے برپا کیا ہے جیساکہ:
ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، جیساکہ اس کا حق ہے۔ "
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ دعوت و تبلیغ کا کام دراصل کار نبوت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کام انبیا علیہ السلام سے ثابت ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس زمانے میں جو لوگ اس کام کو انجام دے رہے ہیں، وہ نبی ہیں بلکہ مذکورہ فقرہ سے صرف اس قدر بتانا مقصود ہے کہ یہ کام نبی علیہ السلام کی سنت اور طریقہ کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے۔
اسی طرح دعوت و تبلیغ، مسلم اور غیر مسلم سب میں ہونی چاہیے اور پارہ 6 کی آیت میں گزر چکا ہے کہ "اے رسول! تبلیغ کریں اس چیزکی جو آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے۔ "
یہاں "نازل کی گئی" سے مراد قرآن کریم ہے جس میں حسب ذیل تین طرح کی آیتیں ملتی ہیں، ایک تو وہ آیتیں ہیں جن میں عام انسانوں سے خطاب کیا گیا ہے جیسے کہ:
"اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو، جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ " (البقرہ)
دوسری وہ آیتیں ہیں جن میں کافروں سے خطاب کیا گیا ہے۔ جیسا کہ یا ایھا الکافرون، تیسری وہ آیتیں ہیں جن میں ایمان والوں کو مخاطب کیا گیا ہے جیساکہ :
ترجمہ: "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو، جیساکہ اس کا حق ہے۔ "
رسول پاک ﷺ کا معمول تھا کہ آپ عام انسانوں کو عام انسانوں والی آیتیں سناتے تھے اور مومنوں کو مومنین کی آیتیں سناکر تبلیغ فرماتے تھے۔ موجودہ تبلیغ میں آخرالذکر سنت پر ہی عمل ہو رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ تبلیغ معمولی پڑھے لکھے اور جاہلوں کا کام نہیں، مگر ایسے وقت میں جب کہ بد دینی کی ہوائیں چل رہی ہوں، تو اس عظیم کام کو محض اس لیے چھوڑ دینا کہ علما، فقہا اور دوسرے باصلاحیت افراد گم ہیں، دانشمندی نہیں۔ پھر یہ مجبوری اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ جو لوگ علم رکھتے ہیں، تربیت یافتہ ہیں، صاحب سلیقہ ہیں، وہ امت کی گمراہی کا درد محسوس کریں۔ اس کے برعکس صرف نکتہ چینی کرنا، جوکچھ ہو رہا ہے اس میں خلل ڈالنا، شریعت کی مصلحت اور منشا کے اور بھی زیادہ خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مجھ سے پہنچاؤ آگے، اگرچہ وہ آیت ہی کیوں نہ ہو" تو جو جتنا جانتا ہے اتنا دوسروں کو آگے پہنچانے کا مکلف ہے۔
پورے دین کی تبلیغ کے لیے شریعت کا پورا علم ضروری ہے، لیکن جتنی بات وہ جانتا ہو، اتنے کی تبلیغ کے لیے پوری شریعت کی معلومات ضروری نہیں ہے۔ پھر یہ محنت تو صرف اس لیے ہوتی ہے کہ عوام الناس میں صرف دین کا شوق اور طلب پیدا ہوجائے، اصل طاقت تو اللہ تعالیٰ کی ہے جس سے چاہے اپنا کام لے لے۔
تجربہ شاہد ہے کہ پورا دین نہ جاننے کے باوجود جب لوگ دین و ایمان کی آواز بلند کرتے ہیں تو خود آواز لگانے والوں کی بھی زندگی سدھرنے لگتی ہے اور سننے والوں میں بھی دین و ایمان کا ذوق پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر یہی شوق بے دینی کی زندگی کو دینداری کی لائن پر ڈال دیتا ہے۔
مثلاً کسی کے گھر میں آگ لگ گئی، اور گھر والا فوری طور پر یہ سمجھ نہ پائے کہ آگ پر کس طرح قابو پایا جائے، تو اس وقت اس کو صرف یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ آگ بجھنی چاہیے، چنانچہ وہ آگ بجھانے کے لیے آواز لگاتا ہے۔ "لوگو! دوڑو آگ بجھاؤ" ظاہر ہے کہ اس کا یہ عمل قطعی فطری ہوتا ہے جس پر کسی طرح کا اعتراض حق بجانب نہیں۔ آج پوری امت میں بے دینی اور دنیا پرستی کی آگ لگی ہوئی ہے اور اتنا ہوش تو تقریباً ہر مسلمان کو ہے کہ ہماری زندگی دین وایمان کے اعتبار سے کافی دور ہوگئی ہے۔
دین سے دوری کے اس شدید احساس سے بے چین ہوکر جو لوگ خواہ وہ بے عمل مسلمان ہی کیوں نہ ہوں، جب آواز لگا رہے ہیں تو ان کی آواز اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ پوری امت مسلمہ کی زندگی سے دین و ایمان کا خاتمہ ہو۔ یہی اصلاح و تبلیغ کا مقصد ہے۔