روحانی زندگی کے کمال کی جیتی جاگتی مثالیں اولیا کرام ہی کے نفوس قدسیہ میں ملتی ہیں۔ شخصیت کی نشوونما میں جتنا عمل دخل ان برگزیدہ ہستیوں کے اثر و نفوذ کو ہے اورکسی چیز کو نہیں۔ اولیا کرام کے حالات کا مطالعہ ہی عمدہ اور پسندیدہ سیرت پیدا کرنے میں تیر بہ ہدف نسخہ کیمیا ہے۔ اولیا کرام بلاشبہ نہ صرف صاحب کرامت ہوتے ہیں بلکہ صاحب علم و عمل بھی۔ خوف خدا، اللہ کی رضا، اندیشہ آخرت، تقویٰ اور طہارت کی سعادت ان کو حاصل ہوتی ہے۔
انھی اوصاف حمید کی بدولت مخلوق خدا ان کی طرف کھنچی چلی آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے ان نیک بندوں میں بلا کی جاذبیت اور غضب کی دل کشی اور مقناطیسی کشش پیدا کر دیتا ہے۔ یہی وہ پاک نفوس ہیں جنھیں اللہ کی راہ میں فنا ہوکر بقا ملتی ہے۔ تحمل اور توکل و قناعت ان کی دولت ہوتی ہے۔ نامساعد حالات میں رہ کر بھی تسلیم رضا اور سجدہ شکر بجا لانا ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ آزمائشوں اور امتحان خداوندی میں استقامت اور ثابت قدمی انھی کو عطا ہوتی ہے۔ یہ ہرکس و ناکس کے مقدر میں کہاں۔
یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
اللہ کی زمین کبھی ولایت کے نور سے بے نور نہیں رہتی۔ یہی وجہ ہے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے۔
سیدنا شیخ عبدالقادرجیلانیؒ ظاہری علوم و فنون کے ہر شعبے میں کامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے علم و عرفان میں آپ کو وہ درجہ عطا فرمایا تھا جو آپ کے بعد کسی کو نہیں دیا۔ وہ سراپا ایمان و ایقان تھے۔ اسلام کے داعی اکبر تھے۔ کتاب و سنت آپ کی فکر و نظر، وعظ و ذکر کا مرکز و محور تھے۔ حضرت کا اصل کمال سوز و یقین، حضور و شہود اور سنت و ملت محمدی سے والہانہ عشق و شیفتگی، دل سوزی اور خلق اللہ کے لیے بے پناہ محبت و شفقت عقیدت کا جذبہ ہے۔
اولیا اللہ نے آپ کی ولایت کی نوید مسرت آپ کی والدہ سے پہلے دے دی تھی۔ قطب دوراں شیخ ابو بکرؒ بن ہوار نے ایک دن مجلس میں شیخ غراز سے کہا "عراق میں ایک ایسا مرد خدا پیدا ہوگا جو اللہ اور اس کے بندوں کے نزدیک انتہائی رتبہ کمال کا حامل ہو گا۔ اس کی رہائش بغداد میں ہو گی۔ وہ کہے گا کہ میرا قدم ہر ولی کی گردن پر ہے۔ اس کے زمانے کے اولیا اس کی بات مانیں گے۔ آپ کا گھرانہ جدی پشتی بزرگان دین کا گھرانہ تھا، لوگوں کے ولی ہونے کے احساس کے سوال کا جواب دیتے آپ نے فرمایا "میں دس سال کا تھا۔ جب میں مدرسہ جاتا تو میرے استاد میرے ساتھیوں سے کہا کرتے تھے "ولی کے لیے جگہ فراخ کردو تا کہ وہ بیٹھ سکے۔"
ایک بار کسی شخص نے آپ سے کہا کہ لوگ آپ کو محی الدین کہتے ہیں۔ اس پر شیخ عبدالقادر جیلانی نے اس شخص کو اس کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے فرمایا "ایک روز میں نے ایک انتہائی بیمار اور لاغر شخص کو دیکھا جو کمزوری اور لاغری کے باعث اپنے قدموں پر کھڑا بھی نہیں ہو سکتا تھا۔ اس شخص نے مجھے قریب آنے کے لیے کہا۔ جب میں قریب گیا تو اس شخص نے کہا کہ آپ مجھے بٹھا دیجیے۔
میں نے انھیں احتیاط کے ساتھ زمین پر بٹھا دیا۔ جس کے ساتھ ہی اس شخص کا جسم تندرست و توانا ہو گیا۔ میری حیرانی اور پریشانی دیکھ کر وہ شخص بولا عبدالقادر! میں دین ہوں۔ شاید تم مجھے پہچان نہیں سکے۔ میری حالت بہت خراب ہو چکی تھی مگر آپ کی وجہ سے مجھے نئی زندگی میسر آگئی ہے۔ میں اس شخص کو چھوڑ کر مسجد میں آ گیا تو وہاں ایک شخص ملا اور بولا "میرے سردار محی الدین" پھر تھوڑی دیر بعد جب میں نماز سے فارغ ہوا تو لوگ عقیدت و احترام کے جذبے سے میری جانب بڑھنے لگے وہ میرے ہاتھ چومتے اور بلند آواز میں کہتے اے محی الدین! تم پر سلامتی ہو۔
آپ نے کہا کہ اس واقعے سے قبل کسی نے مجھے محی الدین کے نام سے مخاطب نہیں کیا تھا۔ آپ کی زبان کی تاثیر سے لاکھوں انسانوں کو نئی ایمانی زندگی ملی۔ مردہ دل زندہ ہو گئے۔ آپ کا وجود اسلام کے لیے نشاۃ ثانیہ اور موسم بہار تھا۔ آپ نے فرمایا "میرے ہاتھ پر پانچ ہزار سے زائد یہودی اور عیسائی مشرف بہ اسلام ہوئے۔ چوروں، ڈاکوؤں، لٹیروں، سیاہ کار لوگوں میں سے ایک لاکھ سے زائد نے توبہ کی۔
ایک دفعہ ہزاروں افراد کی مجلس سے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ چبوترے سے نیچے اترے اور شیخ علی بن الہیتی کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ چند لمحوں بعد شیخ علی بن الہیتی نیند سے بیدار ہوئے۔ آپ نے ان سے پوچھا "کیا تم نے آنحضرت ﷺ کو خواب میں دیکھا ہے؟"۔۔۔۔۔"ہاں دیکھا ہے" اس پر آپ نے فرمایا اسی لیے میں تمہارے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوں۔ شیخؒ نے پھر پوچھا تم سے حضورؐ نے کیا ارشاد فرمایا۔ شیخ الہیتیؒ نے کہا کہ مجھے آپ کی خدمت کے لیے کہا گیا ہے۔ اس واقعے کے بعد آپ بے حد محبوب سبحانیؒ کی تعظیم و تکریم کرتے تھے کیونکہ میں نے جو کچھ خواب میں دیکھا شیخ عبدالقادر ؒ نے وہی کچھ عالم بیداری میں دیکھا۔
شیخ عمر بزاز کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں عبدالقادر جیلانیؒ کے ساتھ نمازجمعہ کے لیے جا رہا تھا۔ راستے میں کسی شخص نے آپ کو سلام تک نہ کیا۔ حالانکہ اس کے برعکس پہلے آپ جس گلی کوچے سے گزرتے تھے ہجوم آپ کی زیارت کے لیے امنڈے چلے آتے تھے۔ میں بہت حیران ہوا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔ ابھی میں دل کی بات زبان پر لایا بھی نہ تھا کہ شیخؒ میری طرف دیکھ کر مسکرائے جس کے ساتھ ہی ہر سمت سے لوگ سلام و زیارت کے لیے امڈ پڑے۔ پھر عبدالقادر جیلانیؒ نے میری طرف دیکھ کر فرمایا کیوں بزاز تمہاری یہی خواہش تھی۔ تمہیں شاید علم نہیں کہ اللہ کے فضل و کرم سے لوگوں کے دل میری مٹھی میں ہیں اور جب چاہوں انھیں اپنی طرف پھیر لوں۔
سیدنا غوث پاک کی کرامات کی کثرت پر تمام مورخین کو مکمل اتفاق ہے۔ شیخ علی بن ابی نصرالہیتیؒ کا بیان ہے کہ انھوں نے اپنے زمانے میں کسی شخص کو شیخ عبدالقادر جیلانی سے بڑھ کر صاحب کرامت نہیں دیکھا۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کے والد لاولد تھے۔ ان کی بیوی حضرت غوث اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ سے اولاد کے لیے دعا کرنے کی درخواست کی۔ شیخؒ نے ان کے حق میں دعا کرنے کے بعد فرمایا "اللہ تعالیٰ بہت جلد تمہیں بیٹا عطا کرے گا۔ قدرت خدا کی دیکھئے کہ ولادت تو ہوئی مگر بیٹے کی جگہ بیٹی پیدا ہوئی۔ جب اس بات کی اطلاع آپ کو پہنچائی گئی تو مطلع کرنے والے سے کہا "اچھی طرح جاکر دیکھو وہ لڑکا ہے لڑکی نہیں ہے۔ گھر جاکر دیکھا گیا تو واقعی لڑکا تھا۔ پھر آپؒ نے اس لڑکے کا نام شہاب الدین تجویز فرمایا اور کہا کہ اللہ کے فضل سے یہ طویل عمر پائے گا اور اپنے وقت کا بزرگ کامل ہو گا۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے فرمان کے مطابق شہاب الدینؒ اپنے وقت کے ولی ثابت ہوئے اور انھوں نے طویل عمر پائی۔
علامہ اقبال کا یہ شعر آپ کی ذات پاک پر صادق آتا ہے:
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
آپ کی کرامات دیکھ کر یہ کہنا سچ ہے کہ دعا تقدیر بدل دیتی ہے۔ (الحدیث)
ایک دفعہ دریا دجلہ میں زبردست سیلاب آیا اور پانی دریا کے کناروں سے اچھل کر بغداد کی جانب بہنے لگا۔ اہل بغداد گھبرا گئے اور سیدنا غوث اعظم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دعا کے لیے التجا کی۔ حضرت غوث پاکؒ نے اسی وقت اپنا عصا لیا اور لوگوں کے ساتھ چل دیے۔ دریا کے کنارے پہنچ کر انھوں نے اپنا عصا وہاں گاڑ دیا اور فرمایا بس یہیں رک جا۔ اس کے ساتھ ہی طغیانی تھم گئی اور سیلاب کا پانی اترنا شروع ہو گیا اور دریا کا بہاؤ معمول پر آگیا۔
یہ ہے غوث پاک کے حالات، واقعات، کمالات اور کرامات کی ایک مختصر سی جھلک۔ ورنہ "سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے۔"