اس کرۂ ارض پر حضرت انسان نے اپنے قیام کے عرصے میں خطرناک ارتقائی سامان جمع کرلیا ہے، جیسے جارحیت اور رسم پرستی کی طرح موروثی رجحان، رہبروں کی اطاعت اور غیر ملکیوں سے معاندانہ رویہ وغیرہ۔ اس طرز عمل نے ہماری بقا کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
ذرا غورکیجیے تو ہر سوچنے سمجھنے والا شخص ایٹمی جنگ سے خوف کھاتا ہے اور پھر بھی ہر تکنیکی ریاست اس کی منصوبہ بندی کرتی ہے، ہر ایک جانتا ہے کہ یہ پاگل پن ہے اور اس کے باوجود ہر قوم کے پاس اس کا عذر موجود ہے۔ یہ عذر خواہی کا ایک بڑا بے کیف سلسلہ ہے۔
مثال کے طور پر جرمن ایٹم بم کی تیاری پر دوسری جنگ عظیم کے آغاز سے ہی کام کر رہے تھے، لہٰذا امریکیوں کو جرمنوں کے مقابلے میں پہل کرنا پڑی۔ جب امریکیوں نے ایٹم بم بنایا تو روسی کیوں پیچھے رہتے؟ اور پھر برطانیہ، فرانس، چین، اسرائیل، بھارت، پاکستان، ایران اور شمالی کوریا غرض کہ اکیسویں صدی کے آغاز تک کئی اقوام نے ایٹمی ہتھیار جمع کرلیے ہیں۔ ان ہتھیاروں کو تیار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، انشقاق پذیر مادہ، تابکاری کی حامل اشیا سے ملتا ہے اور وہ حاصل کرلیا گیا ہے۔ یوں ایٹمی ہتھیار تقریباً گھریلو دستکاری بن چکے ہیں اور ایک گھریلو دستکار صنعت کا درجہ اختیارکرتے جا رہے ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے روایتی بم، بلاک بسٹرزکہلاتے ہیں۔ 20 ٹن ٹی این ٹی سے بھرے ہوئے یہ بم شہر کا ایک پورا محلہ تباہ کرسکتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم میں جتنے شہروں پر بم گرائے گئے ان میں کل دو میگا ٹن ٹی این ٹی استعمال ہوئی، چاہے کوئی وینٹری ہو یا روٹر ڈیم، ڈریسٹرن ہو یا ٹوکیو، جتنی اموات 1939 سے 1940 کے درمیان آسمان سے برسیں، وہ دو میگا ٹن آتشیں اسلحہ یا ایک لاکھ بلاک بسٹرز تھے۔
بیسویں صدی کے آخر میں ایک عام تھرمو نیوکلیئر دھماکے میں دو میگاٹن، ٹی این ٹی بھری جانے لگی، یعنی صرف ایک بم میں پوری، دوسری جنگ عظیم کی تباہی۔ لیکن اب تو ہزاروں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی امریکا کے جنگی میزائل اور بم بار قوتیں اپنے لیے پندرہ ہزار طے شدہ ہدف رکھتی ہیں۔
اس نازک سیارے پر کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ موت کے جن صرف چراغ رگڑے جانے کے منتظر ہیں۔ ان ہتھیاروں میں کل توانائی دس ہزار میگا ٹن سے بھی کہیں زیادہ ہے اورکل آتشیں اسلحہ محض چندگھنٹوں میں تقسیم ہونے کے لیے تیار ہے، یعنی اس سیارے کے ہر خاندان کے لیے ایک بلاک بسٹر، ایک آرام دہ دوپہر کے ہر سیکنڈ میں ایک دوسری جنگ عظیم چھپی ہے۔
ایٹمی حملے سے آنے والی موت کے فوری اثرات آتشیں جھونکے کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں، جو کئی کلومیٹر تک بڑی مضبوط اور قوی البنیاد عمارات کو زمین بوس کر دیتے ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ اثرات گیما شعاعوں، آتشیں طوفان اور نیوٹران کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، جو ارد گرد کے تمام انسانوں کو جلا کر بھسم کر دیتے ہیں۔
موجودہ حالات کے مطابق یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہر 5 منٹ بعد ایک فرد قتل ہوتا ہے، انفرادی ہلاکتیں اور بڑی جنگیں دراصل ایک ہی تصویرکے دو رخ ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ جنگ دراصل بڑے پیمانے پر قتل کی بھی ایک شکل ہے۔ جب ہمارے مفادات کوکوئی نقصان پہنچتا ہے یا کوئی پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، جب ہماری بہبود کوکوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے یا جب اپنے بارے میں ہمارا مثالی بھرم ٹوٹتا ہے تو ہم غضب ناک ہوکر قتل و غارت گری پر اتر آتے ہیں۔ جب ان حالات کا اطلاق قوم پر ہوتا ہے تو وہ بھی اسی طرح کر دیتی ہے اور یوں سر برآوردہ لوگ اسے دو آتشہ کرکے طاقت یا فوائد حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے قتل وغارت گری پر اتر آتے ہیں۔
جب ان حالات کا اطلاق قوم پر ہوتا ہے تو وہ بھی اسی طرح کر دیتی ہے اور یوں سر برآوردہ لوگ اسے دو آتشہ کرکے طاقت یا فوائد حاصل کرتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے قتل و غارت گری کی ٹیکنالوجی روزبروز ترقی کرتی جا رہی ہے، جنگ کے نقصانات بھی اتنی شدت سے بڑھتے جا رہے ہیں۔ یوں ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ قیامت صرف چند عشرے ہی دور ہے اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے نشانہ باز نظام ایک روز ہمیں ضرور عالمی تباہی اور بربادی سے دو چارکریں گے، ان ہی کی بدولت آج کل انسانیت کرۂ ارض پر مکمل طور پر ایٹمی یرغمال بن چکی ہے۔
آج جو حالات ہیں، اسی حساب سے کسی بڑی روایتی جنگ کے برپا ہونے کے لیے زیادہ افراد کا طیش میں آنا ضروری ہے کیونکہ تمام ذرایع ابلاغ حکومت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں، لہٰذا لوگوں کو غصہ دلانا بھی کوئی مشکل کام نہیں۔ البتہ غیر روایتی جوہری جنگ میں ان تمام عوامل کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر اس میں صرف چند سربرآوردہ افراد ہی غصے میں آجائیں تو جنگ کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔
اگرچہ ایٹمی وجنگی جنون نے ہماری بقا کو مکمل طور پر خطرے میں ڈال دیا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم نے دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنا، اپنے بچوں اور ان کے بچوں سے بھی محبت کرنا، تاریخ سے سبق حاصل کرنا اور ایک بھرپور ذہانت کو اعلیٰ مقام تک بلند کرنا بھی سیکھا ہے اور یہ تمام وہ اوزار ہیں جو ہماری مستقل بقا اور خوش حالی کے لیے لازمی ہیں۔ ہماری فطرت کا کون سا رخ فتح پائے گا؟ یہ کہنا ذرا مشکل ہے۔
قومیں ایک دوسرے سے مشترکہ عدم اعتماد کے سبب اس طرح ایک ہولناک تباہی کی طرف بڑھ رہی ہیں کہ نہ انھیں زندگی کی کوئی پرواہ رہ گئی ہے اور نہ ہی اس نازک نیلگو سیارے کی۔ کیونکہ ہم اس قدر بھیانک کھیل کھیل رہے ہیں لہٰذا اس بارے میں سوچتے بھی نہیں اور جس پہلو پر ہم سوچیں گے نہیں، اس کی بھلا اصلاح کیسے کریں گے؟ ہم کہتے ہیں کہ ہم نے ترقی کی ہے۔ کیا واقعی ہم نے ترقی کی ہے؟ کیا ہم نے عقل سے جنون کو باندھ دیا ہے؟ کیا ہم نے حقیقتاً جنگ کے اسباب کا جرأت مندانہ جائزہ لیا ہے؟ ہم اپنی ابھرتی ہوئی تہذیب پر ایک ایٹمی جنگ اور ہولناک اور عبرتناک عالمی تباہی مسلط کر دینے پر تلے بیٹھے ہیں توکیا ہمیں ایک انتشار آمادہ معاشرے کی تعمیر نوکے بارے میں سنجیدگی سے نہیں سوچنا چاہیے۔ مجھے یہاں ایچ جی ویلزکی بات یاد آرہی ہے، اس نے کیا خوب کہا کہ "ہمارا انتخاب یا توکائنات ہوگی یا کچھ بھی نہیں۔ "
چند لاکھ سال پہلے اس کرہ ارض پر انسان آباد نہ تھے۔ آج سے چند لاکھ سال بعد یہاں کون ہوگا؟ کیا ہم پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں؟ جی نہیں۔ قطعی نہیں!
ہماری وفاداری کا رشتہ اس سیارے سے اور اس پر آباد مخلوق سے استوار ہے، نہ صرف اپنے واسطے نبھانا ہے بلکہ اس مادر ارض کے لیے بھی جس کی قدیم اور وسیع کوکھ سے ہم نے جنم لیا ہے۔ یہ کرہ ارض نعمت خداوندی ہے۔ انسان کے لیے اس زمین پر بے شمار نعمتیں نازل کی گئی ہیں۔ اس بمبوں سے زہر آلود نہ کریں۔