میں گذشتہ کالم کشمیر کا مستقبل میں اس امر پر استدلال دے چکا ہوں کہ بھارت فلسطین کی کہانی کشمیر میں بھی دہرانا چاہتا ہے بھارت کا مقصد یہ ہے کہ آرٹیکل 35A یا آرٹیکل 370 کو ختم کرکے بھارتیوں کو وہاں پر پراپرٹی خریدنے کی اجازت دے دی جائے، پھر وہاں پر انڈیا کے لوگوں کو سرکاری جاب آفر کی جائیں اور شہریت دے کر ووٹ کا حق بھی دیا جائے۔
آسان زبان میں کشمیر میں ہندو آبادی میں اضافہ کیا جائے کیونکہ انڈیا تب تک کشمیر حاصل نہیں کرسکتا جب تک ریفرنڈم کروا کر وہاں کی عوامی رائے میں بھارتی اکثریت حاصل نہیں کرلیتا اور آرٹیکل 35A میں ترمیم ایک طرح کا طبل جنگ ہے جو بھارت نے بجا دیا ہے، اب اگر عالمی طاقتیں اس پر خاموش تماشائی بنی رہیں تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ بھارت نے یہ کام امریکا و اسرائیل کے زیر سایہ ہی کیا ہے۔
غزوہ ہند اور ہماری غلط فہمیاں۔
میں نے سوچا کہ پاکستانیوں کی غزوہ ہند کے بارے میں چند خوش فہمیوں اور بہت سی غلط فہمیوں کی نشاندہی کردوں۔ احادیث کی روشنی میں یہ تو ثابت ہوگیا کہ غزوہ ہند برحق ہے اور ضرور برپا ہوگی۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس جنگ کو غزوہ آخرکیوں کہا گیا۔ غزوات تو نبی کریمؐ کی زندگی میں ختم ہوچکے اور غزوہ اس جنگ کوکہا جاتا ہے جس میں نبی کریمؐ بنفس نفیس موجود ہوں۔
نبی کریمؐ کے بعد صحابہ کے دور سے لے کر اب تک کسی جنگ کو غزوہ نہیں کہا گیا حتیٰ کہ امام مہدی کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگوں کو الملاحم کہا گیا ہے غزوہ نہیں۔ ہند کی جنگ کو غزوہ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اس میں نبی کریمؐ روحانی طور پر خود سرپرستی فرمائیں گے۔ بہرحال غزوہ ہند کے بارے میں ہم ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکارہیں جسے دورکرنا بہت ضروری ہے سب سے پہلے یہ بات سمجھ لیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی ہر جنگ غزوہ ہند نہیں ہے۔ نہ تو پینسٹھ اور اکہتر والی جنگیں غزوہ ہند تھیں اور نہ ہی اب اگر کوئی جنگ چھڑی تو وہ غزوہ ہند ہوگی۔
بقیہ بن الولید، صفوان سے وہ اپنے بعض مشائخ سے وہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ" ضرور تمہارا ایک لشکر ہندوستان سے جنگ کرے گا اللہ ان مجاہدین کو فتح عطا کرے گا حتیٰ کہ وہ ان ہندوؤں کے بادشاہوں کو بیڑیوں میں جکڑکر لائیں گے اور اللہ ان کی مغفرت کرے گا پھر جب مسلمان واپس جائیں گے تو عیسیٰ ابن مریم کو شام میں پائیں گے۔ "
ابوہریرہ ؓ نے کہا اگر میں نے اس جنگ کو پایا تو نیا، پرانا مال سب بیچ کر اس میں شامل ہوں گا پس جب اللہ فتح دے گا اور ہم واپس ہوں گے تو میں عیسیٰ کو شام میں پاؤں گا، اس پرمیں با شوق ان کو بتاؤں گا کہ میں اے رسول اللہ آپ کے ساتھ تھا۔ اس پر رسول اللہؐ مسکرائے اورہنسے اورکہا بہت مشکل مشکل۔ (کتاب الفتن نعیم بن حماد)
ہند کے بارے میں احادیث اور امام مہدی کے دورکے بارے میں احادیث کے مطالعے سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ غزوہ ہند بعین اس وقت برپا ہوگی جس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا وقت قریب قریب ہوگا۔ آپ اس کو ایک مثال سے ایسے سمجھ لیں کہ اگر فرض کریں حضرت امام مہدی کی خلافت دو ہزار بیس میں قائم ہو تو اس حساب سے غزوہ ہند دوہزار پچیس سے دو ہزارستائیس کے درمیان برپا ہوگی: (یہ صرف مثال دینے کے لیے سال بتایا گیا ہے حقیقت میں کب ہوگا یہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ )
نعیم بن حماد کی کتاب الفتن میں موجود حدیث کے مطابق غزوہ ہند میں مسلمان جب ہندوستان کے حکمرانوں کو زنجیروں میں جکڑ کر لائیں گے اس وقت وہ شام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پائیں گے۔ جب شام میں امام مہدی کی قیادت میں الملحمۃ الکبریٰ برپا ہوگی اور وہاں مسلمان اس عظیم ترین سعادت سے مستفید ہو رہے ہوں گے تو یہاں مشرقی جانب کے مسلمان کہیں اس عظیم سعادت سے محروم نہ رہیں تو ان کے لیے اللہ پاک نے بالکل اسی دور میں غزوہ ہند کا تحفہ رکھا کہ یہاں کے مسلمان اپنے پیارے نبیؐ کی روحانی قیادت و سرپرستی میں افضل ترین جہاد اور افضل ترین شہادت کی سعادت حاصل کرسکیں۔ اسی لیے اسے غزوہ ہندکہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پاک بھارت کے درمیان ہونے والی کسی بھی اور جنگ کو جہاد عظیم توکہا جا سکتا ہے غزوہ ہند کہنا کسی صورت بھی درست نہیں۔
دوسری ایک اہم بات بتاتا چلوں کہ کوئی بھی عظیم سعادت آزمائش کی بھٹی سے گزر کرکندن بنے بغیر نہیں ملتی۔ اگر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ فیس بک پر بیٹھ کر انگلیاں چلا کر ظلم و ستم بھرے نظام میں اپنا حصہ ڈال کر، سود کھا کر، جھوٹ بول کر، ظلم دیکھ کر خاموش ہوکر، ملاوٹ کرکے، ناپ تول میں کمی کرکے، نمازیں غارت کرکے، فلمیں گانے اور ناچ گانے کرکے، شرابیں پی کے اور دنیا کا ہر برا کام کرکے بھی غزوہ ہند کی سعادت نصیب ہوجائے گی تو ان لوگوں سے بڑا بے وقوف اورکوئی نہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جہاں چھوٹی معصوم بچیوں کو گینگ ریپ کے بعد قتل کر دیا جاتا ہو اور ظلم وستم کا نظام اسی طرح قائم و دائم رہے، ظالم دندناتا پھرے اور عوام خاموش تماشائی بنے رہیں۔
کیا ایسی قوم اس قابل ہے کہ اسے غزوہ ہند جیسی عظیم سعادت سے نوازا جائے؟ ہرگز نہیں۔ آپ اس وقت فلسطین، شام، عراق وغیرہ کا حال دیکھ لیں۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو امام مہدی اور ملاحم کے لیے آزمائش کی بھٹی میں ڈال کر کندن بنا رہا ہے تاکہ جب جہاد عظیم کا وقت آئے تو صرف پاک صاف اور اخلاص والے لوگ ہی اس سعادت کا حصہ بنیں۔ ایسا ہی کچھ یہاں پر غزوہ ہند سے پہلے ہوکر رہے گا، بالکل ویسا نہ سہی لیکن اس قوم کو ایک زبردست قسم کی مار پڑکے رہے گی اور غزوہ ہند میں کرینہ، قطرینہ، عالیہ وغیرہ کو حاصل کرنے کے خواب دیکھنے والے فیس بکی مجاہد اس بھٹی میں ڈال کر ضرورجلائے جائیں گے یہاں تک کہ صرف اخلاص والے باقی رہ جائیں اور وہ قوم تیار ہوجائے جو اپنے نبیؐ کی روحانی قیادت و سربراہی میں غزوہ ہند لڑنے کے قابل ہوجائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت بڑی نعمتوں سے نوازا ہے، اور ان سب نعمتوں میں بہت بڑی نعمت پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کے وہ نوجوان ہیں جو ہر وقت دشمن سے نمٹنے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔ یہ لوگ غزوہ ہند کے صف اول کے سپاہی ضرور ہیں لیکن عوام کی مجموعی بداعمالیاںپہلے ختم کی جانی چاہیے۔ وہ کون سا گناہ ہے جو پاکستان میں نہیں ہوتا؟ وہ کون سا ظلم ہے جو پاکستان میں نہیں ہوتا؟ پھر ہم میں ایسی کون سی خاص بات ہے جو ہمیں آزمائے بغیر ہی اتنی بڑی سعادت سے نوازا جائے؟ اللہ کا واسطہ ہے آنکھیں کھول لیں اس سے پہلے کہ آپ آنے والی سخت آزمائش میں سرخرو ہونے کی بجائے جل کر بھسم ہونے والوں میں شامل ہوجائیں اللہ اس ملک کی حفاظت کرے۔ (آمین۔ )
خطبہ حج میں کشمیر کا کوئی ذکر نہیں فرمایا گیا۔
ہمیں چند سوالات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
1۔ ہم نے آج تک فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کو بطور ریاست تسلیم نہیں کیا؟ اسرائیل کے ساتھ ہمارے سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں جب کہ عرب دنیا بھارت کے ساتھ شیر و شکر ہے جو حساسیت ہم فلسطین کے لیے رکھتے ہیں وہی حساسیت عرب دنیا کشمیر کے لیے کیوں نہیں رکھتی؟
2۔ کیا ہم امت کے سیاسی تصور اور نیشن اسٹیٹ کی نزاکتوں کو سمجھنے کے لیے تیار ہیں؟ امت کے نام پر ہمارے تارپود بکھیر دیے گئے لیکن امت کے علمبرداروں نے امت کے نام پر نہ کوئی ایڈونچر کیا نہ کسی ایسے چیلنج کو اپنی زمین پر آنے دیا جس کی شان نزول امت کا سیاسی تصور ہو۔ کیا ہم یہ بات سمجھ سکیں گے کہ یہ ملک اصل میں امت کے تصور پر نہیں کھڑا بلکہ جدید نیشن اسٹیٹ کے تصور پر کھڑا ہے اور امت کی بات وہ صرف اس وقت کرتا ہے جب اس کا ریاستی مفاد اس کا متقاضی ہو۔ جب وہ متقاضی نہ ہو تو انھیں امت سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔ لہٰذا غیروں سے شکوے شکایت بعد میں، پہلے اپنوں کا نوحہ پڑھ لیجیے۔