حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ ثانی کی خلافت ہر اعتبار سے لاثانی اورمثالی خلافت کی اول وآخر بہترین مثال ہے۔ آپ کی فکر و نظر میں خلافت و نیابت خدمت دین و ملت سے عبارت ہے۔ عدل گستری، رعایا پروری، مذہبی رواداری، حقوق العباد کی پاسداری، ذمیّوں کی حدِ اعتدال میں طرف داری آپ کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے رہنما اصول تھے۔
ایک دفعہ مصرکے گورنر عمرو بن العاص کے سرِ پُر غرور فرزند نے ایک شہری کو بلاجواز مارا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً باپ اور بیٹے کو لائن حاضر کرنے کا حکم دیا اور اس مظلوم کے ہاتھوں گورنر کے ظالم بیٹے کو پٹوایا۔ عزت نفس کی آزادی کی خوشبو سے مہکتے ہوئے یہ تاریخی الفاظ پھول کی پنکھڑیوں کی طرح زبان سے جھڑنے لگے۔
" تم نے لوگوں کو غلام کب سے بنا لیا؟ حالانکہ ان کی ماؤں نے انھیں آزاد جنا تھا۔"
اس کے بعد وہ مصری شہری سے فرمانے لگے "بغیرکسی خوف وخطرکے جاؤ اور اگر پھرکسی قسم کی زیادتی تم پرکی جائے تو فوراً مجھے مطلع کرنا۔" آپ کی نظر میں حکام اور عوام ایک ہی سطح پر ہوتے ہیں۔ عوام کو ایک درجہ فضیلت یہ حاصل ہوتی ہے کہ حکام، عوام کے خدام ہوتے ہیں۔ حکام کا کام خدمت، عوام ہے۔ زحمت، اذیت، ذلت ہرگز نہیں۔ آپ نے طرز حکومت سے یہ ثابت کر دیا کہ حاکم خادم اور محکوم مخدوم ہوتے ہیں حاکم کو عوام کی اس طرح خدمت کرنی چاہیے جس طرح ایک غلام اپنے آقا کی خدمت کرتا ہے۔ اسلامی طرز حکومت ہے اس کا نام کہ آقا بنے عوام اور حکام بنے غلام۔ آپ نے اس دعوے کو کئی بار دلیل دعویٰ کے طور پر عملی صورت میں پیش کیا کہ خدمت عوام، منصب حکام ہے۔
رزق کی فراہمی اسلامی حکومت کی ذمے داری ہے۔ اس کا دائرہ انسان سے لے کر حیوان تک محیط ہے۔ بفحوائے قرآن "ہر ذی حیات کے رزق کی ذمے داری خدا پر ہے۔" اسی طرح یہ ذمے داری اسلامی حکومت پر بطور نیابت عائد ہوتی ہے۔ آپ کی زبان سے نکلا ہوا، بصیرت میں ڈوبا ہوا یہ مہکتا جملہ اس حقیقت کا عکاس ہے۔ آپ نے فرمایا:
"اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر جائے تو قیامت کے دن عمرؓ کی پکڑ ہو گی۔"
آپ اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ اگر اقتصاد کا مسئلہ لاینحل رہے تو فساد پیدا ہوتا ہے۔ دنیا میں ہر قدم رکھنے والے ہر بچے کا معاشی بیمہ حکومت کا ذمے ہے۔ آپ نے ہر بچے کا روزینہ مقرر کیا جو عمر میں اضافے کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ ہر ذی شعورکی معاشی کفالت کی ذمے داری خلافت پر عائد ہوتی ہے۔ آپ نے آنے والی نسلوں کے روشن مستقبل اور معاشی خوشحالی کے پیش نظر مفتوحہ اراضی کو وقف کر کے حکومت کی تحویل میں دینے پر اراکین شوریٰ کو راضی کیا تا کہ کل، آج سے روشن تر اور بہتر ہو۔
جمہوریت اور شورائیت آپ کی حکمت عملی کے بنیادی ستون تھے۔ وہ آزادی کو انسان کا پیدائشی حق سمجھتے تھے۔ آپ نے عوام کوگیدڑ نہیں شیر، حق گو اور بے باک بنانے کی تربیت کی تا کہ کوئی غاصب ان کے اللہ کے عطا کردہ حقوق غصب نہ کر سکے۔ ان میں حکام کا احتساب اور ان پر جائز تنقید کے حوصلے کو خوب ابھارا، سنوارا اور نکھارا۔ آپ کی ذات والاصفات بھی عوامی احتساب اور نظر تنقید کی زد میں رہتی تھی۔ عوام، احتساب میں جس قدر جری ہوں گے اسی قدر حکومت برائی سے بری ہو گی اور جہاں یہ جذبہ سرد پڑا حکومت اور ملت دونوں کا خورشید بہت جلد زرد پڑا۔
حسن اقتدار میں بلا کی نزاکت ہے جو فرد و قوم کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے۔ عوامی احتساب کا جذبہ زندہ ہی حاکم اور حکومت کو برائیوں میں ڈوبنے سے بچا سکتا ہے۔ اس لیے آپ وقتاً فوقتاً عوام کو ان کا فرض یاد دلاتے رہتے تھے، تا کہ عوام کا شعور جاگتا رہے۔ ایک مرتبہ آپ نے کہا:
" مجھے تمہارے بیت المال میں صرف اس قدر حق ہے جس قدر یتیم کے مربی کو یتیم کے مال میں ہوتا ہے۔ لوگو! میرے اوپر تم لوگوں کے متعدد حقوق ہیں۔ جن کا تم کو مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے۔ یہ کہ ملک کا خراج اور مال غنیمت ناجائز طریقے سے جمع نہ کیا جائے۔ یہ کہ جب خراج اور مال غنیمت ہاتھ میں آ جائے تو بے جا طریقے سے خرچ نہ ہونے پائے۔ یہ کہ تمہارے روزینے بڑھاؤں اور سرحدوں کو محفوظ رکھوں۔ یہ کہ میں تمہیں خطروں میں نہ ڈالوں۔"
مندرجہ بالا بیان عمرؓ اس بات کے عکاس ہیں کہ حاکم عوام کے سامنے جواب دہ ہے وہ نہ صرف اس سے مواخذہ کر سکتے ہیں بلکہ مواخذہ کرتے رہنا چاہیے تا کہ دونوں سلامت رہیں۔ ایک دفعہ آپ عوام سے خطاب کرنے کھڑے ہوئے ایک مرد حق کھڑا ہوا اور کہا کہ تقریر سے پہلے اپنے قول و فعل میں تضاد کی وضاحت کریں۔ یہ قمیض جو آپ نے پہن رکھی ہے یہ وہی چادر ہے جو مال غنیمت میں سے ہر ایک کو صرف ایک ایک ملی تھی۔ ایک چادر میں ہماری قمیض نہیں بن سکی، آپ کی کیسے بن گئی۔ آپ اس کی بات پر چراغ پا نہیں ہوئے۔
نہ ہی بحیثیت فرمانروا توہین محسوس کی بلکہ زیر لب مسکرائے اور جواب کے لیے اپنے فرزند ارجمند عبداللہؓ کی طرف اشارہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ابا حضورکا کرتہ بوسیدہ ہو گیا تھا۔ اس لیے میں نے اپنے حصے کی بھی چادر انھیں دے دی، تا کہ آپ کی قمیض بن جائے۔ جب حق ظاہر ہو گیا اور شک دور ہو گیا تو اس شخص نے کہا کہ اب آپ حکم دیں آپ کے فرمان پر اب جان بھی قربان ہے۔ حاکم کو بارہ پیوند لگی قمیض پہنے دیکھیں تو کوئی غم نہیں لیکن ایک نئی قمیض پر خیانت کا وہم و گمان ہو تو خم ٹھوک کر کھڑے ہو جائیں۔ ایسی احساس زندہ شعور پایندہ قوم کے حقوق کو کون ہضم کر سکتا ہے؟
ایک دفعہ ایک ادنیٰ سا شخص دوران تقریر تلخ لہجے میں بولا "اے عمرؓ! اللہ سے ڈر! " آپ کے پروانے اس شخص کو مرنے مارنے پر اتر آئے۔ لیکن آپ نے کہا "خبردار! نہیں نہیں کہنے دو۔ اگر یہ لوگ نہ کہیں تو یہ بے مصرف ہیں اور ہم نہ سنیں تو ہم کم ظرف ہیں۔"
ایک مرتبہ آپ نے رعایا سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا "میری ذاتی رائے یہ ہے کہ حق مہر کی رقم کم کر دی جائے۔ یہ سننا تھا کہ ایک خاتون نے قرآن کے حوالے سے آپ کی تجویز کو یکسر مسترد کر دیا۔ کیونکہ اللہ نے مہر بصورت قنطار، عورت کا حق قرار دیا ہے۔ آپ نے فوراً اپنی رائے سے رجوع کرتے ہوئے خاتون سے معذرت چاہی۔
قیصر روم کا سفیر، 22 لاکھ مربع میل پر پھیلی ہوئی مملکت کے سربراہ کو فرش زمین پر اطمینان و سکون سے میٹھی نیند سوتے ہوئے دیکھ کر حیرت میں پڑ گیا اور بے ساختہ کہا:
"میرا آقا ظلم کرتا ہے، اس لیے خوف کے مارے پہرے کے بغیر کہیں نہیں سو سکتا، تم عدل کرتے ہو۔ اس لیے اتنے اطمینان و سکون سے سوتے ہو کہ کسی محافظ کی ضرورت نہیں۔"
ول رسول اطہر "الفقر فخری" پر حضرت عمرؓ زندگی بھر فخر کرتے رہے۔ آپ کی ساری عمر اس قول کے محور پر گردش کرتی رہی۔ اسی وصف خاص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، حضرت علیؓ نے آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کو قیامت تک آیندہ حکمرانوں کے لیے حجت بنایا ہے۔ خدا کی قسم وہ دونوں سبقت لے گئے۔ ان کی یاد امت کو مغموم اور حکام کو مطعون کرتی رہے گی۔"