مسلم و غیر مسلم ہر اس شخص کے لیے سیرت نبوی کا مطالعہ ازحد ضروری ہے، جو دین اسلام کو جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا خواہش مند ہے۔ اہل اسلام کے حوالے سے مطالعہ سیرت کی ضرورت و اہمیت کے نکات حسب ذیل ہیں۔
٭ اللہ نے قرآن میں آنحضرتؐ کی ذات کو بہترین نمونہ قرار دے کر آپ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، لہٰذا سیرت نبوی کو جانے بغیر یہ ممکن نہیں۔ ٭اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اتباع رسول کو لازم اور فرض قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے سیرت نبوی کا مطالعہ ازحد ضروری ہے تاکہ آپ کی پسند و ناپسند کا علم بھی ہوسکے۔
٭ تبلیغ اور نشر و اشاعت کے حوالے سے سیرت کا مطالعہ ناگزیر ہے تاکہ ایک تو ہر مبلغ تبلیغ کے اس مسنون طریقہ کار سے آگاہ ہو جس پر عمل پیرا ہوکر آنحضرت نے عرب کی کایا پلٹ دی اور دوسرا اس مطالعے کے ذریعے مخاطب کو آنحضرت کے اسوہ حسنہ سے متعارف کروا کر اور موقع بہ موقع سیرت کے واقعات سنا کر اسے متاثر کیا جا سکے۔ ٭ قرآن کا فہم مطالعہ سیرت کے بغیر ناممکن ہے کیونکہ آپ ہی قرآن کی عملی تصویر اورکامل تفسیر ہیں۔
سیرت کا مطالعہ محض ایک علمی مشغلہ ہی نہیں بلکہ اہم دینی ضرورت ہے۔ ٭ غیر مسلم کا سیرت کے مطالعے کا مقصد ان حالات اور اسباب سے آگاہی ہوسکتی ہے جس کے ماتحت آنحضرت نے تئیس سال کے قلیل عرصے میں دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کردیا اور عرب کی جاہل اور اجڈ قوم سے ایک ایسی امت تیار کردی جس کے کارنامے انتہائی دلچسپ اور موجب صد حیرت ہیں۔ ٭وہ غیر مسلم جو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف بغض و عناد رکھتے ہیں، ان کے مطالعہ سیرت کا مقصد اصل حقائق سے آگاہی حاصل کرکے انھی واقعات کو توڑ مروڑکر پیش کرنا اور حقیقت کے برعکس ان واقعات کو اپنے رنگ میں پیش کرکے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرنا بھی ہوسکتا ہے۔
جمع و تدوین سیرت کی مختصر تاریخ:محمد ﷺ کی ذات، آپ کی تعلیمات اور آپ کی حیات طیبہ کی جملہ معلومات آپ کے اصحاب، آپ کی ازواج اور دیگر اہل بیت کے پاس منتشر صورت میں موجود تھیں۔ چونکہ آپ بطور رسول اللہ ان سب کی توجہ کا مرکز تھے اس لیے یہ تمام اصحاب باہمی میل ملاپ اور گفت و شنید سے محمد ﷺ کی ذات گرامی سے متعلقہ مختلف قسم کی معلومات کا تبادلہ بھی کرتے جیسے کسی تازہ ترین وحی، کسی واقعہ یا کسی فرمان کا باہمی تبادلہ وغیرہ۔
حضرت محمد ﷺ کے وصال کے بعد آپ کے پیروکاروں کے دل میں اپنے ہادی و پیشوا کی ذات مبارک سے متعلق باتیں دریافت کرنے کا شوق بڑھتا چلا گیا۔ اس شوق و جستجو سے رفتہ رفتہ روایات کا ایک وسیع ذخیرہ ہونا شروع ہوگیا۔
صحابہ کے بعد تابعین کے دور نہ صرف روایات جمع کرنے کا کام ہوا بلکہ ان روایات کو مختلف طریقوں سے منظم کرنے کا کام بھی شروع ہوگیا مثلاً ایک تابعی مختلف صحابہ کرام سے محمد ﷺ کے وعظ، تقریر اور فصائح کے حوالے سے عام روایات کو یاد کرتا یا لکھ لیتا تو دوسرا تابعی اپنے ملنے والے صحابہ کرام سے محمد ﷺ کے غزوات اور دیگر واقعات دریافت کرکے لکھ لیتا۔ اس طرح ایک ایک تابعی کے پاس دس بیس یا پچاس صحابہ کرام کے ذریعے سے حاصل ہونے والی معلومات جمع ہوتی گئیں۔ فتوحات کے نتیجے میں جب صحابہ کرام ایران، عراق، شام اور مصر وغیرہ میں پھیلے تو ان سے معلومات جمع کرنے کا کام ان علاقوں میں بھی جاری رہا۔
تابعین کے بعد تبع تابعین کے دور میں صحابہ کرام اور تابعین سے جمع شدہ روایات اور بیسیوں چھوٹی چھوٹی کتابوں میں ذخیرہ شدہ معلومات کو مناسب تقسیم اور ترتیب دے کر بڑی اور جامع کتب مرتب ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ اسی نسل کے زمانے میں قرآن، حدیث اور فقہ کے بنیادی علوم کے ماتحت ان کے ذیلی علوم اور ان علوم میں مہارت کے حامل مخصوص افراد سامنے آئے۔ ان افراد نے جب تفسیر، حدیث، تاریخ، مغازی و سیرت کے بڑے بڑے مجموعات مرتب کیے تو ان کی مقبولیت کے باعث ماقبل کے چھوٹے چھوٹے مجموعے متروک ہوتے چلے گئے، تاہم ان چھوٹے مجموعوں کے حوالے بڑے مجموعوں اور جامع کتب میں بکثرت ملتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان جامع کتب کی تدوین کے زمانے تک یہ چھوٹے، مختصر مگر اصل مآخذ موجود تھے اور پڑھے پڑھائے جاتے تھے۔
اسی پس منظر میں تدوین سیرت کا کام بھی یوں شروع ہوا کہ جب مسلمانوں نے اپنے ہادی برحق کے اقوال و افعال اور احوال کو اختیارکیا اور تفصیل سے جمع و محفوظ کرنا شروع کیا تو بعض بزرگوں نے صرف واقعات سیرت سے متعلق مواد جمع کرنے کو ہی اپنا دینی و علمی مشغلہ اور میدان ِ اختصاص بنا لیا اور اس فن میں خاصی شہرت پائی۔ تابعین اور تبع تابعین میں سے جن لوگوں نے سیرت و مغازی پر مواد جمع کیا اور ابتدائی کتابیں لکھیں جن کا ذکر بعد کی لکھی ہوئی کتابوں میں ملتا ہے۔
ان میں سے مشہور لوگوں کے نام متین وفات کی ترتیب سے پیش کیے جا رہے ہیں تاکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے کہ کس طرح سیرت نگاری کا عمل ایک تسلسل سے جاری رہا اور تفسیر، حدیث اور تاریخ کی طرح تیسری صدی ہجری کے آخر تک مکمل ہوا۔ اس کے بعد سے تاحال سیرت کے انھی بنیادی مآخذ و مصادر اور دیگر علوم کی کتب سے استفادہ کرکے زیادہ بڑی، مفصل اور جامع کتب لکھنے کا کام مسلسل جاری و ساری ہے۔ نئی تالیفات لکھنے کے ساتھ ساتھ نایاب قلمی نسخوں کی اشاعت، سیرت کی بنیادی کتب یا مشہور کتب کے دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم، اہم ترین کتب سیرت کی شروعات یا خلاصے لکھنے کے حوالے سے بھی کام ہو رہا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر مارگولیوتھ نے 1905ء میں آنحضورؐ کے حالات پر مبنی ایک کتاب Muhammad and the First Rise of Islam میں اعتراف کیا کہ "حضرت محمدؐ کے سیرت نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے جس کو ختم کرنا ناممکن ہے لیکن اس میں جگہ پانا باعث شرف ہے۔ "
اقوام متحدہ کے ثقافت و تہذیب اور تعلیم و تمدن سے متعلق ایک ذیلی ادارے یونیسکو کے چند سال پہلے کی ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق:"جس قدر کتب نبی اسلام کے بارے میں لکھی گئی ہیں اس کا عشر عشیر بھی کسی ایک شخصیت کے بارے میں نہیں لکھا گیا۔ "
کتب سیرت کی کثرت:1963ء میں اسلامیہ کالج لاہور میں کتب سیرت کی ایک نمائش منعقد ہوئی جس میں پیش کردہ کتب کی فہرست کالج نے شایع کی تھی۔ اس میں دنیا کی گیارہ زبانوں کی آٹھ سو سے زائد کتابیں مذکور ہیں۔
سال 1975-1974ء میں حکومت پاکستان نے اسلام آباد میں سیرت کانفرنس کے موقع پر ایک نمائش کتب سیرت منعقد کرائی جس میں موجود کتابوں کی تعداد تین ہزار سے متجاوز تھی۔
ایک اور بین الاقوامی نمائش کتب سیرت میں صرف چودہویں صدی ہجری میں لکھی جانے والی کتب سیرت رکھی گئی تھیں جن کی تعداد چار ہزار سے متجاوز تھی۔
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان نے ارمغان حق کے نام سے دو جلدوں میں کتب سیرت کی ایک فہرست شایع کی تھی جس میں پندرہ زبانوں کی دو ہزار سے زائد کتابیں مذکورہ ہیں۔
سیرت پر ہونے والا یہ کام نظم اور نثر دونوں میں دستیاب ہے۔ اگرچہ زیادہ کتب سیرت نثر میں ہی ہیں تاہم مختلف زبانوں میں منظوم کتب سیرت بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں اور اگر صرف نعت کی کتابوں کو ہی لیا جائے تو ان کی فہرست پر بھی ایک رسالہ یا کتابچہ تیار ہوسکتا ہے۔
سیرت نگار:سیرت نگار سے مراد وہ لوگ ہیں جنھوں نے سیرت کے موضوع پر لکھا ہے۔
شہرہ آفاق سیرت نگار:٭خلفا راشدین بلکہ خلیفہ عادل حضرت عمر بن عبدالعزیز اموی کے دور خلافت سے کچھ قبل تک چونکہ حدیثوں کا لکھنا ممنوع قرار دے دیا گیا تھا تاکہ قرآن و حدیث میں خلط ملت نہ ہونے پائے اس لیے سیرت نبویہ کے موضوع پر حضرات صحابہ کرام کی کوئی تصنیف عالم وجود میں نہ آسکی مگر حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور خلافت میں جب احادیث نبویہ کی کتابت کا عام طور پر چرچا ہوا تو دور تابعین میں محدثین کے ساتھ ساتھ سیرت نبویہ کے مصنفین کا بھی ایک طبقہ پیدا ہوگیا۔
٭حضرات صحابہ کرام سیرت نبویہ کے موضوع پر کتابیں تو تصنیف نہ کرسکے مگر وہ اپنی یادداشت سے زبانی طور پر اپنی مجالس، اپنی درسگاہوں، اپنے خطبات میں احادیث احکام کے ساتھ ساتھ سیرت نبویہ کے مضامین بھی بیان کرتے رہتے تھے۔ اسی لیے احادیث کی طرح مضامین سیرت کی روایتوں کا سرچشمہ بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کی مقدس شخصیتیں ہیں۔