Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Roshni Char Soo Phail Rahi Hai

Roshni Char Soo Phail Rahi Hai

اللہ رب العزت نے انسان کو "خلیفۃ الارض" کے منصب پر فائزکرکے دنیا میں تخلیق فرما دیا اور اس کائنات کو اس کے تصرف کے لیے عطا کردیا ہے۔ اب یہ حضرت انسان کے اپنے اوپر ہے کہ وہ اس کائنات کے اسرار و رموز سے اور اس کائنات میں بکھری ہوئی نعمتوں سے خود کو کس حد تک مستفید کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔ انسان کا وجود جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خواہشات کا نہ ختم ہونے والا سمندر ہے اور شاعر کہتا ہے کہ:

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

خواہشات نفسانی کا کھیل مرنے کے بعد ہی ختم ہوسکتا ہے۔ اسلام کے ظہور کے وقت عرب کا معاشرہ تاریکی و جہالت میں ڈوبا ہوا تھا پھر اللہ رب العزت نے انسانیت پر اپنا فضل وکرم فرمایا اور انھی میں سے ایک نبی کو ان کا ہادی و رہنما بناکر حاضر کیا، جس نے اپنی تعلیمات اور اخلاقیات سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو، وہ حقیقی اور سچا درس دیا، وہ شمع روشن کی جس کی آب و تاب اور جس کے فکر و خیالات سے دنیا آج بھی روشن ہے۔

اسلام کے علم بردار و داعی دین نے جب تک قرآن و سنت سے اپنے وجود کو روشن کیے رکھا اور جب وقت کے ساتھ ساتھ اللہ کی تعلیمات اور نبی کریمؐ کی ہدایت و رہنمائی سے انحراف کیا تو ان پر زمانے کی گردش اور تباہی و بربادی اور ناکامی ان کے دامن کا حصہ بن گئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانان عالم جو سارے عالم پر اپنی حکمرانی اور اپنی قیادت کا سکہ جما چکے تھے جو اپنی فکر و خیالات کے فلسفے سے انسانیت کی رہنمائی کر رہے تھے، جو امن عالم کے داعی اور محبت ومساوات کا درس دیتے رہے تھے، وقت کے حالات اورگردش زمانہ و دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہوتے چلے گئے۔ اقتدارگیا، دین کی حقانیت گئی، روح بے جان ہوگئی، اسلام کی آفاقیت گم ہوگئی اور حضرت انسان ایک جیتا جاگتا بے گور وکفن لاش کی مانند اپنے جسم کو لے کر پھر رہا ہے۔

اسلام کے علم بردار مسلمان جب حق وصداقت کا پرچم لے کر اٹھے تو اللہ رب العزت نے ان کو عظیم الشان اور فقید المثال کامیابی عطا کی اور مسلمانوں نے اپنی فتوحات اور برتری کا لوہا سارے عالم انسانیت سے تسلیم کرایا اور پھر یہی مسلمان جو کامیابی کے علمبردار بن کر سارے عالم پر چھائے تھے جب اپنے مرکز سے اور اپنے رب کی بتائی ہوئی ہدایات سے اور نبی کریمؐ کی تعلیمات سے رشتہ کمزور کیا تو پھر غلامی اور ناکامی ان کے حصے میں آئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمانان عالم پر غیر مسلم طاقتیں اور یہود و ہنود و نصاریٰ کے ظلم و ستم سے سب سے زیادہ پریشان یہی کلمہ گو مسلمان ہو رہے ہیں۔ مسلمان آزادی سے غلامی میں آگئے۔ غیروں کی غلامی، غیروں کے اصول حکمرانی کے غلام بن کر رہ گئے۔ ان کی سوچ اور ان کے فکر و خیالات سب غلام ہوگئے۔

جب کوئی قوم غلام بن جاتی ہے تو اس کا معاشرہ تباہی و بربادی کی حقیقی تصویر اور منظر کشی کی وہ داستان سناتا ہے جس پر افسوس اور ماتم کے سوا کچھ نہیں بچتا ہے۔ مسلمانان عالم اس کیفیت سے دوچار ہوچکے ہیں جس کو سادے لفظوں میں "غلامی" کا نام دیا جاتا ہے۔ انسان خصوصاً مسلمان اپنے مقصد حیات سے بھٹک گیا ہے۔ آج دور حاضر میں مسلمانوں کی صورت اور تصویر یہ ہے کہ وہ مکمل طور پر غلط راستے پر چلے جا رہا ہے۔ اس نے اپنی منزل کا راستہ کھو دیا ہے۔

بغیر منزل کا تعین کیے بھاگے چلا جا رہا ہے اور نتیجہ یہ برآمد ہو رہا ہے کہ " مسلمان دنیا میں وہ مسافر غلام بن گیا ہے جس کی اپنی سوچ و فکر اور خیالات کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ موجودہ کیفیت اور صورتحال میں جب انسان خاص طور پر کلمہ گو مسلمان جو دنیا میں کمزور ارادوں کا مالک ہے، ایمان جس کا کمزور ہے اور اوپر سے شیطان ابلیس کا مضبوط حملہ ہے، اس لیے وہ غلط راستوں پر چل پڑا ہے۔

مگر رب العزت اپنے بندوں کو خوب اچھی طرح سے جانتا ہے، وہ جب چاہے اپنی رحمت باراں سے مسلمانوں کے قلوب کو ایمان کی روشنی سے منور فرما دے لیکن اللہ رب العزت کی رحمت باراں اسی صورت میں بنی نوع انسان اور امت مسلمہ و کلمہ گو مسلمانوں پر گر سکتی ہے کہ بندہ خدا اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے سچے دل سے اپنے رب کو آواز دے۔ اس کو پکارے اللہ رب العزت اپنے بندوں کو کبھی مایوس اور اپنی رحمت کے دروازے کبھی بند نہیں کرتا، کیونکہ انسان تو ایک "بھٹکا ہوا راہی" ہے اور اللہ تعالیٰ ایسے بھٹکے ہوئے راہی کو خود تلاش کرلیتے ہیں۔

غلامی کے جال سے آزاد کرانے کے لیے، بھٹکی ہوئی انسانیت اور ظلم و سفاکیت کا شکار کلمہ گو مسلمان کے لیے اللہ رب العزت نے اس سورج کو طلوع کردیا ہے جس کی فکر و خیالات، جس کے تصورات و تعلیمات جس کے پیغامات و ارشادات سے تمام عالم بقعہ نور ہوگا۔ مسلمانان عالم خصوصاً پاکستان کے مسلمانوں پر سے غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔ اقبال نے مسلمانوں کی کیفیت کو ان لفظوں میں بیان کیا تھا:

مُلا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

مسلمانان عالم پر دہشتگردی کی جو چھاپ لگی ہے، اس کا جو بھی جواز ہو، اس حوالے سے یہاں پر قرآن مجید کی سورۂ آل عمران میں اللہ رب العزت نے واضح انداز میں بیان فرما دیا ہے۔

"اگر تمہیں زخم لگا تو اس سے پہلے ایسا ہی زخم تمہارے فریق مخالف کو بھی لگ چکا ہے، یہ تو گردش زمانہ ہے جسے ہم لوگوں کے درمیان ادل بدل کر لاتے رہتے ہیں اور ایسا اس لیے ہوا کہ اللہ رب العزت یہ جان لینا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کون ہیں اور ان لوگوں کو چھانٹ کر الگ کر لینا چاہتا تھا جو واقعی حق کے گواہ ہوں۔"

اسی طرح قرآن مجید کی سورۂ "الم نشرح" میں ارشاد خداوندی ہے "پس یقینا تنگی کے ساتھ فراخی بھی ہے" اسی طرح قرآن کی سورۂ طلاق سے ظاہر ہوتا ہے "عنقریب اللہ تعالیٰ تنگی کے بعد فراخی پیدا کر دے گا۔"

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر زوال کے بعد ایک نیا عروج کا پیغام آیا کرتا ہے۔ دنیا کی تاریخ اور نسل انسانی کے مختلف ادوار کا مطالعہ اس حقیقت کی مکمل عکاسی کرتا ہے کہ تہذیب و تمدن کی شمع یا اقتدار اور حکومت کی کنجیاں کبھی ایک قوم یا فرد کے ہاتھ میں ہمیشہ نہیں رہی ہیں بلکہ یہ کامیابی و عروج کا تسلسل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ یا ایک قوم سے دوسری قوم کے ہاتھ میں منتقل ہوتا رہا ہے، لیکن مسلمانان عالم جو صدیوں سے ظلم و سفاکیت، غربت و افلاس کی زندگی گزار رہے تھے، اللہ رب العزت نے ان کے لیے اور ان کی حیات نو کے لیے پریشانی کو دور کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسلام کو حیات جاودانی، دوبارہ عروج اور کامیابی مل رہی ہے۔ بس یہ صرف ان آنکھوں کو نظر آتا ہے جو اس کی بصیرت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے مسلمان اور اہل عالم کے امت مسلمہ کو دوبارہ وہی کامیابی حاصل ہو رہی ہے جو برسوں پہلے انھوں نے اپنی ناعاقبت اندیشی و غفلت، خود غرضی و عداوت کے بھنور میں کھو دیا تھا، اسلام کا مستقبل اور پاکستان کے مسلمانوں کا آیندہ کل بہت روشن و تابندہ ہے۔ برسوں سے پہنی ہوئی غلامی کی زنجیر کٹ رہی ہے۔ اسلام اور مسلمان آزاد ہو رہا ہے، مغرب کی عیارانہ چالاکیاں زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور یہی ان کے زوال کا وقت ہے، طلوع سحر اور مشرق کا سورج طلوع ہوچکا ہے جس کی روشنی ہر سو پھیل رہی ہے۔