Thursday, 26 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Seerat Un Nabi: Cheeda Cheeda Waqiat (1)

Seerat Un Nabi: Cheeda Cheeda Waqiat (1)

اللہ کے حبیب حضرت محمد ﷺ 571 عیسوی میں دنیا میں تشریف لائے۔ نبی کریم کی زندگی محیر العقول واقعات سے بھری پڑی ہے، یہ واقعات آپ کی پیدائش سے پہلے بچپن میں اور نبوت کے بعد بھی رونما ہوئے، ایسے تمام حیران کن واقعات جو کسی نبی کو نبوت ملنے سے پہلے در پیش آئیں "ارھاصات" کہلاتے ہیں۔

ایسا ہی ایک عجیب واقعہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کے گھر ولادت کے چوتھے یا پانچویں سال پیش آیا، جب ان کا سینہ فرشتوں نے چاک کر کے ان کا دل دھویا تھا، اسے شق صدر (سینہ مبارک چاک کیے جانے) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور جس کا ذکر حضور ﷺ نے ایک مجلس میں کیا تھا جب کہ قبیلہ بنی عامرکے ایک بوڑھے شخص نے حضور ﷺ سے اپنی ابتدائی زندگی کے حالات سنانے کی خواہش کی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

میرا شِیر خواری اور بچپن کا ابتدائی زمانہ بنی سعد بن بکر میں گزرا، ایک دن میں اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ سفید پوش آدمیوں (فرشتوں ) کی ایک ٹولی نے جن کے ہاتھوں میں سونے کی تھالی میں (زمزم کی) برف بھری تھی، مجھے پکڑ لیا، میرے ساتھی ڈرکر بھاگ گئے، انھوں نے مجھے زمین پر لٹایا اور (میرے سینے یا پیٹ کے) اندرونی اجزا نکال کر (زمزم کی) برف (کے پانی) سے اچھی طرح دھویا اور پھر اپنی جگہ رکھ دیا، یہ منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا، دوسرے نے میرے سینے میں ہاتھ ڈالا اور دل کو نکالا اور اس سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا: "یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے" پھر دل کو (سونے کی) طشت میں زمزم (کی برف) کے پانی سے دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو فضا میں بلند کیا تو اچانک ایک نور کی مہر اس کے ہاتھوں میں آگئی، اس نے مہر دل پر لگائی تو وہ نور سے بھرگیا، پھر دل کو جوڑکر اپنے مقام پر رکھ دیا۔ اب تیسرے نے سینے سے ناف تک ہاتھ پھیرا تو زخم مندمل ہوگیا، میں اٹھ کھڑا ہوا تو تینوں نے باری باری مجھے سینے سے لگایا اور میری پیشانی پر بوسہ دیا۔

آپ ﷺ کے دودھ شریک بھائی نے یہ منظر دیکھا تو دوڑکر اپنے والدین کو اطلاع دی کہ کچھ سفید پوش آدمیوں نے میرے قریشی بھائی کا پیٹ چاک کردیا ہے، یہ سنتے ہی وہ فوراً وہاں گئے اور دیکھا کہ بچے کے چہرہ کا رنگ فق ہے، اس واقعے سے حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا کو خطرہ محسوس ہوا، اس لیے آپ ﷺ کو اپنی والدہ کے پاس پہنچانے کے لیے مکہ روانہ ہوگئے اور حضرت آمنہ سے سارا حال بیان کیا۔

یہ سن کر حضرت آمنہ نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں، خدا کی قسم! اس پر آسیب کا کوئی اثر نہ ہوگا، بلکہ یہ بچہ تو بڑی شان والا ہے۔

نبی کریمؐ کے لیے صادق اور امین کا خطاب:

اللہ نے اپنے تمام انبیا کو ساری زندگی شرک وگمراہی اور رسوم جاہلیت سے محفوظ رکھا، چنانچہ تمام ہی انبیا کرام اپنی نبوت ورسالت سے پہلے بھی اپنے خاندان وقبیلے اور قوم کے صالح ترین انسان قرار پائے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات سے ظاہر ہے۔

اسی طرح نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ بھی اپنی نبوت ورسالت سے پہلے اپنے لڑکپن اور دور جوانی میں شرک وبت پرستی اور تمام مراسم شرک سے بالکل پاک اور منزہ رہے، آپ ﷺ کی نیکی، خوش اطواری، دیانت، امانت اور راستبازی کی اس قدر شہرت ہوگئی تھی کہ لوگ آپ ﷺ کو نام لے کر نہیں بلکہ "الصادق یا الامین" کہہ کر پکارتے تھے، جیساکہ ابن ہشام کی روایت میں ہے کہ:

پس رسول اللہ ﷺ اس حال میں جوان ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی حفاظت اور نگرانی فرماتے تھے اور جاہلیت کی تمام گندگیوں سے آپ ﷺ کو پاک اور محفوظ رکھتے تھے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارادہ یہ ہوچکا تھا کہ آپ ﷺ کو نبوت و رسالت اور ہر قسم کی عزت و کرامت سے سرفراز فرمائے، یہاں تک کہ آپ ﷺ مرد کامل ہوگئے اور مروت وحسن خلق، حسب ونسب، حلم و برد باری و راست بازی اور صداقت و امانت میں سب سے بڑھ گئے اور فحش و اخلاق رذیلہ (بری عادات و خصلت) سے "انتہا درجے دور ہوگئے، یہاں تک کہ آپ ﷺ و اصحابہ و بارک وسلم "(الصادق) الامین" کے نام سے مشہور ہوگئے۔

حضرت زید بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جب مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے تو "اساف و نائلہ" (دو بتوں کے نام) کو چھوتے تھے، ایک بار میں نے آپ ﷺ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا، جب ان بتوں کے پاس سے گزرا تو ان بتوں کو چھوا، آنحضرت ﷺ نے مجھ کو (ان بتوں کو چھونے سے) منع کیا۔

"میں نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھوں تو سہی کہ چھونے سے ہوتا کیا ہے، اس لیے دوبارہ ان کو چھوا، آپ ﷺ نے پھر ذرا سختی سے منع کرتے ہوئے فرمایا "کیا تم کو منع نہیں کیا تھا۔ " حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، "اللہ کی قسم! اس کے بعد کبھی کسی بت کو ہاتھ نہیں لگایا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپ ﷺ پر اپنا کلام اتارا۔ (مستدرک حاکم۔۔ جلد 3صفحہ 216)

ایک مرتبہ (ایک دعوت میں ) قریش نے آپ ﷺ کے سامنے کھانا لا کر رکھا، آپ ﷺ نے اس کو کھانے سے انکارکیا، وجہ یہ تھی کہ قریش جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے اور آپ ﷺ کو بتوں کے چڑھاوے کھانے سے اپنی پاکیزہ طبیعت کی وجہ سے نفرت تھی۔

خلاصہ یہ کہ تمام انبیا کرام کی طرح آپ ﷺ بھی ابتدا سے ہی نہایت صالح طبیعت والے اورکفروشرک اور ہر قسم کے فحشا و منکر سے پاک اور منزہ تھے۔

مسز اینی بیسنٹ ہندوستان میں تھیوسوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اور بڑی مشہور انگریز عورت ہے، وہ لکھتی ہے:

پیغمبر اعظم (ﷺ) کی جس بات نے میرے دل میں ان کی عظمت و بزرگی قائم کی ہے، وہ ان کی وہ صفت ہے جس نے ان کے ہم وطنوں سے "الامین" (بڑا دیانت دار) کا خطاب دلوایا، کوئی صف اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اورکوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لیے قابل اتباع نہیں، ایک ذات جو مجسم صدق ہو، اس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے، ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغام حق کا حامل ہو۔

جنگ فجار اور معاہدہ حلف الفضول:

مستند روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ کا لڑکپن اور زمانہ شباب دور جاہلیت کے تمام اکل و شرب، لہوولعب اور دوسری تمام ناپسندیدہ اقدار سے پاک رہا، باوجود اس کے کہ عرب معاشرہ سر تا پا بدکاری اور بے حیائی میں ڈوبا ہوا تھا اور ایسے تمام بد اعمال عرب معاشرے میں نہایت ہی پسند کیے جاتے تھے، اللہ نے آپ ﷺ کی ذات پاک کو ان سے محفوظ رکھا، اس کھلی بدکاری کے ماحول میں آپ ﷺ کے ہم عمر نوجوان جب جوانی کی خرمستیوں میں ڈوبے ہوئے تھے، آپ ﷺ ان کے عین الٹ طریق پر اپنی راست بازی اور پاکیزگی میں مکہ کے صالح ترین انسان کے طور پر سامنے آئے۔

دوسری طرف ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ ﷺ شرک و گمراہی کے کسی فعل میں شریک ہوئے ہوں، خانہ کعبہ کے طواف کے دوران جب مشرکین طرح طرح کے شیطانی اعمال و شرکیہ رسومات میں مبتلا ہوتے، آپ ﷺ ان سب سے الگ تھلگ اپنا طواف جاری رکھتے، اس دوران نہ صرف خود ایسی بد اعمالیوں اور شرک و بت پرستی سے دور رہتے، بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے، آپ ﷺ اپنی قوم قریش کے اس دین پر کبھی نہیں چلے جس کو آپ ﷺ کی قوم نے دین ابراہیمی ترک کرکے اپنا لیا تھا، اللہ نے آپ ﷺ کو قبل بعثت ہر قسم کی بے حیائی و بدکاری سے پاک صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ ارتکاب شرک و گمراہی سے بھی محفوظ رکھا۔

(جاری ہے)