Friday, 27 December 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Tasawwur Insaniyat Aur Islam (2)

Tasawwur Insaniyat Aur Islam (2)

مسلمانوں اور عیسائیوں میں باہم اتنا اتحاد پیدا ہوگیا تھا کہ عیسائی اپنے جماعتی اختلافات کا فیصلہ بھی اسلامی عدالتوں سے کراتے تھے۔ اندلس میں عربوں کے ابتدائی دور میں جب کسی فوجی مسلمان اور عیسائی میں کوئی تنازعہ ہوتا تھا تو عموماً عیسائی کے حق میں فیصلہ ہوتا تھا۔

ہندوستان میں پورے اسلامی دور حکومت میں ہمیشہ مذہبی اور سماجی رواداری کی مستقل روایت رہی ہے۔ محمود غزنوی نے خود اپنے دارالسلطنت میں اپنی ہندو رعایا کو الگ محلوں میں بتوں کی پوجا کی اجازت دے رکھی تھی۔ بہلول لودھی نے ایک مسلمان درویش کے مشورے سے کورکھیت کے ایک تالاب کو استعمال کرنے کی مسلمانوں کی درخواست نامنظور کردی جسے پہلے سے ہی ہندو استعمال کرتے آئے تھے۔

شیرشاہ سوری نے جو شاہراہیں تعمیر کرائی تھیں، ان پر ہندوؤں کے مذہبی جذبات کو مطمئن کرنے کی غرض سے ان کے لیے علیحدہ سرائیں اور کنوئیں بنوائے۔ ان سراؤں میں سلطنت کے خرچے پر ہندوؤں کو پانی اور بھوجن مہیا کرنے کے لیے برہمن ملازم رکھے۔ پیٹرو ڈیلا ویلے کے بقول "عہد جہانگیری میں ہندو اور مسلمان نہایت اطمینان سے ساتھ ساتھ رہتے تھے اور دونوں کی فوجی اور غیر فوجی ملازمتوں میں برابر کے مواقع حاصل تھے۔

مسلمانوں نے ہندوستان کے بت پرستوں اور ایران کے آتش پرستوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جب انھوں نے ہندوستان کے مقدس شہر بنارس کو جس کی آبادی کا بڑا حصہ برہمنوں پر مشتمل تھا، فتح کیا تو ان کے ساتھ بہت بہتر سلوک کیا اور ان کے مذہبی شعائر کا پورا لحاظ رکھا۔ مسلمانوں کی اس حسن سیاست کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی حکومت اسپین و پرتگال کے دریائے تاجہ سے لے کر گنگا تک پھیلی ہوئی تھی۔

حاکم اور محکوم، مختلف مذہبوں اور اقلیت و اکثریت کے درمیان پورا اتحاد و اتفاق تھا۔ اسلام کا بنیادی نظریہ حیات تمام دیگر ادیان میں صرف آزادی دینا ہی نہیں بلکہ سیاسی نظام اور معاشرتی ماحول میں ان کی مکمل حفاظت کا انتظام بھی ہے۔ آپؐ نے اپنی زندگی میں ایک عیسائی وفد کے اراکین کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی۔

اس پر انھوں نے کہا کہ ہماری عبادت میں موسیقی کا استعمال ہوتا ہے اور ممکن ہے کہ آپؐ کے خیال میں مسجد میں یہ چیز مناسب نہ ہو، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے ان کو اپنے طور پر نماز ادا کرنے کی اجازت دی۔ کیا کوئی ایسا روادار اور فراغ دل پیغمبر دوسرے مذاہب و عقائد کے خلاف کسی قسم کی سختی اور تنگ نظر رکھ سکتا تھا۔ اسلامی حکومت میں اسلام ہر مذہب و فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ضمیر اور عبادت کی آزادی کا ضامن ہے۔

برعظیم پاک و ہند میں یہی صورتحال تھی کسی سیاسی یا تبلیغی کوشش کے بغیر ہندو عوام برہمنوں کی ذات پات کی تقسیم میں شدید عملی مضمرات سے تنگ آکر مسلمان ہوتے رہے اور یہ عمل اس وقت بھی جاری رہا جب مسلمانوں کا سیاسی غلبہ ختم ہوگیا۔ حتیٰ کہ پنجاب میں سکھوں کے تاریک ترین دور حکومت میں بھی جب شاہی مسجد رنجیت سنگھ کے اصطبل میں تبدیل کی جاچکی تھی، اسلام کی فتوحات بدستور جاری رہیں اسی طرح جس طرح آج افریقہ میں عیسائیت مشنری تنظیم اور کثیر دولت کے علی الرغم مسلمانوں کی تعداد بڑھتی چلی جا رہی ہے، اس کا باعث صرف اسلام کی سادہ تعلیم، غیر عقلی عقائد کا فقدان اور انسانی مساوات کے تصورات ہیں۔

انڈونیشیا میں بھی اسلام اس وقت پھیلا جب وہاں ہالینڈ کے عیسائی حکمران اپنے عقائد کی تبلیغ کے لیے سیاسی قوت اور سرمایہ صرف کرنے میں دریغ نہیں کر رہے تھے۔ یہودی جو قبل مسیح اور بعد میں خود عیسائی سلطنتوں اور علاقوں میں ہمیشہ ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے رہے ان کو اسلام کے بعد چین و آرام کی زندگی میسر آسکی۔ کسی شہر میں یہودی باڑہ نہ تھا۔ مغربی عیسائی سلطنتیں ان پر ظلم کرتیں تو وہ پناہ لینے اسلامی ملکوں میں جا پہنچتے جہاں ان کے لیے دوسرے باشندوں کی طرح ترقی کے تمام مواقع کھلے تھے۔

کسی اسلامی ملک میں یہودیوں کے خلاف نہ کبھی جذبہ عناد پیدا ہوا اور نہ ان پر حملے ہوئے، لیکن بدقسمتی سے جدید دور میں ان مراعات اور رواداری کے بدلے میں جو سلوک بین الاقوامی جارحانہ صہیونیت نے کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ زاد المیعاد میں لکھا ہے کہ رسول اللہؐ حدیبیہ سے تشریف لائے تو بادشاہوں کو خطوط لکھے اور چھ افراد کو ایک ہی دن میں مختلف بادشاہوں کی طرف روانہ کیا۔ یہ واقعہ 7ھ کا ہے۔ مکتوبات نبوی میں جن لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے وہ چار مشہور مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے تھے۔ مشرکین عرب، عیسائی، یہودی اور زرتشی۔ ہرقل اور مقوقس کے نام جو خطوط لکھے گئے، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ نے ایک مکتب گرامی اہل سندھ کی جانب بھی ارسال فرمایا تھا، جو نتیجہ خیز ثابت ہوا اور سندھ کے کچھ لوگ مشرف با اسلام ہوکر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے۔ ان خطوط میں اپنے اسم گرامی کے ساتھ عبداللہ (اللہ کا بندہ) خصوصیت کے ساتھ لکھا گیا۔

شہنشاہ فارس خسرو پرویز وغیرہ کے نام خط میں اللہ کی توحید پر خاص زور دیا گیا، کیونکہ فارس کے زرتشیوں کے یہاں یزدان و ہرامن یعنی خیر و شر کے دو خداؤں کا عقیدہ موجود تھا۔ اس لیے انھیں یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ اللہ ایک ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔ بت پرست مشرکین عرب کے خطوط میں بھی اللہ کی توحید پر خاص زور دیا گیا ہے۔

یہود کے نام نامہ مبارک میں تورات کے حوالے سے اپنی نبوت پر استدلال کیا گیا۔ تاہم تمام مکتوبات نبویؐ میں جو چیز قدر مشترک ہے وہ توحید ربانی اسلام کی دعوت اور دینی احکام و مسائل ہیں۔ شریعت اسلام کے معتدل قانون نے کفار و غیر مسلم کے ساتھ نہ تو ایسا چھوت چھات کا برتاؤ روا رکھا، نہ ہی اسلام ایسا ہے۔

شریعت نے غیر مسلموں کے ساتھ خرید و فروخت اور معاملات کو اصل سے جائز رکھا ہے۔ فرقہ واریت کے حوالے سے آپؐ کے فرمان: (ترجمہ) تم پر جماعت کی پیروی لازمی ہے اور تفرقہ سے بچتے رہنا۔ ٭ (ترجمہ) جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہے تو یہ قول دونوں میں سے کسی ایک پر ضرور پڑے گا۔ ٭ "جس نے کسی مومن پر لعنت کی اس نے گویا اسے قتل کیا، جس نے کسی مومن پر کفر کی تہمت لگائی اس نے گویا اسے قتل کردیا۔ "

یاد رکھیے، اب کوئی نبی یا رسول اللہؐ ہماری اصلاح کے لیے نہیں آئے گا، خاتم النبینؐ کی آمد اور شریعت کامل کے نزول کے بعد اب یہ دروازہ بند ہوچکا ہے اور حدیث شریف کے مطابق ہمارے علمائے کرام کو وہی حیثیت حاصل ہے جو بنی اسرائیل کے انبیا کو حاصل تھی اب بشمول علمائے حق، ہم سب کا فرض ہے کہ نہ صرف اپنی بلکہ پوری دنیا کی اصلاح و تربیت کا بیڑا اٹھائیں اور کلیدی کردار ادا کریں۔

امربالمعروف و نہی عن المنکر کے فرائض انجام دیتے ہوئے انبیائے کرامؐ کی سنت کو ادا کریں۔ اور زندگی کے ہر رخ، ہر پہلو، ہر شعبے میں، انفرادی و اجتماعی، قومی و بین الاقوامی ہر سطح پر اسلام کی تعلیمات و اسلامی تہذیب کو یقینی بنائیں، ہر سطح پر اسے عام کریں، نظریہ امن و سلامتی پر خود بھی قائم رہیں اور دوسروں کو بھی مدعوکریں۔ عالم باعمل بنیں، قول و فعل کا تضاد ختم کریں۔ خود بھی اسلام کی روشن تعلیمات و اسلامی تہذیب کو اپنائیں اور پوری دنیا کے انسانوں کو بھی یہ عظیم آفاقی تعلیمات الہامی تہذیب بطور تحفہ پیش کریں۔

خود بھی جاہلیت کے اندھیروں اور شیطان کی چالوں سے نکلیں اور دنیا کو بھی اسلام کی نعمت سے فیض یاب کریں۔ اولین اسلام کی اصل تصویر دنیا کے سامنے لائیں کہ یہ امن کا مذہب ہے، اس میں کسی شدت پسندی کی قطعی کوئی گنجائش نہیں۔ نیز سیرت پاکؐ کو مشعل راہ بنائیں۔ ان تمام برائیوں اور بد تہذیبوں کو جوکہ دور جاہلیت کا خاصہ رہی ہیں۔ ہمیں نہ صرف اپنے معاشرے بلکہ پوری دنیا سے ختم کرنا ہوگا، عالمگیر اسلامی تہذیب کو پورے عالم پر اپنے آب وتاب کے ساتھ چھانا ہوگا، بصورت دیگر ہمیں دور حاضر میں اور دور جاہلیت میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔