جس طرح کسی شاگرد کو اچھا استاد مل جائے تو اس کی زندگی سنور جاتی ہے اسی کے مصداق اگر کسی اعلیٰ تخلیق کار کو کوئی سمجھدار نقاد مل جائے تو اس کی آخرت سنور جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مجید امجد کو اگر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا نہ ملتے تو شاید وہ یا تو گم نام رہ جاتے یا جلدی نہ پہچانے جاتے۔ اگرچہ اس میں بہت حد تک صداقت ہے کہ چشم عصر نے دیکھا ہے کہ خواجہ صاحب نے اپنے بہت سے ادبی سال مجید امجد پر صرف کیے ہیں۔ بہر حال آگے فیصلہ تاریخ کی ہتھیلی پر ہے۔
مجید امجد اردو ادب کی شعری تاریخ کا ایک بڑا حوالہ ہیں۔ انھوں نے غزل اور نظم ہر دو میدان میں اپنا خوب نام کمایا خاص طور پر جب بھی اردو نظم کی بات ہوگی تو مجید امجد کو سنہری حروف میں یاد کیا جائے گا کیوں کہ انھوں نے اس دور میں نظم کو دوام بخشا جب تخلیق کار کی توجہ کی رانی غزل بنی ہوئی تھی۔ ان کے شعری تنوع، اسلوب، تازہ کاری، رنگا رنگی، بوقلمونی اور جدت فکر کی وجہ سے اردو نظم کو طاقت اور اعتبار ملا۔
ان کے ساتھ یا ذرا سا پہلے میرا جی، ن م راشد، اختر الایمان اور فیض جیسے مہان پہاڑ قامت نظم کے شاعر موجود تھے انھوں نے ان کے درمیان سے اپنا اسلوب وضع کیا اور نہایت سنجیدگی سے اردو ادب میں قدم جمائے۔ ان کے موضوعات نہ تو آفاقی ہیں اور نہ ہی کسی اور دنیا کے بل کہ انھوں نے انسانی نفسیات، معاشرے کا کرب، معروضی سیاسی سماجی صورت حال اور عوامی مشکلات کو پیش نظر رکھا۔ وہ انسانی نباض ہیں یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے تخلیقی بیانیے کے لیے خام مواد اپنے گرد و پیش پھیلی آپا دھاپی کا شکار اور مصائب و انارکی سے دوچار عوام سے حاصل کیا۔ انھوں نے متوسط طبقے کے آشوب عصر کو محل نگاہ رکھا۔
اگر چہ ان کے زمانے میں کچھ ادبی و سیاسی تحریکیں پروان چڑھ رہیں تھی اور کچھ دم توڑ رہیں تھی مگر مجید امجد اپنی موج میں گم، اپنی ہی دھن میں کام کیے جا رہے تھے۔ نہ تو وہ کسی تحریک سے وابستہ ہوئے، نہ ہی انھوں نے کسی کے چھوڑے ہوئے خاص بنیادوں پر مبنی نظریے کو اپنایا اور نہ کسی پروپیگنڈا کا شکار ہوئے۔ وہ جس انسانی قبیل سے تھے انھیں کے دکھ درد محسوس کرتے رہے وہ کہتے ہیں:
اس جلتی دھوپ میں یہ گھنے سایہ دار پیڑ
میں اپنی زندگی انھیں دے دوں جو بن پڑے
انسانیت کی مظلومیت، ان پر ڈھائے جانے والے استبداد اور انسانی بے کسی و بے اطمینانی پر بات کرتے ہوئے انھیں حجاب نہیں۔ وہ "نژاد نو" میں فرماتے ہیں:
طویل تاریکیوں میں کھو جائیں گے جب ایک دن
ہمارے سامنے
اس اپنی دنیا کی لاش اٹھائے
تو سیل دوراں کی کوئی موج حیات ساماں
فروغ فردا
کا رخ پہ ڈالے مہین پردا
اچھل کے شاید
سمیٹ لے زندگی کی سرحد
کے اس کنارے
پہ گھومتے عالموں کے دھارے
یہ سب بجا ہے بجا ہے۔ لیکن مجید امجد کو شاعر فطرت بھی کہا جا سکتا ہے کیوں کہ انھوں نے اپنی شاعری میں فطرت کے سارے رنگ پیش کیے ہیں۔ وہ پیڑوں، پرندوں، پودوں، رنگوں پھولوں اور سبزے سے عشق کی حد تک والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں۔ وہ ان سے انسانی رشتوں کی طرح پیار کرتے ہیں۔ کچھ نقاد اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ انسانی محبت سے محرومی، اپنوں کی بے رخی اور محبوب کی لاپرواہی نے ان کے اندر کے محبتی انسان کو احساس کمتری کا شکار کر رکھا تھا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے نیچر اور اس میں پنپنے والے سارے رنگ اور خوشبوئیں اپنے تخیل میں سمو کر شاعری کشید کی۔ ترقی کی دوڑ اور مشینی زندگی میں مظاہر فطرت سے جڑت ان کی محبت کا واضح ثبوت ہے۔ انھوں نے صنعتی شہروں کی تنگ مزاجی، ان کے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کو دل کھول کر اپنی شاعری میں اجاگر کیا ہے۔
مجید امجد نے اپنی شاعری میں علامت کا بھر پور استعمال کیا اور علامتوں سے معاشرتی و سماجی قباحتوں کو زمانے کے سامنے رکھا۔ انھوں نے حالات کے مدوجزر اور اشیائے مظاہرات کو اپنی شاعری میں موزوں انداز سے پیش کرکے حیات و کائنات کے مسائل کی گرہیں کھولی ہیں۔ مجید امجد کے ہاں روایتی نظمیہ ہیئت کا خمیدہ و فرسودہ نظام مفقود ہے۔ انھوں نے پابند، آزاد اور معریٰ تینوں ہیئتوں کو برت کر اپنا مقام خود متعین کر لیا ہے۔
اگرچہ ان کی آزاد نظم پر میرا جی اور اختر الایمان کے اسلوب کے رنگ کا اعتراض ہے مگر اس کے باوجود بھی ان کی نظم موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے ان دونوں شعرا سے الگ اور منفرد کھڑی نظر آتی ہے۔ چوں کہ دونوں کے ہاں فارسی لفاظی اور نا مانوس الفاظ کی زیادتی ہے جو کہیں کہیں مجید امجد کی نظم کو وہاں لا کھڑا کرتی ہے۔ مجید امجد کے مشاہدے، تجربات، تشبیہات و استعارات اور شاعری میں نئی ہیئتی تیکنیک نے انہیں یگانہ روزگار تخلیق کار بنا دیا ہے۔ ان کی سادگی طبع، اسلوب کی انفرادیت، فنی و فکری تاب سے ان کے شعری قویٰ کو تراوت ودیعت ہوئی۔
انھوں نے انسانی قدروں کے زوال پذیر نوحے، انسانی خواہشات کے استحصال اور ان پر جبراً اتارے جانے والے عذاب کو اپنی نظموں اور غزلوں کا موضوع بنایا۔ ان کی شاعری کے سینے میں فطرت کے مظاہر، گلی محلے پر بیتی آفتیں، پہاڑوں، میدانوں، سناٹے پر بیتے دکھ دھڑکتے ہیں۔ جو موضوعات اور مسائل عام نظر صرف نظر کر دیتی ہے وہی ان کی نگاہِ قعر کا مرکز ہوتے ہیں۔ بھکارن، امروز، گاڑی، پنواڑی، گھروں کے کمرے، پیالیاں، باغ، آنگن، گلیاں، بس اسٹینڈ، حجرہ، کھلیان کھیت، دھڑکنیں، سانس غرض باریک سے باریک واقعات و اشیا و مظاہرات کو صدق دل اور کیفیت داخلی سے مربوط کرتے ہیں۔
ناصر کاظمی کی طرح وہ بھی داخلی کیفیات کو خارجی عوامل سے جوڑنے کا ہنر جانتے ہیں۔ مجید امجد کے ہاں نازک خیالی و تازہ کاری بدرجہ اتم موجود ہے۔ وہ تلخ سے تلخ زندگی کے حقائق کو بھی بڑی آسانی سے بیان کرنے کا ڈھنگ موجود ہے۔ آخر میں ان کا ایک خوبصورت شعر دیکھیے:
میں روز ادھر سے گزرتا ہوں کون دیکھتا ہے
میں جب ادھر سے نہ گزروں گا کون دیکھے گا