گزشتہ روز 92ایچ ڈی ٹی وی پر ہفتہ وار لائیو پروگرام کا موضوع قرآنِ پاک کی سورہ الاحزاب کی معروف آیت نمبر 40تھی، جسکا عمود اور مرکزی نقطہ تو یہی تھا کہ عقیدہ ختم نبوت محض دینی اعتبار ہی سے نہیں بلکہ سیاسی، سماجی اور تہذیبی حوالے سے بھی از حد اہمیت کا حامل ہے اور اگر خدانخواستہ یہ بنیادی نقطہ اسلامی فکرو عمل سے نکل جائے تو شاید مسلمانوں کو اپنے الگ وجود اور تشخص کا جواز باقی رکھنا مشکل ہو جائے، یہی وجہ ہے کہ محض علماء یا دینی طبقات ہی نہیں بلکہ جدید فکر سے آراستہ علامہ اقبالؔ جیسی شخصیت نے بھی اوائل دور ہی میں، مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے پیروکاروں کو اقلیت قرار دینے کی بات کی۔ اقبال سے کسی نے پوچھا کہ اس قدر پڑھ، لکھ کر بھی آپ ایسی باتیں کرتے ہیں، تو اقبالؔ نے کہا تھا کہ تجھے پتہ ہی نہیں عقیدہ ختم نبوت کی اسلام میں کیا اہمیت ہے اور پھر اقبال نے شہرۂ آفاق شعر کہہ کر عقیدہ ختم نبوت کی رفعتیں اور عظمتیں بیان کیں:
پس خدا برما شریعت ختم کرد
بر رسولِ ما رسالت ختم کرد
"لانبی بعدی" ز احسان خدا است
پردہ ناموسِ دینِ مصطفی است
فکری اور نفسیاتی سطح۔۔ انسانی تاریخ میں ہر قوم اور مذہب کے ساتھ یہ مسئلہ رہا ہے کہ ان کو کوئی ایسا مرکزی نقطہ درکار ہوتا ہے، جس کے گرد ان کی فکر اور سوچ گردش کرسکے، اور یہ ضروری بھی ہے، دنیا میں کوئی اُمت، ملّت، فکر، فلسفہ، مشن، موومنٹ یا سوسائٹی اس وقت تک پروان ہی نہیں چڑھ سکتی، جب تک ان کو کوئی ایسا مرکز میسر نہ آئے، جہاں سے انہیں توانائی، طاقت، انرجی اور پاور دستیاب ہو۔ یہاں تک کہ مغرب کی وہ معاشرت جس میں کیپٹل ازم جیسے نظریات عروج پرہیں، وہاں پر" میٹریل ازم" یعنی مادیت کو مرکزیت حاصل ہے، جو ایک مخصوص نظریۂ زندگی اور نظامِ حیات ہے۔
جس کی ابتداء آج سے چار صدیاں قبل یورپ میں ہوئی، اس فلسفہ کے علمبرداروں نے کائنات اور عالمِ طبعی کی توجیہہ"میکانکی طریق" پرکرنے کی ابتداء کی۔ انہوں نے کائنات کے خود بخود پیدا ہونے اور زندگی کے آپ سے آپ رونما ہونے کا نظریہ پیش کیا۔ ان کے بقول کائنات خود بخود وجود میں آئی، کسی نے اُسے پیدا نہیں کیا اور آپ سے آپ لگے بند ہے قانون کے تحت چل رہی ہے۔
بے جان مادے میں جان کسی کے امر سے نہیں پڑتی، مادہ جب اپنے نظم میں ترقی کرتا ہے تو اس میں خودبخود جان پڑ جاتی ہے۔ ان کے مطابق، حیوان اور انسان سب مشینیں ہیں، جو طبعی قوانین کے تحت چل رہی ہیں۔ ان کے نظام کا در ہم برہم ہو جانا، ان کی انرجی کا ختم ہوجانا ہی ان کی موت ہے، جو فنائے دوام کا ہم معنی ہے۔ حکیم مشرق نے اس فلسفہ کا نچوڑ اپنے اس شعر میں یوں بیان کیا ہے۔
در نگاہش آدمی آب و گل است
کاروانِ زندگی بے منزل است
مجھے اگر اپنے اصل موضوع سے دور ہونے کا خدشہ نہ ہوتا تو میں بتاتا کہ اس فلسفہ حیات کی روسے، انسانی زندگی میں نہ کسی علیم وقدیر خدا کی گنجائش ہے، نہ نبوت و الہام کی ہدایت کا کوئی وزن، نہ موت کے بعد کسی دوسری زندگی کا تصور، نہ اعمال کے احتساب کا کھٹکا اور نہ زندگی کے حیوانی مقاصد سے بالا تر کسی اور مقصد اور نصب العین کا امکان۔ اس نظریۂ کا پورا نظام خداترسی، راست روی، صداقت پسندی، امانت، دیانت اور پاکیزگی کے تصورّات کے خالی ہے۔
بہر حال۔۔ مادی معاشرے کا نیوکلس مال، سرمایہ اوردولت ہوتا ہے۔ جہاں اس کوپوجا جاتا ہے۔ لوگوں کو جانچنے، پرکھنے اور ملنے، جلنے کا پیمانہ یہی دولت وثروت ہوتا ہے، یہی وجہ ہے مادیت زدہ معاشرے زیادہ لمبا عرصہ مستحکم نہیں رہ سکتے، ان پرانجانا خوف مسلط اور ہر وقت زوال کا کھٹکا دامن گیر رہتا ہے۔ مادی دولت کی بنیا د پردنیا میں بڑی بڑی قومیں اُبھریں۔ مگر مادیت کی بے ثباتی نے زیادہ دیر، ان کا ساتھ نہ دیا۔ قرآن مجید نے ان گنت تہذیبوں کے احوال بیان کیے۔ بحر احمر کے کنارے آباد عاد? وثمود سمیت کئی اقوام کے احوال، تاریخ میں ثبت ہیں، دولت اور دُھن کے پچاریوں کی تاریخ زیادہ دیر آگے بڑھا نہیں کرتی۔ کائنات میں یہ اعزاز صرف قافلہ انبیاء ورسل اور پھر ان کے سرخیل حضرت محمد مصطفی کریم ﷺ ہی کو میسر ہے کہ جنہوں نے انسانی تاریخ کے دھارے کا رُخ موڑ دیا۔
خود نہ تھے جو راہ پر، اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مُردوں کو مسیحا کردیا
گذشتہ صدی (1980) میں امریکی ڈاکٹر مائیکل ایچ ہارٹ نے کتاب "The 100" لکھی۔ اس کتاب میں اس نے پانچ ہزار سالہ معلوم انسانی تاریخ اور تاریخ میں سے ایسے 100انسانوں کا انتخاب کرکے ان کی درجہ بندی (Gradation)کی، جنہوں نے انسانی تمدن کے دھارے کے رُخ کو موڑنے میں مؤثر کردار ادا کیا اوراس درجہ بندی میں وہ نمبر ایک پر حضرت محمدمصطفی ﷺ کولایا۔ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ مذہب کے اعتبار سے عیسائی ہے۔ اس کی یہ کتاب دنیا میں بہت عام ہوئی۔ ا شاعت کے بعد غائب کیے جانے کی کوشش کی گئی۔ اس لیے کہ اس کتاب میں حضرت مسیح کو نمبر3پررکھا اورحضور ﷺ کو پہلے نمبر پر لایا گیا۔ یہ بات عیسائی دنیا کے لیے قابلِ قبول اورقابلِ برداشت نہ تھی۔ ڈاکٹر مائیکل اپنے حُسن انتخاب کی وجہ بھی بیان کرتا ہے:
"My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
"ڈاکٹر مائیکل ہارٹ کے نزدیک انسانی زندگی کے دو علیحدہ علیحدہ میدان ہیں۔ ایک مذہب، اخلاق اور روحانیت کا۔ دوسرا تمدن، تہذیب، سیاست اور معاشرت کا۔ ان دونوں میدانوں میں انتہائی کامیاب انسان تاریخ انسانی میں صر ف اور صرف ایک ہی ہیں اور وہ ہیں حضرت محمد ﷺ۔ کیونکہ دنیا کے اکابرین میں کوئی بھی ایسا نہیں جس کے کمالات کی چمک دھمک، زندگی کے چند شعبوں سے آگے بڑھ سکی ہو، کوئی نظریات کا بادشاہ ہے مگر عملی قوت نہیں رکھتا۔ کوئی عمل کا پتلا ہے مگر فکر میں کمزور ہے۔ کسی کی نظر اجتماعی زندگی کے ایک پہلو پر اتنی زیادہ گہری ہے کہ دوسرے پہلو اوجھل ہوگئے ہیں۔ کسی نے اخلاق اور روحانیت کو لیا، تو معیشت وسیاست کو بھلا دیا۔ کسی نے معیشت سیاست کو لیا، تو اخلاق وروحانیت کو نظر انداز کردیا۔
غرض تاریخ میں یک رُخ ہیر وہی نظر آتے ہیں مگر تنہا یہی ایک شخصیت ایسی ہے جس میں تمام کمالات جمع ہیں وہ خود فلسفی بھی ہے اورحکیم بھی اور خود اپنے فلسفے کو عملی زندگی میں نافذ کرنے والابھی، وہ سیاسی مدبر بھی ہے، فوجی لیڈر بھی اوروضعِ قانون بھی۔ جسم کی صفائی سے لے کر، بین الاقوامی تعلقات تک ایک ایک چیز کے متعلق وہ احکام وہدایات دیتا ہے۔ اپنے نظریات کے مطابق ایک مستقل تہذیب وجود میں لا کر دکھاتا ہے اورزندگی کے مختلف پہلوئوں میں ایسا صحیح توازن قائم کرتا ہے کہ افراط وتفریط کا کہیں نشاں نظر نہیں آتا۔
ہر کجا بینی جہانِ رنگ وبو
آنکہ از خاکش بیروید آرزو
یا زنورِمصطفی او را بہاست
یا ہنوز اندر تلاش مصطفی است