سیاست بھی عجیب چیز ہے۔ جسے اس کا چسکا لگ جائے وہ اس سے نجات حاصل نہیں کرسکتا۔ سیاست گروں کو سیاست کے بغیر چین نہیں آتا۔ یہ بھی ایک قسم کا نشہ ہوتا ہے جس طرح نشہ باز اپنے نشے کے بغیر، مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اسی طرح سیاست داں سیاست کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہمیں تجربہ تو نہیں البتہ سیاست دانوں کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ گھریلو زندگی اور خونی رشتوں میں بھی سیاست ہی کرتے ہوں گے۔
اس بات کا اندازہ ان دنوں نواز شریف صاحب کی بیماری سے لگایا جاسکتا ہے۔ وہ قید میں تھے تو پتا چلا کہ وہ بیمار ہیں اور انھیں کسی بھی وقت طبی امداد کی ضرورت پڑ سکتی ہے اس لیے انھیں جیل سے اسپتال منتقل کیا جائے۔ یہ طبی بیان چونکہ ان کے ذاتی معالج نے دیا تھا اس لیے اسے قابل اعتراض نہ سمجھا گیا البتہ انھیں اسپتال منتقل کرکے ایک میڈیکل بورڈ کے حوالے کر دیا گیا۔ میڈیکل بورڈ ان کا باقاعدہ معائنے کرتا رہا، ادویہ دیتا رہا اور پھر اسی سرکاری میڈیکل بورڈ نے جو ملک کے اہم ڈاکٹروں پر مشتمل تھا انھیں شدید بیمار قرار دیا۔ ان کے پلیٹ لیٹس گر کر بیس ہزار رہ گئے تھے۔
انھیں خون چڑھایا گیا۔ پلیٹ لیٹس بڑھے پھر کم ہوگئے تو کراچی سے معروف ماہر امراض خون ڈاکٹر طاہر شمسی صاحب کو طلب کیا گیا۔ ان کی طبی مہارت بھی مسلم ہے اور پیشہ ورانہ ذمے داری میں بھی وہ نیک نام ہیں جب انھوں نے بھی نواز شریف صاحب کی علالت کو انتہائی سنجیدہ قرار دے دیا تو بالآخر میڈیکل بورڈ اس نتیجے پر پہنچا کہ ان کے پلیٹ لیٹس کا اس طرح گرنا انتہائی خطرناک ہے۔ یہ کسی موروثی سبب سے بھی ہوسکتا ہے اس لیے اس کے ٹیسٹ کیے جانے ضروری ہیں مگر یہ ٹیسٹ ہمارے ملک میں نہیں ہوسکتے۔
نواز شریف صاحب کی بیماری اور طبی بنیادوں پر ان کی اسپتال منتقلی کو بھی ابتدا ہی سے شک و شبے کی نظر سے دیکھا اور بعض سکہ بند پی ٹی آئی وزرا نے اس پر بھی تنقید شروع کر دی اور ان کی بیماری کو محض ایک بااثر فرد کا کھیل قرار دیا۔ مگر جب نواز شریف صاحب ایک ذمے دار میڈیکل بورڈ کی زیر نگرانی علاج کرانے لگے تو پتا چلا کہ یہ ایکٹنگ نہیں واقعی بڑی سنجیدہ بیماری ہے۔ ان کے ذاتی معالج کے الفاظ میں "علاج میں غفلت سے خطرہ ہے کہ کہیں ہم انھیں کھو نہ دیں۔ " اس کے بعد بھی حکومت پاکستان نے اپنے طور پر اطمینان حاصل کرلیا کہ نواز شریف صاحب ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی تشخیص بھی مشکل ہو رہی ہے اور علاج بھی دشوار نظر آتا ہے۔
اب حکومت اس مصیبت میں مبتلا ہوگئی کہ اگر نواز شریف صاحب کو دوران حراست کچھ ہوا تو اس کی ساری ذمے داری حکومت پر عائد ہوگی۔ بس اسی لمحے سے سیاست جاگ پڑی۔ اگرچہ سیاست تو ابتدا سے چل رہی تھی مگر اب سیاست ہی سیاست دانوں کے حلق میں آ پھنسی تھی چنانچہ کوشش کی گئی کہ ان کو رہائی مل جائے اور وہ پاکستان سے باہر جاکر علاج کراسکیں تاکہ کوئی مصیبت ان کے سر نہ آئے۔
عدالت نے ایک مریض قیدی کو ذاتی مچلکوں اور بھاری رقم کی ضمانت پر رہائی دی اور اختیار دیا کہ وہ جہاں چاہیں اور جس سے بھی چاہیں علاج کرواسکتے ہیں۔
مسلم لیگی ذمے داروں اور شریف خاندان کے افراد نے ان کو علاج کے لیے باہر بھیجنے کا انتظام شروع کیا۔ اب سیاست نے دوسرا رخ اختیار کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سلمان شہباز کے ایک غیر ذمے دارانہ ٹوئیٹ نے حکومت کو چوکنا کردیا اور جب حکومت سے نواز شریف کا نام ECL سے نکالنے کی درخواست کی گئی تو سوچا گیا کہ اس طرح تو قیدی کو آسانی سے چھوڑ دینا انتہائی احمقانہ بات ہوگی۔ ایک بار پھر پی ٹی آئی کے سکہ بند افراد متحرک ہوگئے اور کچھ اس انداز میں کروٹیں بدلنے لگے جیسے نواز شریف کا باہر جانا، علاج کرانا، صحت یاب ہونا اور واپس آنا عذاب الٰہی ہوگا، بس کسی طرح اس کو روکا جائے۔
اس غرض سے ایک کمیٹی بنائی گئی اور اس کمیٹی میں ایسے افراد کو رکھا گیا جو نواز شریف صاحب کو شاید پسند نہ کرتے ہوں اور انھوں نے ان کو باہر جانے کے لیے جو شرائط عائد کیں وہ یہ تھیں کہ وہ سات ارب روپیہ بطور ضمانت جمع کرائیں اور یہ دستاویزی یقین دہانی کرائیں کہ وہ چار ہفتے میں واپس آجائیں گے۔ جب کہ وہ تقریباً اتنی ہی رقم کی ضمانت اور مچلکے اسی مقصد کے لیے عدالت میں جمع کراچکے تھے۔
یہ جو کچھ بیان کیا محض پس منظر تھا، اصل صورتحال یہ تھی کہ بعض وزرا نواز شریف صاحب کے باہر جاکر علاج کرانے کے مخالف تھے اور اس بات کو چھپاتے بھی نہ تھے۔ شریف خاندان کے لیے انتہائی دل آزاری کے انداز میں ان کے باہر جانے پر اعتراض کرتے مگر آخر میں یہ ضرور کہتے ہماری خواہش ہے کہ وہ صحت یاب ہوکر واپس آئیں اور ملک میں سیاست کریں۔
اس سلسلے میں جو ذیلی کمیٹی بنائی گئی تھی اس میں جو ذمے داران شامل تھے انھوں نے تمام قانونی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انتہائی احتیاط سے اپنی سفارشات مرتب کیں اور کابینہ کو پیش کیں۔ اب کابینہ نے ان کو منظور کیا تو یہ وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کا کام تھا کہ وہ ان سفارشات کو کابینہ کے فیصلے کے طور پر پیش کرتے مگر یہ پیش کیا وزیر قانون نے، جو خود اس ذیلی کمیٹی کے سربراہ تھے۔ گویا ساری ذمے داری کمیٹی ہی کے سر رہی۔ اور کمیٹی نے خالص قانونی انداز میں اپنا فیصلہ سنا دیا کہ نواز شریف صاحب یا ان کی طرف سے عرض گزار واپسی کی یقین دہانی اور سات ارب روپے بطور زر ضمانت جمع کرا کے باہر جاسکتے ہیں۔
وہ یہ کرسکتے ہیں یا نہیں یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہوگا۔ ہماری تو یہی خواہش ہے کہ وہ باہر جائیں علاج کرائیں اور واپس وطن آئیں۔ ہم ان کی صحت کے لیے دعا گو ہیں۔ یہ دعائیہ کلمات کس قدر سیاسی ہوتے ہیں اہل سیاست جانیں، مگر ہوا یہ ہے کہ ایک مریض جس کو باہر جاکر علاج کرانے کے لیے ڈاکٹروں نے تجویز دی تھی وہ اس علاج سے محروم رہے گا کیونکہ یہ سات ارب کا زر ضمانت بڑی کامیاب سیاسی چال ہے اور یہ سیاست سیاستداں کسی وقت بھی نہیں چھوڑتے اور یہ سیاسی چال لاہور ہائیکورٹ نے ناکام بنا دی اور انھیں غیر مشروط طور پر ایک ماہ کے لیے ملک سے باہر علاج کروانے کی اجازت دے دی۔ ہماری دعا ہے کہ نوازشریف صحتمند ہوکر واپس وطن لوٹ آئیں۔