گزشتہ تین دہائیوں سے ہم دیکھتے چلے آئے ہیں کہ ہمارے سیاستدان عوام کو بتاتے چلے آئے ہیں کہ ان کی " اولین ترجیح " کیا ہے۔ عمران خان کی موجودہ حکومت نئے پاکستان کی خالق ہے اس لیے وہ گزشتہ حکمرانوں کے نقش قدم پر چلنا پسند نہیں کرتی مگر بعض امور میں اسے یہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ یہ عمل وہ مجبوراً نہیں بلکہ بہ رضا و رغبت انجام دیتی ہے کیونکہ اسے اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ ایسے ہی اقدامات میں سے ایک اقدام " اولین ترجیح " کا تعین بھی ہے۔
وزیر اعظم اور ان کے وزراء جب کسی تقریب کے مہمان خصوصی ہوتے ہیں اور کسی سماجی طبقے کے مہمان گرامی ہوتے ہیں تو اپنی تقریر میں وہ اپنی اور اپنی حکومت کی "اولین ترجیح " کا ذکر ضرورکرتے ہیں اور ہم ان اولین ترجیحات کا ذکر سنتے سنتے اب پتھرکے ہوچکے ہیں اور ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا ہے۔ مثلاً وزیر اعظم سائنسدانوں کے ایک اجتماع سے خطاب فرما رہے تھے تو فرمایا کوئی قوم بغیر سائنسی علوم کو اپنائے ترقی نہیں کرسکتی اس لیے حکومت کی "اولین ترجیح" سائنسی علوم کا فروغ اور سائنسی میدان میں اس کی ترقی ہے۔ بھلا اس نیک کام سے کس کو اختلاف ہو سکتا ہے اور کیوں کر ہو کہ یہ ایک بڑی صداقت ہے۔ جو قوم ترقی کرنا چاہے اسے سائنسی علوم اور تکنیکی امور میں مہارت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔
ہمارا ایٹمی پروگرام ایک عرصے تک صیغہ راز میں رہا۔ پھر یہ راز بڑی طاقتوں پر فاش ہوگیا اور ان کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ ہم یورینیم کی افزودگی میں کس قدر کامیاب ہو چکے ہیں اور کیا ہم ایٹمی طاقت بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان طاقتوں نے اپنے سارے وسائل اس بات کو معلوم کرنے میں لگادیے ہونگے مگر ان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ اس وقت پاکستان واقعی ایٹمی صلاحیت کے حصول میں سنجیدہ تھا اس لیے اس وقت کی حکومت نے اپنی " اولین ترجیح" کا اعلان نہیں کیا اور خاموشی سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا تاآنکہ وہ یورینیم کی افزودگی میں کامیاب ہوگئی اب مرحلہ صرف یہ رہ گیا تھا کہ کیا ہم ایٹمی دھماکہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرچکے ہیں۔
اس موقع پر بھی ہم نے اپنی "اولین ترجیح" کا ڈھول نہیں پیٹا۔ یہاں تک کہ بھارت کی شامت اعمال نے اسے ایٹمی دھماکے کرنے پر آمادہ کرلیا اس نے تین دھماکے داغ دیے اس وقت ہماری "اولین ترجیح" دھماکے کرنا قرار پائی۔ امریکا کے اس وقت کے صدر نے نواز شریف کو دھماکے کرنے سے باز رکھنے کے لیے فون پر فون کیے مگر نواز شریف نے فون ہی نہ اٹھایا کیونکہ ان کی "اولین ترجیح" دھماکے کرنا تھی اور انھوں نے کیے۔ ہندوستان سے ایک دھماکہ زیادہ کرکے انھوں نے ساری دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان اب اسلامی دنیا کی اولین ایٹمی قوت ہے اور دنیا کی چند ایٹمی قوتوں میں اس کا بھی شمار ہوتا ہے مگر یہ سارا عمل "اولین ترجیح" کی دھمال ڈالے بغیر ہوا۔
یہ "اولین ترجیح" اس مندرجہ بالا موقع کے علاوہ ہمارے سیاستدانوں کا محبوب ترین وظیفہ لب رہا ہے۔ اور وہ ہر موقع پر اور عموماً موقع بے موقع " اولین ترجیح " کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یہ وہ سیاسی اسلوب ہے جو ماضی کی حکومتوں سے پی ٹی آئی کو ورثے میں ملا ہے اور اس نے اسے بلا کسی تکلف کے اپنا لیا ہے ورنہ ورثے میں تو اسے خالی خزانہ، دیوالیہ ہونے کے قریب معیشت، مہنگائی کا فروغ وغیرہ بھی ملے مگر وہ اس پر جو واویلا مچاتی رہی ہے کہ الامان الحفیظ۔ مگر " اولین ترجیح" کے اظہار کو اس حکومت نے بھی بخوشی قبول کرلیا ہے اور اب یہ اس کا بھی اسی طرح شیوہ ہے جس طرح سابقہ حکومتوں کا تھا۔
تجربہ بتاتا ہے کہ جس کام یا مقصد کو "اولین ترجیح" قرار دے لیا جائے اس کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔ بخیر کیا نہیں ہوتا سرے سے انجام ہی نہیں ہوتا بس ابتدا ہو کر رہ جاتی ہے۔
اب مثال کے طور پر وزیر اعظم اگر ریلوے کی کسی تقریب میں گئے۔ کسی نئی لائن کا افتتاح فرمایا تو ارشاد ہوتا ہے۔ ملک میں ریلوں کا جال بچھادینا ہماری حکومت کی "اولین ترجیح" ہے مگر کچھ دن بعد ہی ایک گاڑی میں آگ لگ جاتی ہے اور درجنوں افراد جل کر خاکستر ہو جاتے ہیں۔ ہمیں علم نہیں کہ ان کے ورثا کو معاوضہ دیا گیا یا نہیں۔ روایت تو یہی ہے کہ معاوضہ ہنوز نہیں دیا گیا ہوگا جب کہ اس کے بعد بھی ریلوں کے چھوٹے بڑے حادثے ہو چکے ہیں۔ اب "اولین ترجیح" جال بچھانے کے بجائے حادثوں سے دوچار کرنا ہوگیا۔ ایک بار ایک وزیر باتدبیر کسی تعلیمی ادارے میں کسی علمی محفل کی صدارت کرنے تشریف لے گئے (حالانکہ ان کا علم سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا) فرمایا کہ علم کا فروغ اور علمی سرگرمیوں میں اضافہ ہماری حکومت کی "اولین ترجیح" ہے۔ بس ان کا علم سے اس حد تک تعلق تھا کہ اسے "اولین ترجیح" قرار دے دیں۔
ایک اور وزیر کرکٹ اکیڈمی میں گئے۔ کرکٹ ہمارا مقبول ترین کھیل ہے اور حکومت اس کے فروغ میں پہلے بھی قابل تعریف اقدامات کرتی رہتی ہے۔ خیال رہے کہ خود وزیر اعظم کا شمار کرکٹ کے عظیم کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ وہاں بھی وزیر موصوف نے کرکٹ کے فروغ کو اپنی اور اپنی حکومت کی "اولین ترجیح" قرار دیا۔
فٹبال کے کھلاڑیوں کو ان کے اس اعلان سے بڑی مایوسی ہوئی چنانچہ فٹبالر ایسوسی ایشن والوں نے بھی وزیر موصوف کو اپنے یہاں مدعو کیا۔ وہ لیاری تشریف لے گئے لیاری میں فٹبالرز کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا اور فٹبال کے فروغ کو اپنی حکومت کی "اولین ترجیح" قرار دیا۔ فٹبال کے کھلاڑی بھی خوش ہوگئے ان کے قد بھی ایک ایک انچ بڑھ گئے مگر فٹ بال کا کھیل وہیں کا وہیں رہا۔
ہمارے یہاں کبڈی صدیوں سے کھیلی جاتی ہے۔ ادھر انگریزی کھیلوں نے "دیسی کھیلوں " کو غیر مہذب قرار دے کر طاق نسیاں میں رکھ دیا تھا۔ اب کچھ جیالوں کو زور آزمائی کا شوق چڑھ آیا تو انھوں نے بین الاقوامی کبڈی ٹورنامنٹ کا انعقاد کر ڈالا۔ یہ کھیل آج کل جاری ہے اور واقعی متعدد اور مختلف ممالک سے کبڈی کی ٹیمیں آئیں تو اندازہ ہوا کہ واقعی یہ کھیل بھی بین الاقوامی ہوگیا۔ اب جب اس کی تقریب تقسیم انعامات منعقد ہوگی تو مہمان خصوصی جو یقیناً کوئی دبلے پتلے، کبڈی ناآشنا وزیر ہوں گے اور اعلان فرمائیں گے کہ ان کی حکومت کی "اولین ترجیح" مشرقی کھیلوں خصوصاً کبڈی کا فروغ ہے۔
اللہ کا بڑا کرم ہے کہ ابھی تک چوروں، جیب کتروں، ڈاکوؤں نے اپنی انجمنیں نہیں بنائی ہیں ورنہ وزیر صاحبان ان کی انجمنوں میں جا کر اعلان کیا کرتے کہ ان کی حکومت کی "اولین ترجیح" چوری چکاری کا فروغ یا جیب تراشی میں مہارت یا ڈاکہ زنی کی حوصلہ افزائی ہے۔ آخر یہ سب بھی تو پیشے ہیں۔ اگر دوسرے پیشوں کی حوصلہ افزائی کے لیے "اولین ترجیح" کا وظیفہ کافی و شافی ہے تو ان پیشوں کی حوصلہ افزائی کے لیے یہ وظیفہ لب کیوں نہیں۔ کیونکہ معاملہ وظیفہ لب سے آگے جانا تو ہے نہیں پھر ڈر کس بات کا؟