بالآخر عدالت عظمیٰ نے کراچی میں غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کا حکم صادر فرما دیا اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے اس حکم پر فوری کارروائی کرتے ہوئے چھ شادی ہالوں سمیت 40 غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کر ڈالا۔ عدالت عظمیٰ کے حکم پر یہ فوری عمل درآمد اسی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے کیا جو ان عمارتوں کی تعمیرکا باعث تھی۔
یہ ہمارا عائد کردہ الزام نہیں ہے بلکہ اس دوران ایک حادثہ نمودار ہوا، مگر اس حادثے سے قبل ایک اور خبر پر بھی نظر ڈال لیجیے۔ یہ خبر بھی عدالت عظمیٰ ہی کے احکام کے تحت بنی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نشاندہی کی تھی کہ دہلی کالونی میں ساٹھ گزکے پلاٹ پر ایک چھ منزلہ عمارت تعمیر کردی گئی ہے جسے فوراًمنہدم کردیا جائے۔
چنانچہ اس حکم پر بھی عمل درآمد ہوا اور عمارت منہدم کی جا رہی ہے۔ دہلی کالونی کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے زیر انتظام آتی ہے، اس علاقے میں یہ واحد عمارت نہیں ہے جو پانچ چھ منزلہ بھی ہو اور ساٹھ یا اسی گزکے پلاٹ پر تعمیر کی گئی ہو۔ نہ صرف یہ کہ اس علاقے میں ایسی درجنوں عمارتیں موجود ہیں بلکہ ان میں سے بیش تر سرکاری زمین یعنی سڑکوں اورگلیوں کو مکانوں کے اندر داخل کرکے بنائی گئی ہیں اور اس طرح دہلی کالونی کی گلیاں اتنی تنگ ہوگئی ہیں کہ ان میں دو آدمی بھی بیک وقت نہیں گزر سکتے، مگر کلفٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے ارباب حل وعقد کو وہ عمارتیں نظر نہیں آرہی ہیں۔ انھوں نے صرف ایک عمارت کو مسمارکرکے عدالت عظمیٰ کے غم و غصے پر آب پاشی کو مناسب سمجھا ہے۔
اسی دوران گل بہارکالونی میں ایک افسوس ناک واقعہ ہوا۔ ایک پانچ منزلہ عمارت چھ منزلہ بنانے کے چکر میں زمیں بوس ہوگئی اورکچھ اس انداز میں گری کہ اپنے ساتھ دو اور مکانوں کو بھی لے ڈوبی۔ تین مکانوں کا ملبہ تین دن تک اٹھایا جاتا رہا۔ بھاری مشینری لائی ہی نہ جاسکی یا اس کی رسائی وہاں تک ممکن ہی نہ تھی۔ چند لوگ زندہ بچا بھی لیے گئے مگر اس ملبے کے تحت تین روز تک دبے رہنے کے بعد تقریباً ایک درجن سے زیادہ افراد اپنی جان سے جاتے رہے۔ اس حادثے میں ایک پروفیسر صاحب کے خاندان کے تقریباً سات افراد جان سے گئے۔ شاید دو ایک بچے بچ رہے جو خوش قسمتی یا بدقسمتی سے اس وقت گھر پر موجود نہ تھے۔
ہمارے یہاں کسی مرنے والے، کسی زخمی یا کسی نقصان اٹھانے والے کو معاوضہ ادا کرنے کا رواج نہیں۔ پھر بھی اس ٹھیکیدار کی تلاش شروع ہوئی جو عمارت پر چھٹی منزل تعمیرکر رہا تھا۔ تین چار روز کے بعد ٹھیکیدار بھی برآمد ہو گیا اور اس نے بتایا کہ اس نے اس عمارت کی تعمیر کے لیے فی چھت ایک لاکھ کی رشوت متعلقہ محکمے کو دی ہے۔
غیر قانونی عمارتوں کو مسمار کرنے کا عام حکم دیا جائے تو کراچی ایک کھنڈرات کا ڈھیر بن جائے گا کیونکہ اس شہر میں غیر قانونی تعمیرات کی تعداد کا تعین دشوار ہے۔
جس الزام کا ہم نے اوپر ذکرکیا ہے یہ الزام ٹھیکیدار نے عائد کیا ہے اور اللہ لگتی بات یہ ہے کہ اس نے بات سو فی صد درست کہی ہے البتہ یہ ساٹھ گز زمین کے مالک، اس پر تعمیر کرنے والے ٹھیکیدار اور اس کی اجازت دینے والے ادارے مالی فوائد، دنیا طلبی اور انسانی جانوں کے اتلاف سے عدم دلچسپی کے باعث ہوا ہے اور یہ سب عبرت ناک سزا کے مستحق ہیں۔
عمارتوں کو مسمارکر دینا نہایت آسان کام ہے لیکن اگر ٹھیکیدار بھی یہی رہے، مالک زمین بھی ایسا ہی ہو اور اجازت دینے والے ادارے بھی اسی طرح رشوت لے لے کر کام کرتے رہیں تو ایسی عمارتیں بنتی رہیں گی اور جب کبھی سپریم کورٹ کے علم میں آجائے تو مسمار کردی جائیں گی۔
دراصل طریقہ واردات معلوم ہو جانے کی صورت میں بات واضح ہو چکی ہے اور جب تک اصل سبب کو رفع نہ کیا جائے اس عذاب سے نجات نہیں مل سکتی۔ لوگ اسی طرح "بے موت" مرتے رہیں گے اور ان کو معاوضہ بھی ادا کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
طریقہ واردات یہ ہے کہ نقشہ دو منزل کا پاس ہوتا ہے پھر ایک لاکھ فی چھت کے حساب سے رشوت وصول کی جاتی ہے اور پانچ چھ منزلہ عمارت حسب توفیق تعمیر ہو جاتی ہے۔ رشوت کا پردہ افسران متعلقہ کی نظروں پر اس طرح پڑجاتا ہے کہ ان کو تعمیر ہوتی عمارت نظر نہیں آتی اور جب لوگ اس میں رہائش اختیار کرلیں تو اس کا مسمارکرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
اس لیے عمارتوں کے مسمارکرنے سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہر غیر قانونی منزل پر ایک لاکھ روپیہ جرمانہ کرکے اس افسر کی تنخواہ سے منہا کیا جائے جس نے اجازت دی تھی اور اگر سبک دوش ہو چکا ہو تو اس کی پنشن سے لیا جائے اور متاثرہ افراد کو یہ رقم ادا کی جائے۔ متاثرہ افراد سے مراد صرف مرنے والے نہیں بلکہ زخمی بے قصور لوگ مثلاً ایسی عمارتوں کے کرایہ داروں اور نقصان اٹھانے والوں کو ادا کیا جائے تاکہ آیندہ کسی کی بینائی اس قدر کمزور نہ ہو کہ اسے چھ منزلہ عمارت نظر نہ آئے۔