سوئیڈن کا بدنام زمانہ کارٹونسٹ جس نے قابل اعتراض کارٹون بنائے تھے، گزشتہ دنوں ٹریفک کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگیا۔ اس نے 2007 میں ڈنمارک کے کارٹونسٹ وسٹرگارٹ اور فرانسیسی کارٹونسٹ کے ساتھ مل کر یہ کارٹون بنائے تھے۔
ڈنمارک کا کارٹونسٹ وسٹرکارڈ جولائی کے مہینے میں کوپن ہیگن میں اپنے غسل خانے میں عبرت ناک موت سے دوچار ہوچکا ہے۔ اب سوئیڈن کا یہ کارٹونسٹ ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوا۔ کارٹون شایع کرنے کے بعد سے وہ گزشتہ 14 سالوں سے سخت حفاظتی حصار میں رہتا تھا اور کم ازکم دوگارڈ اس کے ساتھ ضرور رہتے تھے۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ خاکوں کی اشاعت کے بعد پورے عالم اسلام میں اس کے خلاف شدید ردعمل ہوا تھا اور خدشہ تھا کہ کوئی بھی مسلمان اس کی جان لے سکتا ہے، اس لیے وہ خصوصی حفاظتی انتظامات کے تحت زندگی گزار رہا تھا۔
سوئیڈن کی حکومت کے خدشات بے بنیاد نہیں تھے۔ پورا مغربی معاشرہ اچھی طرح واقف ہے کہ مسلمان اپنے رسولؐ کی ذات گرامی سے کسی کو کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے، اس لیے انھوں نے خاکوں کی اشاعت اور اس پر مسلم معاشرے کے ردعمل کو دیکھتے ہوئے، اس کے تحفظ کے لیے خصوصی انتظامات کیے تھے۔ اس کے باوجود اس پر دو مرتبہ قاتلانہ حملے ہوچکے تھے۔
2015 میں ایک مسلم نوجوان عمرالحسین نے ایک کیفے میں ایک تقریب کے دوران اس پرگولیاں برسا دی تھیں مگر خوش قسمتی سے وہ بچ گیا تھا۔ اس کے بعد تو اس کی حفاظت سخت کر دی گئی۔ 14 سال سے وہ حفاظتی حصار میں زندگی گزار رہا تھا اور اس کے محافظ اس کا بڑا خیال رکھتے تھے، یہاں تک کہ وہ کئی کئی دن سورج کو نہیں دیکھ پاتا تھا کیونکہ حفاظتی عملہ اسے تہ خانے میں محدود رکھتا تھا۔ ایسی بیزار زندگی گزارتے ہوئے اسے چودہ سال ہوچکے تھے، اگر وہ باہر نکلتا تو اسپیشل فورس کے دو جوان اس کے ساتھ ہوتے تھے، اپنی موت کے دن بھی وہ دو حفاظتی اہل کاروں کے ہمراہ کسی وجہ سے باہر نکلا تھا اور مرکرائسڈ موٹروے E4 پر اس کی کار نے ایک دوسری گاڑی کو اوور ٹیک کیا اور تیز رفتاری کے باعث آگے جانے والے ٹرک سے ٹکرا گئی۔
چشم دید گواہوں کا بیان ہے کہ گاڑی ٹرک سے ٹکرانے کے بعد چند سیکنڈ میں آگ کا گولہ بن گئی۔ لارس ویلکس اور اس کے دونوں محافظوں کوگاڑی سے نکلنے کا موقعہ نہ مل سکا۔ ان کی چیخیں البتہ سنائی دیتی رہیں مگر ان کی مدد نہ کی جاسکی اور لارس اور اس کے دونوں محافظ جل کر کوئلہ بن گئے اور ان کی شناخت بھی ممکن نہیں رہی۔
سوئیڈن کی حکومت نے اس کی موت پر اس امکان کو نظرانداز نہیں کیا تھا کہ اس کی موت کسی انسانی کوشش کے سبب ہوئی ہو، یقینا اسے کسی نے ہلاک کرنے کی دانستہ کوشش کی ہو، مگر فوری طور پر اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا، اس کے باوجود حکومت نے اس کی موت کی جامع تحقیقات کے لیے اسپیشل پراسیکیوٹر مقرر کردیا ہے، لیکن دو ہفتے سے زیادہ گزرنے کے باوجود ایسے کوئی شواہد نہیں مل سکے کہ اس کی موت میں انسانی ارادے کو دخل رہا ہو۔
خدا جانے اہل یورپ صرف عقلی دلائل پر انحصار کرتے ہوں اور انھیں اس کی موت کے لیے اسباب کی ضرورت محسوس ہوتی ہو، جب کہ مسلم دنیا نے اس موت کو اللہ کا انتقام قرار دیا ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلم دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو لارس ویلکس کی جرأت کے جواب میں اپنی جرأت رندانہ کے مظاہرے سے باز نہیں آسکتے اور کسی نہ کسی وقت انتقامی کارروائی کرسکتے ہیں، مگر مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ حکومتی طاقت کی بنا پر اسے جرم کرنے پر انسانی تحفظ حاصل ہو جائے تو پھر خدا اپنی چال چلتا ہے۔
لارس ویلکس کو اس کے جرم کی سزا اس کے ملک کی عدالت نہ دے سکی۔ اس معاشرے نے تو بے جا طور پر اس کی اس جرأت خبیثانہ کو اظہار رائے کا انداز قرار دیا، جب کہ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر حق فرض کا پابند ہوتا ہے، آپ کو اظہار رائے کا حق ہے مگر کسی کی دل آزاری کی قیمت پر نہیں، یہ مسلمہ اصول ہے اور مغرب بھی اس اصول کو تسلیم کرتا ہے، مگر جب مسلمانوں کا معاملہ آجائے تو پھر مغربی معاشرے کی اصول پسندی ہوا ہو جاتی ہے، آنکھوں پر پٹیاں بندھ جاتی ہیں اور ہر اصول، ہر حقیقت کو بے حقیقت بنا دیا جاتا ہے۔
اگر اس شخص کی اس جرأت پر مسلم معاشرے کی دل آزاری کے سبب خود ان کی حکومت کوئی انضباطی کارروائی کرتی تو مسلمان کیوں قانون کو ہاتھ میں لیتے۔ وہ آپ ہی کے قوانین کے مطابق اس کے خلاف معمولی سزا کو بھی مغربی معاشرے کا انصاف سمجھ لیتے، مگر جب مغربی "جمہوریت " خود نا انصافی پر اتر آئے تو فرد قانون کو ہاتھ میں لے لیتا ہے۔
یہاں تو فرد زیر بحث ہی نہیں ہے۔ خاکے بنانے والا تین افراد میں سے ڈنمارک کا کارٹونسٹ وسٹرکارڈ اپنے غسل خانے میں عبرت کی موت مرا، اسے کسی انسان نے قتل نہیں کیا تھا، اب دوسرا خطاکار لارس ویلکس ٹریفک حادثے کی نذر ہوا۔ اس کی اور اس کے محافظوں کی لاشیں جل کر کوئلہ ہوگئیں اور ناقابل شناخت قرار پائیں۔ اس حادثے میں انسانی ہاتھ کی کارفرمائی تلاش کی جا رہی ہے، مگر وہ ناپید ہے۔
خدا اپنے رسولؐ کی شان میں گستاخی کو پسند نہیں فرماتا، اس لیے اسے اپنے رسولؐ کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے کسی انسانی ہاتھ کی ضرورت نہیں۔ یہ بات اگر مغرب کی سمجھ میں آجائے تو آیندہ کے لیے ایسے جرائم رک سکتے ہیں، ورنہ جرائم بھی ہوتے رہیں گے اور خدائی گرفت بھی جاری رہے گی۔