تعلیم کو لے کر ہم کوتاہ نظر تو تھے ہی لیکن اس معاملے میں ہم بالکل ہی مجبور ہو جائیں گے اس کا اندازہ اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد سامنے آیا۔ صوبائی خودمختاری سے ترقی یافتہ ممالک نے مزید ترقی کے زینے طے کیے ہیں۔ اس قسم کی گورننس کی ضرورت ہے خاص طور پر جب آبادی کا تناسب بڑھ جائے یا ملک مختلف ثقافتوں کا مجموعہ ہو تو اختیارات کا نچلی سطح پر منتقل ہونا بہترین نئائج لاتا ہے۔ ویسٹ منسٹر پر مبنی پارلیمانی نظام اسی قسم کے حکومتی ماڈل پر استوار ہے۔ گو امریکہ میں صدارتی نظام ہے لیکن وہاں بھی ہر ریاست اپنے معاملات چلانے میں آزاد ہے۔ انڈونیشا اور بھارت نے ایسے ہی انتظامی ماڈل کو اپنایا ہے۔ یہ سب ممالک اس نظام کے اندر خوش اسلوبی سے چل رہے ہیں اور انہوں نے ترقی بھی کی ہے۔ بھارت کے شہر گجرات نے دوسرے شہروں کے مقابلے میں بہت ترقی کی اور اسی کی بنیاد پر نریندر مودی کو وزارت عظمیٰ کا امید وار بننے میں آسانی ہوئی۔ انڈونیشیا میں 34 صوبے ہیں اور سب وفاق کے ساتھ ہم آہنگ اور خود مختار۔ لیکن ہمارے یہاں بدقسمتی سے معاملہ مختلف ہی رہا ہے۔ یہاں صوبوں کی خودمختاری کو ترقی کے بجائے طاقت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے اور صوبے اپنے آپ کو الگ ریاست کے طور پر تصور کرنے لگے ہیں۔ اسی لیے تو پاکستان میں بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کی مداخلت کے بغیر آئینی ذمہ داری سمجھ کر نہیں کرائے جاتے۔ طاقت کو چند افراد یا گروہوں تک محدود رکھنے کی سوچ ہی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان باہمی چپقلش اور بیرونی قرضوں کی زد میں رہا ہے، یہاں نہ توفیصلہ سازی ملکی مفاد کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے اور نہ ہی عوامی مسائل کو سامنے رکھ کر قانون سازی اور قوانین پر عملداری ممکن ہوسکی۔
بات تعلیم اور اٹھارویں ترمیم کی ہورہی تھی۔ 9 اپریل 2010 کو صدر آصف علی زرداری نے اٹھارویں ترمیم پر دستخط کر کے نہ صرف پاکستانی آئین کو بہت سی آمریت زدہ ترامیم سے پاک کیا بلکہ صوبوں کو بہت سارے معاملات چلانے کا اختیار بھی سونپ دیا۔ جن میں ایک شعبہ تعلیم بھی تھا۔ گیارہ سال گزرنے کے باوجود تعلیم کا اونٹ کروٹیں بدل رہا ہے۔ اگر کہا جائے کہ اونٹ کی حالت پہلے سے بدتر ہو گئی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر شعبہ تعلیم وفاق کے پاس ہوتا تو منظر مختلف ہوتا، نہ ہی یہ کہہ سکتے ہیں کہ صوبوں نے تعلیم کے شعبے میں بہتری لانے کی کوشش نہیں کی۔ مسئلہ شائد کار نظام میں ہے جو پارٹنر شپ اور باہمی تعاون کو معاونت فراہم نہیں کرتا۔ پچھلے گیارہ برسوں میں کوئی بھی صوبہ سکول سے محروم بچوں کی تعداد میں کمی لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ آج کے دن تک پورے ملک میں ان بچوں کی تعداد 18.7 ملین ہے۔ جہاں کوویڈ کے پیش نظر وفاقی حکومت نے فاصلاتی تعلیم کے لیے ٹیلی سکول اور ٹیکنالوجی کی سہولیات فراہم کرنے کا بندوبست کیاوہیں صوبوں کی اس جہت میں کارکردگی نہ ہونے کے برار رہی۔ اس لیے نہیں کہ وہ کرنا نہیں چاہتے تھے یا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے۔ حقیقت شائد اس سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اٹھارویں ترمیم نے اپنے مقصد کے برعکس وفاق کی تمام اکائیوں کے درمیان عدم اعتماد اور تناؤ کی فضا پیدا کر دی ہے۔ یہ کلچر صرف وفاق اور صوبوں کے درمیان ہی نہیں بلکہ صوبے آپس میں بھی اسی عدم اعتماد اور تناؤ کا شکار ہیں۔
کوئی ایسا مرکزی ادارہ نہیں ہے جو صوبوں کی شعبہ تعلیم میں کارکردگی پر نظر رکھے۔ جبکہ صوبے شعبہ تعلیم سے متعلق پلاننگ وفاق سے ملنے والے بجٹ کے حجم اور ترسیل کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ اعتماد اور احتسابی عمل کی عدم موجودگی کی وجہ سے صوبے نہ صرف تعلیم سے متعلق اپنے مینڈیٹ سے انحراف کر رہے ہیں بلکہ تعلیمی اخراجات کا غلط استعمال بھی کیا جارہا ہے۔ بہت سے صوبوں میں بلا وجہ یونیورسٹیز تعمیر کی گئی ہیں۔ طالب علم تو دور کی بات ان جامعات میں اساتذہ کی بھی سہولت نہیں۔ طلبا اور استاد میں سے کوئی بھی ان جامعات میں جانا نہیں چاہتا۔ جامعہ پشاور مالیاتی اعتبار سے بالکل بیٹھ چکی ہے۔ ایک ہائی لیول رپورٹ کے مطابق اس کسمپرسی کی وجہ دس برسوں میں تعلیی بجٹ کے بڑے حصے کا 2756 غیر قانونی اور خلاف ضابطہ بھرتیوں، بے جا آسائشوں اور مختلف الاونسوں پر بے دریغ پیسہ خرچ کرنا ہے۔ یہ تو ایک مثال ہے اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ سندھ کا ایک ایک سکول بلکہ داود انجنئیرنگ یونیورسٹی بھی کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہے۔ کراچی یونیورسٹی کا بھی تقریبا یہی حال ہے۔ وفاقی تحویل میں جب یہ ادارے تھے تو ملک بھر سے طالب علم تعلیم حاصل کرنے مختلف شہروں سے آتے جس سے نہ صرف ثقافتی ہم آہنگی کی صورت نکھرتی بلکہ جامعات کی ترقی و ترویج احتسابی عمل کی وجہ سے یقینی بنانا ممکن ہوتا۔ اسی طرح کسی بھی صوبے میں اساتذہ کی تربیت پر کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہوا۔ مساوی نصاب کا معاملے ہی لے لیں۔
اس کا اطلاق وفاق یا پنجاب تک محدود ہو گا یا جہاں اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ ایسی روش نہ صرف تعلیمی پالیسی کو غیر موثر بناتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر تعلیم کے شعبے میں ملنے والی گرانٹ بھی تعطل اور بے ضابطگیوں کا شکار ہو سکتی ہے۔ وزارت تعلیم نے عالمی مالیاتی بنک سے مختلف پراجیکٹس کے لیے 240 ملین ڈالرحاصل کیے ہیں۔ پاکستان کے لیے تعلیمی پسماندگی دور کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ تعلیم کیا کسی بھی شعبے میں ترقی کے لیے باہمی رواداری اور اتفاق نا گزیر ہے۔ اٹھارویں ترمیم کا مقصد بھی یہی تھا۔ لیکن اگر اس سے مطلوبہ نتائج نہیں نکل رہے تو کیوں نہ اس ترمیم پر از سر نو غور کیا جائے اور اگر ضرورت پڑے تو اس سے بہتر ترمیم لا کر ملک کو بچانے کی سعی کی جائے۔ اس میں حرج کیا ہے؟