پاکستان سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں میں اسرائیل کے خلاف شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس غصے کی حرارت فلسطینیوں پر اسرائیلی حملے کے دوران بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت تین ممالک ایسے ہیں جن کے حوالے سے مسلمانوں کا ماننا ہے کہ ان پر غیر مسلموں کا غلبہ ہے اور چونکہ ان علاقوں میں اسلام کے خلاف صیہونی طاقتیں نبردآزما ہیں اس لیے ان پر یلغار دراصل اسلام پر یلغار ہے۔ ہمارے یہاں فلسطین، کشمیر اور افغانستان کے حوالے سے جو حساسیت پائی جاتی ہے اس کا تعلق مسلمانوں کی مظلومیت سے ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں پر ان تمام ممالک میں ظلم ہوا اور ہو رہاہے۔ لیکن اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان تینوں علاقوں پر تسلط کی وجہ اسلام کو زک پہنچانا نہیں بلکہ یہ تینوں علاقائی مسئلے ہیں اور ان کا حل اگر اسی تناظر میں ڈھونڈھا جاتا تو اچھا ہوتا۔ کچھ سال پہلے آئی ایس پی آرکے تعاون سے مظفر آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ کشمیر لبریشن سیل کے آفس میں بریفینگ تھی۔ اس وقت کے ڈائریکٹر نے جہاں یہ بتایا کہ انکے ادارے کی کارکردگی صفر ہے وہیں اس بات کا بھی اظہار کیا کہ کشمیر کی جدوجہد آزادی کو سب سے زیادہ نقصان Islamization یعنی اسلامی پیراہن نے دیا۔ ہم نے جہاد کے ذریعے کشمیریوں کو کمک پہنچانے کی کوشش کی جس سے کشمیر کی جدوجہد پاکستان اور بھارت تنازع میں بدل گئی۔ اس شورش کو کچلنے کے لیے بھارت نے سات لاکھ فوج کشمیر میں اتار دی۔ شائد اگر پاکستان سیاسی بصیرت سے اور انسانی محاذ پر کشمیریوں کی مدد کرتا تو نوبت اس طرح کی بربریت تک نہ آتی۔ گو آج ہم اسے انسانی حقوق کا مسئلہ قرار دیتے ہیں لیکن جارحیت کی پالیسی نے ہمیں اتنا حقیر بنا دیا ہے کہ کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں۔
افغانستان کو بھی اسی طرح جہاد کی نظر کر دیا گیا۔ اس پالیسی کو بنانے والے پاکستانی نہیں بلکہ امریکی خود تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جہادی لٹریچر کی تدوین اور ترقی کے لیے امریکی فنڈ سے باقاعدہ ایک ادارہ قائم کیا گیا۔ اسلامی اور سیاسی جماعتوں، جن میں جماعت اسلامی اور جمعیت علما اسلام پیش پیش تھیں، کے ذریعے اشتراکیت کے مد مقابل اسلامی نظریے کی آبیاری کی گئی۔ اس لٹریچر کے ذریعے پہلے پاکستان اور پھر دوسرے اسلامی ممالک میں افغانستان میں جاری جنگ کو کفر اور اسلام کی جنگ بنا دیا تاکہ جہاد کے ذریعے افغانستان کو روس کے خلاف نبرد آزما ہونے کے لیے کمک پہنچائی جاسکے۔ بعد میں امریکہ اور نیٹو نے اسی جہاد کو کچلنے کے لیے لاکھوں کی تعداد میں فوج افغانستان میں اتار دی۔ اگر روس کے انخلا کے بعد ہم افغانستان کی سیاسی بنیادوں پر رہنمائی کرتے تو شائد معاملات اس کے برعکس ہوتے جو آج ہیں۔ آج کے دن تک روز افغانستان میں بے گناہ شہریوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ جس دن اسرائیل نے بیت المقدس کے نماز میں مشغول مسلمانوں پر حملہ کیا عین اسی دن کابل میں واقع سید الشہدا سکول میں دھماکے سے 90 سے زاید لڑکیاں ہلاک کر دی گئیں۔ لیکن ہماری حمیت کو افغانیوں کے قتل سے اتنا فرق نہیں پڑتا جتنا کشمیر یا فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے پڑتا ہے۔ حالانکہ اسرائیلی تسلط میں رہنے والے فلسطینی مستقل اذیت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بہر حال اتنے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی تقاضا کرتی ہے کہ ہم فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کریں اور انکی صفوں میں انکے ساتھ کھڑے ہونے کا دعویٰ بھی کر دیں۔
فلسطین بھی افغانستان اور کشمیر کی طرح جہادی فلسفے کی نذر ہو گیا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینیوں کی سر زمین پر زبر دستی قبضے کا تقاضا تھا کہ نہ صرف اس تنازع کو یہودیوں کی مسلمانوں کے خلاف سازش سمجھا جاتا بلکہ اس سے بڑھ کر اسے مشرق وسطیٰ میں مسلمان ممالک کو غیر محفوظ اور صیہونی طاقتوں کے زیر نگوں کرنے کی ایک سوچی سجمھی سٹریٹیجی کے طور پر بھی لیا جاتا۔
ستر کی دہائی کی مسلم قیادت اس بات پر متفق تھی کہ فلسطین کا سیاسی حل ہونا چاہیے جس کے لیے ضروری تھا کہ مسلمانوں میں یکجہتی ہو۔ مسلم ممالک کے مسائل کے تناظر میں اسلامی ممالک کا ایک بلاک بنایا گیا جو OIC کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا پہلا اجلاس مراکو اور دوسرا پاکستان کے شہر لاہور میں ہوا۔ دنیا بھر سے مسلم ممالک نے شرکت کی. شاہ فیصل، قذافی، یاسر عرافات، انور سعدات اور دیگر بیش بہا لیڈران نے اسلام کی بقا کی قسمیں کھائیں۔ لیکن اس تمام کوشش کو بڑی چالاکی سے مٹی میں ملا دیا گیا۔ ستر ہی کی دہائی میں ان تمام لیڈران میں سے بیشتر قتل کردیے گئے۔ نئے قائدین، جن میں سے بیشتر ان ممالک کی افواج سے منسلک تھے، نے مسلمانوں کے مسائل کو عالمی تناظر میں دیکھنا شروع کیا جیسے کہ سرد جنگ۔ اس آئینے میں اسلام کی جو صورت گری کی گئی اسے آگے چل کر Islam Militant کے نام سے پہچان ملی۔ مسلم اتحاد صرف اسقدر رہ گیا کہ ضیا الحق کے ہاتھوں اردن میں فلسطینیوں کے کیمپوں پر دھماکہ کر کے بہت سے نہتے فلسطینیوں کا قتل کروایا گیا۔ اردن اور مصر نے غزہ جانے والے راستے مسدود کردیے۔ ایران کو مسلم ممالک کا ولن بنا کر امریکہ نے سعودی عریبیہ اور دوسرے خلیجی ممالک کو اپنے سائے میں بٹھا کر اسلحہ کی نا ختم ہونے والی دوڑ میں شامل کر دیا۔ اس دوران نہتے فلسطینیوں کے پاس اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ غیر تربیت یافتہ اور زمینی حقائق سے نابلد قیادت کی پیروی کرتے۔
فلسطین ہو، کشمیر یا افغانستان، ان تینوں کے مسائل کی وجہ ان کی داخلی نا اتفاقی، کمزور اور نا سمجھ قیادت اور دشمنوں سے نبرد آزما ہونے سے متعلق اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح ہے۔ حماس ہو یا طالبان یا کشمیر کے جنگجو انہیں of Power Balance کی تھیوری کے ساتھ ساتھ یہ بھی سمجھنا ہو گا کہ ان کا مسئلہ مذہبی نہیں بلکہ علاقائی ہے اور موجودہ عالمی قوانین میں ان کا حل بھی اسی تناظر میں ملے گا۔ اس کی طرف پیش رفت ہوئی بھی ہے جیسا کہ بھارت کا کشمیر کی خود مختاری کو ختم کرکے اپنے اندر ضم کرنا اور امریکہ کا ابراہیم اکارڈ کی شرط پر مسلمانوں کو اسرائیل کی حمائت پر اکٹھا کرنا۔