گذشتہ دنوں وزیر اعظم عمران خان نے بہت سے منصوبوں کا افتتاح کیا۔ ہر تقریب میں ان کاانداز سخن ملتا جلتا تھا۔ ان کی گفتگو کا محور تین باتیں تھیں۔ اول یہ کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو سیرت رسولﷺ پڑھانی چاہیے۔ دوم، یہ کہ مغرب کی ذہنی غلامی سے نکلنے کے لیے انگلش میڈیم کو خیرباد کہنا بہت ضروری ہے۔ سوم، یہ کہ ہماری قوم کی تباہی کی ایک بڑی وجہ موبائل فون ہیں۔ اسی دوران پی ٹی آئی کے آفیشل اکاونٹ سے ایک ٹویٹ بھی کی گئی جس میں کہا کہ عظمت کا راستہ حضورنبی کریم ﷺ کا راستہ ہے۔ اسی سلسلہ میں خان صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ افغانیوں نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں۔ حوالہ امریکہ کا افغانستان سے انخلا تھا۔ پاکستانی قوم مجموعی طور پر طالبان کی اقتدارمیں واپسی پر اس لیے بھی خوش ہے کیونکہ امریکہ کو شکست ہوئی ہے۔ عمران خان نے اس شکست کو غلامی سے نجات قرار دیا۔ سوچا تو کچھ بھی جا سکتا ہے لیکن کیا ذ ہنی غلامی کو واقعتاََ صرف مغربی تسلط ہی سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، اس کی اور بھی شرحیں کی جا سکتی ہیں۔
آپ ﷺ کی آمد کا مقصد دنیا کے سامنے ایک رول ماڈل رکھنا تھا۔ آپﷺ کو معاملات میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، انبیا کرام کومعجزے بجز روحانی کے، کسی مادی یا دنیاوی ہدف کی تکمیل میں مدد کے لیے عطا نہیں کیے گئے۔ حضورﷺ نے جنگیں بھی لڑیں۔ آپﷺ کوہر طرح کے مصائب سے گزارا گیا تاکہ سب کو یہ بتایا جاسکے کہ دنیا نشیب و فراز، ہار جیت کی ایک مشکل چڑھائی ہے جسے سب نے محنت اور لگن سے پار کرنا ہے۔ کسی بھی لیڈر کی راحت اسکے مشن کی تکمیل سے ہے۔ اسی لیے فتح مکہ آپﷺ کی زندگی کا سب سے بہترین دن تھا۔ یہ ایک ایسا معرکہ تھا جس میں آپﷺ نے دنیاکے عظیم ترین لیڈر کی حیثیت سے خطاب فرمایا۔ اپنے خطبہ میں آپ ﷺ نے بارہا عدم مساوات جیسی سماجی برائی کی طرف توجہ مبذول کرائی اور اسے تعلقات و معاملات میں رد کرنے کی تلقین کی۔ خدا نے یہ دنیا مساوات کے اصولوں پر نہیں بنائی۔ یہاں کوئی غریب پیدا ہوتا ہے کوئی سونے کا چمچ لے کر۔ اس کے باوجود لوگوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اس فطری عدم مساوات کو اپنی حکمت، دردمندی اور فراخ دلی سے دور کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔ اسی سے دراصل فلاحی ریاست جنم لیتی ہے، اس سسٹم کو حضرت عمرؓ نے بدرجہ اتم نافذ کیا اور یورپی ممالک نے اس کی پیروی کرتے ہوئے مثالی معاشرے تشکیل دیے۔ میکس وبر نے اپنی کتاب The Protestant Ethic and the Spirit of Capitalism میں مغربی ممالک کی معاشی کامیابی کو محنت، کام سے لگن اور سچائی جیسی خوبیوں سے جوڑا ہے۔ اس رویے کے نتیجے میں جو معاشرہ وجود میں آیا وہاں لوگ خیانت، جو جھوٹ کی سب سے مکرو ہ قسم ہے، کو جرم سمجھتے ہیں۔ چا ہے اس کا تعلق پروفیشنل معاملات سے ہو یا ذاتی زندگی سے۔ ایسا نہیں کہ خیانت مغربی ممالک میں سرے سے ہے ہی نہیں لیکن اس کی مقدار کم ہے۔ کیونکہ وہاں کا قانون ایسے مجرموں کو پنپنے کا موقع نہیں دیتا۔ اسی طرح ریاست عدم مساوات کو کنٹرول کرنے کیلئے معاشی طور پر غیر محفوظ لوگوں کی مالی معاونت کرتی ہے۔
وزیر اعظم کا خیال ہے کہ اگر ہم بچوں کو سیرت النبیﷺ پڑھا ئیں گے، انہیں قومی زبان یعنی اردو میں تعلیم دیں گے اور انہیں موبائل جیسی علت سے دور رکھیں گے تو معاشرے میں سدھا ر آ جائے گا۔ پاکستان جیسا ملک جو گردن تک مغربی ممالک کے قرضوں میں جکڑا ہوا ہے، جس کا پورا مالیاتی نطام سودی بنیادوں پر کھڑا ہے جہاں ورلڈ بینک کے مطابق 40 فیصد عوام کو security Food یعنی غذائی قلت کا سامنا ہے، جہاں سزاوں کی شرح فقط تین فیصد ہے، جہاں منصفوں اور سیاست دانوں کے کردار کرپشن سے آلودہ ہیں، جہاں سٹیٹ بنک آ ف پاکستان کے مطابق ہنر مند افراد کی انتہا درجے کی قلت ہے، جہاں بیشتر قوانین انگریز دور کی باقیات ہیں اور جہاں غربت کی وجہ سے ایک بڑی تعداد اپنے بچوں کو پانچویں جماعت کے بعد کام پر لگانے پر مجبور ہے، وہاں صرف سیرت پڑھانے سے کیا حاصل ہو گا۔ اگر نبی ﷺ مدینہ میں عدل کا نطام موثر نہ بناتے اور اپنے ساتھیوں میں محنت، جدو جہد اور سچائی کے ذریعے زندگی سے اپنا حصہ لینے کی لگن نہ پیدا کرتے تو کس طرح ممکن تھا کہ ایک مثالی ریاست وجود میں آتی۔ سیرت النبیﷺ دراصل قرآن اور اس میں بتائے گئے قوانین کی تشریح ہے اور قانون کونا فذ کیا جاتا ہے۔ ہماری الجھن یہ ہے کہ ہم نے اسلامی قانون کواخلاقیات کے ایک محدود دائرے میں قید کردیا ہے جس کا تعلق محض جنسی خواہشات سے ہے جس کو جائز حدود میں رکھنے کی کوشش میں بھی ہم بری طرح ناکام ہوئے۔ پاکستان کا شمار اس وقت ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ فحش فلمیں دیکھی جاتی ہیں۔ اسی طرح کرپشن کے انڈیکس میں بھی پاکستان کا نام رہا ہے۔
وزیر اعظم حضرت علی ؓکے ایک قول کا حوالہ دیا کرتے ہیں کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے لیکن ظلم کا نظام نہیں۔ مگر ظلم کا خاتمہ تو عدل سے ہی ممکن ہے جس کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ فوجداری نظام کی اصلاح کی بات ہی نہیں کی جاتی۔ پولیس اور عدالتوں کا نظام تھوڑی مرہم کاری سے جوں کا توں چلایا جارہا ہے۔ عدالتوں میں 20 لاکھ سے زیادہ مقدمات زیر التوا ہیں۔ پروسیکیوشن سسٹم تنہائی کا شکار ہے اور quality یعنی معیار سے متعلق ہماری نفسیات بالکل جواب دے گئی ہے۔ ہر کوئی پیسے سے پیسا بنانے میں مصروف ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں معیاری سروس اور ریسرچ ڈیویلپمنٹ کے ذریعے مالیاتی انڈیکس بہتر بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان کو انگریزی زبان، موبائل یا جنسی بے راہروی سے اتنا خطرہ نہیں جتنا عدالتوں اور پارلیمان میں بیٹھے رول ماڈلز سے ہے۔ جب تک حکمران اشرافیہ سیرتﷺ پر عمل نہیں کرے گی تب تک عوام سے اس کی توقع رکھنا خواہش تو ہو سکتی ہے حقیقت نہیں۔ قانون پر لوگوں کا اعتماد ان میں محنت، لگن اور کام سے اخلاص جیسے محرکات پیدا کرتا ہے جبکہ قانون سے متعلق غیر سنجیدگی قوم کو ہجوم میں بدلنے کا محرک بنتی ہے۔