گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا! سیاست کا اخلاقیات سے یہی تعلق ہے، اسی لیے کہتے ہیں سیاست امکانات کا کھیل ہے لیکن پاکستان جیسے ممالک میں سیاست تضادات کا مجموعہ ہے۔ کرپشن کے خاتمہ کی دعویدار پی ٹی آئی نے یوسف رضا گیلانی کا نوٹیفکیشن روکنے کی درخواست دی تو الیکشن کمیشن نے درخواست پر ان افراد کے نام لکھنے کی بھی ہدایت کی جو مستفید ہوئے تاکہ جس نے پیسے لیے وہ دندناتا نہ پھرے اور ترمیم شدہ درخواست دوبارہ دائر کرنے کی ہدایت کی۔ ایسا کرنا تحریک انصاف کے لیے مشکل ہے، بقول شیخ رشید وزیراعظم کو معلوم ہے کہ سینٹ انتخابات میں سولہ منحرف اراکین کون سے ہیں۔ بقول شیخ رشید: چپ سادھ رکھی ہے کہ حکومت میں رہنے کے لیے اصولوں کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ دوسری طرف فیصل واوڈا کی بطور سینیٹر کامیابی کا نوٹیفکیشن روکنے کی درخواست کے خلاف سندھ ہائیکورٹ نے حکم امتناعی جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔ 9 بجے سینٹ انتخابات میں بطور وزیر ووٹ ڈال کر 9 بجکر 45 منٹ پر قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دے کر قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا سکتی ہے، عوام کی نہیں۔ اخلاقی طور پر انہیں اڑھائی سال پہلے ہی الیکشن کمیشن میں دائر درخواست کے بعد مستعفی ہو جانا چاہیے تھا یا اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کرتے ہوئے انہیں جھوٹا بیان حلفی جمع کروانے پرپارٹی سے الگ کردیا جانا چاہیے تھا لیکن وہاں ان کی پارٹی کے لیے خدمات آڑے آ گئیں۔ اب اگر یوسف رضا گیلانی بقول پی ٹی آئی آصف زرداری کے ساٹھ ملین ڈالر بچاتے ہوئے نااہل ہوئے تو ان کی اپنی پارٹی کے لیے گرانقدر خدمات کو نظر انداز کیسے کیا جا سکتا ہے۔ پھر پی ٹی آئی کو اس پر اعتراض کیوں؟ ۔ سینٹ انتخابات میں پیسے کی ریل پیل رہی۔ پی ٹی آئی کے اپنے ممبران کی طرف سے بلوچستان میں سینٹ کی نشست مبینہ طور پرستر کروڑ میں خریدنے والے عبدالقادر اور 35 کروڑ کے بدلے سندھ سے سینٹ ٹکٹ حاصل کرنے والے سیف اللہ ابڑو کے الزام پر عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے کر اپنے امیدوار کو ان کے حق میں دستبردار کروا کر آزاد امیدوار کے طور پر سینٹ میں کامیابی کا راستہ ہموار کرنے، پھر بطور سینیٹر عبدالقادر کی پی ٹی آئی میں شمولیت کو پیسے کا کھیل ہی تو کہا جا سکتا ہے۔
اعلیٰ اخلاقی اصول متقاضی ہیں کہ پی ڈی ایم 53 سینیٹرز کے ساتھ سینٹ میں برتری رکھتی ہے اور اصولاً چیئرمین سینٹ پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی کی عددی برتری تسلیم کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ نامزد ہی نہیں کرنا چاہیے۔ 47 سینیٹرز کے ساتھ پی ٹی آئی کس کرشمے کی امیدمیں صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ بنوا سکے گی، سب جانتے ہیں۔ کیا چیئرمین سینٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے کا انقلابی فیصلہ کر کے تحریک انصاف تبدیلی لے آئے گی؟ ممکن نہیں، کہ اوروں کو نصیحت خود میاں فضیحت کا محاورہ سب نے سن رکھا ہے۔
تبدیلی لانی ہو تو نوے دن ہی کافی ہیں۔ تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا،۔ اگر اراد ہ ہو تو کیا مشکل تھا کہ انتخابی اصلاحات کے لیے راہ استوار کی گئی ہوتی۔ چور، ڈاکو کہنے اور لاتوں، مکوں کی سیاست کرنے کے بجائے بلدیاتی نظام وضع کر کے لاگو کیا جاتا۔ مہنگائی کا راستہ روک کر عوام کی مشکلات کا خاتمہ کیا گیا ہوتا تو آج حالات قطعی مختلف ہوتے۔ علی حیدرگیلانی کی ویڈیو میں بھی دس کروڑ ڈویلپمنٹ فنڈز دینے کی بات سامنے آئی اور وزیراعظم کی طرف سے اراکین کو چالیس کروڑ کے ترقیاتی فنڈز جاری کرنے کی بات بھی سامنے آئی، جو سپریم کورٹ کے نوٹس لینے پر دب گئی لیکن ثابت ہوا کہ ہمارے منتخب اراکین کو نالیاں پکی کروانی اور سڑکیں بنوانی اس لیے ضروری ہوتی ہیں کہ وہ اپنے حلقوں میں جا سکیں اور آئندہ کے انتخاب جیت سکیں۔ جب قومی اسمبلی میں ٹھیکیدار جمع ہوں تو پھر ان سے پالیسی بنانے کی معصوم امید لگائے عوام مایوس اور بددل ہی ہوں گے۔
دوسری طرف پی ڈی ایم بھی انہی سیاسی تضادات کا مجموعہ ہے۔ چارٹر آف ڈیموکریسی کے باوجود سینٹ انتخابات میں صادق سنجرانی کا جیت جانا پیپلزپارٹی کے نظریہ ضرورت کی شکل تھا۔ 2019ء میں تحریک عدم اعتماد میں ناکامی پر مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کو وہی چپ لگ گئی تھی جو اب سولہ اراکین کے انحراف کے بعد پاکستان تحریک انصاف کو لگی ہے۔ پیپلزپارٹی کی یقین دہانی پر کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہے، ن لیگ کا مفاہمتی انداز سیاسی ناپختگی تھی، جس کا اندازہ حمزہ شہباز کی غیر متوقع رہائی اور پنجاب کی سیاست میں واپسی سے بخوبی ہو گیا۔ یہ غیر جانبداری بشرط استواری ہے اور دونوں جماعتیں مختلف ادوار میں مشروط غیر جانبداری کا فائدہ اٹھا چکی ہیں۔ اس دفعہ وقت پھر پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے۔ فی الحال میچ پھنس چکا ہے۔ سینٹ انتخابات میں جو ہوا اس کی کسی کو توقع اور امید نہیں تھی۔ پی ڈی ایم نے بے خبری میں حکومت کو وہ زخم دیا ہے جس کے مندمل ہونے کے امکانات کم ہیں۔ اگر حکومت چیئرمین سینٹ کا انتخاب جیت گئی تو تحریک انصاف کے بیانیے کی ہار ہو گی اور چیئرمین سینٹ پی ڈی ایم سے آنے کا مطلب تحریک عدم اعتماد کے طور پی ڈی ایم کا مارچ ہو گا۔ اصل معرکہ پنجاب ہے۔ وزیراعظم عمران خان کو بتا دیا گیا ہے کہ اگر عثمان بزدار کو وہ تبدیل نہیں کریں گے تو پھر تبدیلی کے دوسرے راستے بھی ہیں۔ تخت لاہور کا وارث لاہور سے باہرکسی کو منظور نہیں اور گجرات سے مسلم لیگ ن کو گوارا نہیں۔ تخت لاہور چودھری پرویزالٰہی کے حوالے کرنے کے علاوہ تحریک انصاف کے پاس کوئی محفوظ راستہ نہیں، ورنہ جنوبی پنجاب کے اراکین کی حمایت سے ن لیگ سیاسی بساط الٹ سکتی ہے۔ بشرطیکہ کوئی نئی ویڈیو نہ آ گئی۔ کیونکہ اس سیاسی سیزن میں ہر ٹرن کسی نہ کسی ویڈیو کے ذریعے ہی آتا ہے۔ بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔